بحریہ ٹاون: طاقت ،اختیار یا خدمت؟


\"Mansoorطاقت اور اختیار ملنے سے لوگ بدلتے نہیں بے نقاب ہو جاتے ہیں، گذشتہ چند دہائی قبل لوگوں سے اگر بحریہ کی بابت بات کی جاتی تھی تو ان کی سوچ صرف پاکستان بحریہ (نیوی) یا اس سے منسلک اداروں تک ہی جاتی تھی۔ پاکستان کی عوام ابھی بحریہ ٹاون کے نام سے نا آشنا تھی، 1996 کے اوائل سے بحریہ ٹاون کے نام نے جب تعمیرات کے شعبے میں قدم جمانے شروع کئے تو مجھ جیسے کئی لوگ کا خیال یہ ہی تھا کہ یہ پاکستان آرمڈ فورس پاکستان بحریہ کا کوئی ذیلی ادارہ ہے ، لوگ آنکھیں بند کر کے بحریہ ٹاون میں  اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی لگانے لگے۔ زیادہ تر لوگ اسی خام خیالی میں تھے کہ بحریہ ٹاون بحریہ کا ہی حصہ ہے جو کہ غلط تاثر تھا۔

بحریہ ٹاون نے کثیر سرمائے سے پاکستان بھر میں تعمیرات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا جس سے ہزاروں افراد کو روزگار ملا مگر ساتھ ساتھ  زمین کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا مصنوعی سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا جس سے کئی لوگ ارب پتی اور کئی لوگ کنگال ہو گئے۔

 28 مارچ 2015 ڈان نیوز میں شائع ہونے والی ایک نیوز اسٹوری کے مطابق 2002 میں بحریہ فاونڈیشن نے بحریہ ٹاون پر بحریہ کا نام مزید نہ استعمال کرنے کے حوالے سے کیس کر دیا، کیس کی تفصیلات کے مطابق، ملک ریاض سے منسلک ایک فرم حسین گلوبل نے بحریہ فاونڈیشن کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جسکے تحت بحریہ ٹاون  وجود میں آیا۔ اور بحریہ کے نام کی وجہ سے پاکستان کے ہزاروں افراد نے بحریہ ٹاون میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی، 2002 میں بحریہ فاونڈیشن نے بحریہ ٹاون کو بحریہ کا لفظ استعمال کرنے سے منع کیا

 اور اس حوالے سے عدالت میں کیس بھی رجسٹر کر دیا، برس ہا برس کیس چلتا رہا اور بحریہ ٹاون پھلتا پھولتا رہا اور 2015 میں روالپنڈی کی ایک عدالت نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے بحریہ ٹاون کو بحریہ کا نام استعمال کرنے سے روک دیا، مگر بعد میں اسی کیس کے سیکوئل میں سیشن کورٹ نے بحریہ ٹاون کو بحریہ کا لفظ استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔

بحریہ ٹاون اور اس سے جڑا نام ملک ریاض پاکستان بھر میں کسی تعارف کے محتاج نہیں، اربوں روپے کی سرمایہ کاری نے جہاں لاکھوں لوگوں کو رہنے کے لئے محفوظ اور باوقار رہاہشی منصوبے فراہم کئے تو پاکستان بھر کے غریب اور لاچار لوگوں کہ لئے بحریہ دسترخوان اور کئی فلاحی منصوبوں نے ملک ریاض کا نام ایک مسیحا کے طور پر متعارف کروا دیا، مگرسوال یہ ہے کہ کیا یہ اس بات کی اجازت ہے کہ آپ بے دھڑک کوئی بھی ہتھکنڈا استعمال کرتے ہوئے زمین ہی نا ہتھیائیں بلکہ لوگوں کو بھی خرید لیں؟ پاکستان کے بااثر افراد سے تعلقات، خرید لینے کی طاقت اور سیاسست سے دور رہنے کے باوجود پاکستان کے زیادہ تر عوام ملک ریاض کو ایک ایسے شخص کے نام سے جانتے ہیں جو لوگوں کے دکھ درد میں کام آتا ہے، ایک عام تاثر یہ بھی سامنے آیا کہ قدرتی آفات اور عمومی مسائل میں مالی معاونت اگر کوئی فراہم کر سکتا ہے تو وہ ملک ریاض ہی ہے۔ مگر ساتھ ساتھ سوشل میڈیا میں کئی متضاد چیزیں بھی دیکھنے اور پڑھنے کو ملیں، جن میں سر فہرست وہ اپیل ہے جو کراچی کے ایک نجی اخبار کے صحافیوں کی جانب سے کی گئی، جس میں بتایا گیا کہ اخبار کے ملازمین تنخواہ نہ ملنے کے سبب فاقوں تک پہنچ گئے ہیں جب کہ اخبار کے شئیر ہولڈرز میں ملک ریاض صاحب کا نام بھی لیا گیا۔

پاکستان کے سابقہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے صاحبزادےاور ملک ریاض کے مابین تنازعے اور اسی تناظر میں سوشل میڈیا میں ایک لیک انٹرویو کلپ (جو دو نامور اینکرز اور ملک ریاض پر مبنی تھا) کی بازگشت ابھی تھمی ہی تھی  کہ ڈان نیوز پر شائع ہونے والی اسٹوری نے پھر سے کئی سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔

سوشل میڈیا میں جہاں ڈان میڈیا گروپ کی بے لاگ صحافت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے وہاں یہ سوال بھی کھڑے کئے جا رہے ہیں کہ کیا اشتہارت سے صحافت کو خریدا جا سکتا ہے؟

ماضی میں ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ جب پاکستان کے ایک بڑے سرمایہ کار گروپ اوراس سے جڑے بینک کے حوالے سے کچھ تحقیقات کا آغاز سرکاری سطح پر کیا گیا تو ایک حکمت عملی کے تحت اس گروپ نے غیر ضروری طور پر پاکستان بھر کے برقی اور پرنٹ ابلاغ میں اپنی اشتہاری مہم کا آغاز کر دیا جس کے نتیجے میں صحافت اشتہار کے بوجھ تلے دب گئی۔ صرف ایک آدھ ہی میڈیا گروپ ایسا تھا جس نے اپنی ساکھ پر اشتہار کاری کی ضرب کاری کو ناکام بنایا۔

ایک بار پھر عدالتی نوٹس، ہتک عزت اور اس جیسے کئی مسائل کے ساتھ ساتھ پرکشش اشتہارات کا لالچ دے کر میڈیا کو ورغلایا جا سکاتا ہے اُٹھنے والے سوالات کو دبایا جا سکتا ہے مگر ایک عام پاکستانی کے دماغ میں اُٹھنے والے سوالوں کا جواب اب کوئی شفاف عدالتی کارروائی ہی دے سکتی ہے سوال جو بے چین کر دیتے ہیں ڈان نیوز پر شائع ہونے والی رپورٹ کئی سوالوں کو جنم دیتی ہے۔

کیا پاکستان میں لینڈ مافیا اس قدر طاقتور ہے کہ ریاستی ادارے بھی اسے نکیل ڈالنے میں ناکام ہیں؟ مجھے ماضی میں ڈان نیوز ٹی وی پر چلنے والا ملک ریاض کا ایک انٹرویو یاد آ رہا ہے جس میں خود ملک ریاض نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ پاکستان کا ہر بڑا آدمی لینڈ مافیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں نے جب بڑا آدمی کہہ دیا تو اس میں کچھ رہ نہیں جاتا۔۔ سوال تو یہ ملک ریاض صاحب آپ بھی تو بڑے آدمی ہیں, کیا نہیں؟

آخر کیوں کوئی بھی قبضہ مافیا زمین پر قبضہ کرنے کے لئے اداروں کے ساتھ ساز باز کر کے لوگوں کی آبائی زمین بزور طاقت چھین لیتی ہے! کیوں بے بس لوگوں کو ڈرا دھمکا کر تشدد کا نشانہ بنا کر بے بس لوگوں کو در بدر کر دیا جاتا ہے؟ گاوں دیہات تو چھوڑو جنگلات کی زمین بھی نہیں چھوڑی جاتی۔

13 مارچ 2014 کو فیض محمد کا باغ اُجاڑ دیا گیا، یہ باغ 56 ایکڑ پر پھیلا ہوا تھا، کجھور کے درخت اکھاڑ کر لے گئے اور مالک بے بسی سے دیکھتا رہا، وہ کجھور کے درخت آج کہاں اپنی چھاوں دے رہے ہیں اس سوال کا جواب جاننا اتنا مشکل نہیں!  ایک عام پاکستان شہری ہونے کی حثیت سے میرا سوال ہے کہ کیا کوئی ادارہ اس بات کی تحقیق کرے گا کے کیوں فیض محمد کو بے زمین کیا گیا اور کیوں یہ ظلم ڈھایا گیا؟

کیا پاکستان میں زمین خریدنے کی کوئی حد مقرر ہے؟ اگرہے تو کتنی؟ اور اگر نہیں تو کیوں؟ کیا یہ اسٹیٹ کے اندر اسٹیٹ بنانے جیسا نہیں، کوئی بھی ارب پتی لاکھ دو لاکھ ایکٹر زمین خرید کر رہاشی اسکیم کا نام دے کر ایسا کر سکتا ہے، اس سلسلے میں صرف قانون سازی کی ہی ضرورت نہیں بلکہ اس پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانا ہو گا۔

کسی بھی رہاشی اسکیم کے لئے پانی اس کی لائف لائن ہوتا ہے، دو کروڑ کی آبادی کے شہر کراچی کے آبی وسائل پر اگر کوئی رہاشی اسکیم ڈاکہ ڈال رہی ہے تو کیوں اس پر ایکشن نہیں لیا جا رہا ؟ آخر کب کوئی ادارہ اس بات کی تحقیق کرے گا کہ کیوں کراچی کا پانی غیر قانونی طریقے سے کہیں اور دیا جا رہا ہے ؟

پاکستان میں آثار قدیمہ کے آثار مٹائے جا رہے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں، ہو بھی کیسے سکتا ہے جب زندہ لوگوں کے گھر ایک ٹاون کو بسانے کے لئیے اجاڑ دئے جائیں تو ایسے میں قدیم فن تعمیرکی مثال قبریں اور مقبرے کہاں جا کر اپنی تباہی پر فریاد کریں؟

میں نہیں جانتا کہ ملک ریاض صاحب اور بحریہ ٹاون کراچی پر اٹھنے والے سوالات کتنے سچ ہیں اور کتنے جھوٹ، اس بات کا پتہ لگانا قانون ساز اداروں کا کام ہے ایک صحافی کا کام صرف معاشرے میں ہونے والی نا انصافیوں کو نشان زد کرنا ہوتا ہے آواز بلند کرنا بس۔ اس کے آگے حکومت اور ادارے جو عوام کے دئے گئے ٹیکس اور ووٹ سے چلتے ہیں یہ ان کی ذمے داری ہے کہ عوام کے مفادات کا خیال رکھیں اور کوئی شخص اور ادارہ اگر کسی بھی طرح وسائل کا ناجائز استعمال کر رہا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کریں۔

مگر جب بھی میں کسی بااثر ادارے اور فرد کے خلاف کارروائی ہونے کا شور سنتا ہوں مجھے اس شور میں ایک آواز سنائی دیتی ہے۔۔۔

تم نہیں جانتے ملک کے طاقتور ترین افراد کو میں نے کتنی بڑی بڑی رشوتیں دی ہیں۔۔اگر تم کو صرف رشوت میں دی جانے والی رقم کا ہی علم ہو جائے تو تمیں ہارٹ اٹیک ہو جائے۔۔۔

مجھے ہارٹ اٹیک کے ڈر سے زیادہ اس بات کا تعجب ہے کہ کوئی سوال کیوں نہیں کرتا؟

سوال ہی تو کرتا ہوں۔۔۔

جواب تو نہیں مانگا۔۔

کیوں زمیں کی چاہت میں

بے اماں لوگوں کی

چھت گرا دیتے ہو۔۔

سوال ہی تو کرتا ہوں

جواب تو نہیں مانگا۔۔۔۔۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments