عورتیں کمزور نہیں ہوتیں


لڑکی ہے گھر کا کام کاج سکھاؤ اسے دوسرے گھر جانا ہے، لڑکی ذات ہے اسے اس طرح شام میں کوچنگ نہیں جانا چاہیے، لڑکی ہے پڑھ لکھ کر کرے گی کیا؟ مستقبل میں ویسے بھی امور خانہ ہی تو سنبھالنا ہے، لڑکیوں کو زیادہ نہ پڑھاؤ ان کے دماغ آسمان پر چلے جاتے ہیں، جاب کرنے والی خواتین ٹھیک نہیں ہوتیں۔ یہ وہ جملے ہیں جو روز ہمارے ارد گرد موجود افراد سے مقت مشورے کے طور پر ملتے ہیں۔ ہاں لڑکیوں کو نہیں پڑھانا چاہیے کیونکہ اگر لڑکی نے پڑھ لیا تو اس کو شعور آجائے گا، زندگی کی مشکلات سے نمٹنا آجائے گا، وہ اپنی نسل کو اچھی تربیت دی سکے گی، اپنے بچوں کو بھی پڑھائے گی تو آنے والا معاشرہ بالکل ایسا نہیں ہوگا جیسا آج کا ہے۔ میرے نزدیک تو ’’لڑکیوں کو نہ پڑھاؤ‘‘ والی سوچ رکھنے والے ہی پاکستان کی ترقی کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔

لڑکیوں کو تعلیم دینا صرف اس لیے ہی ضروری نہیں کہ وہ جاب کریں یا ملک کی خدمت کر سکیں بلکہ اس لیے بھی بہت ضروری ہے کہ وہ پر اعتماد ہو جائیں، اپنے آپ کو کمزور نہ سمجھیں، مستقبل میں اگر شادی کے بعد بھی مالی مسائل ہوں تو اپنے ہمسفر کا ساتھ دے سکیں، شادی ناکام ہو تو اپنے بچوں کو اچھا مستقبل دے سکیں، ماں باپ بوڑھے ہوجائیں تب بھی والدین کو یہ فکر نہ ہوکہ میری بچی کا کیا ہوگا؟

سیاست ، کھیل، ٹیکنالوجی، علمی و فنی ہر میدان پاکستانی خواتین کی کارگردگی سے چمکتا نظر آ تا ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو اس تاریخ میں اور زیا دہ اضافہ ہوجائے۔ ہمیں ارفع کریم جیسی قابل لڑکی اور مریم مختار جیسی بہادر پائلٹ اور مل جائیں۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کچھ کمی نہیں بس تھوڑا اعتماد دینے کی ضرورت ہے جیسے زینت عرفان کی ماں اور بھائی نے دیا تو زینت نے موٹر سائیکل پر شمالی علاقہ جات کا سفر اکیلے کرلیا۔ خواتین موٹر سائیکل کیا ڈمپر بھی چلا سکتی ہیں جیسے تھر پارکر کی رانی چلاتی ہے۔ خواتین کمزور نہیں ہوتی انھیں کمزور بنا دیا جاتا ہے جب ماں، باپ ، بھائی ، شوہر اور خاندان والےان کے کامیابی کی طرف بڑھتے قدم روک دیتے ہیں، جب اپنے تنقید کرنے والوں میں شامل ہوکر ان کی مخالفت کرتے ہیں۔

خواتین خاندان کی مرضی کے خلاف جا کر بھی کامیابی کی مناذل طے کر سکتی ہیں لیکن اپنوں سے لڑنا آسان نہیں ہوتا، اپنوں سے لڑنے میں اپنا دل بھی بہت دُکھتا ہے۔ لڑکیاں کمزور نہیں حساس ہوتی ہیں وہ ہتھیار جب ڈال دیتی ہیں جب ان کے اپنے ان کے مخالف آکر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ خواتین بہت کچھ کر سکتی لیکن اپنوں کا ساتھ ہو تو آسانی سے ترقی کر سکتی ہیں۔ بہت سی خواتین آپ کے ارد گرد بھی موجود ہوں گی جنھوں نے اپنے خاندان، معاشرے کی بہت سی تلخ باتیں سن کر بھی اپنے بچوں کی اکیلے اتنی اچھی تربیت کی ہے کیونکہ خاتون کمزور نہیں ہوتیں۔ ماں ہو تو بچوں کو اپنے پروں میں سمیٹ کر اپنے جگر کے گوشوں کو دنیا کی سختی سے بچاتی ہے، بہن ہو تو اپنے بھائی بہن کے لیے ڈھال بن کر دنیا سے لڑ تی ہے ، بیوی ہو تو شوہر کے ہر دکھ میں اس کے ساتھ کھڑے ہو جا تی ہے ۔

معاشرہ اتنا ظالم ہے کہ تعلیم اور کام کے غرض سے نکالنے والی خواتین پر تو طنز کے تیر چلاتے ہی ہیں لیکن ان کے گھر والوں کو بھی کچھ ایسے طعنےسننے کو ملتے ہیں کہ ’’ گھر والے شادی اس لیے نہیں کرتے لڑکی کی کمائی کھانی ہے‘‘، یا ’’یہ کیسا شوہر ہے جو بیوی کو کمانے جانے دیتا‘‘ یا ’’یہ کیسا باپ ہے جو بیٹی کو اتنی دور اکیلے پڑھنے بھیج دیتاہے، بیٹی کو کچھ زیادہ ہی آزادی دی ہوئی ہے‘‘،’’ کیسا بھائی ہے بہن رات کو جاب سے آتی ہے اسے غیرت نہیں‘‘۔ تو جناب بہت ہی قابل احترام ہیں وہ خاندان والے اور خاص طور پر مرد حضرات جو معاشرے کی تلخ حقیقت کو جانتے ہوئے بھی کہ یہ دنیا کتنی ظلم ہے پھر بھی اپنی لخت جگر بیٹٰی، لاڈلی بہن اور بیوی پر بھروسہ کرتے ہیں انھیں اعتماد دیتے ہیں کہ جاؤ اور ترقی کی منازل طے کرو ہم تمھارے ساتھ ہیں، تمھیں دنیا والوں کی باتوں پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).