انڈیا: مسلمان اپنی نماز کا انتظام خود کریں


انڈیا مسلمانوں کی آبادی کے اعتبار سے انڈونیشیا اور پاکستان کے بعد دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔

ملک میں ان کی آبادی 18 کروڑ ہے۔ انڈیا دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اور آئین کی رو سے ہر شخص کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ ہر کوئی بے خوف وخطر اپنے مذہب پر عمل کر سکتا ہے، مذہب ترک کر سکتا ہے اور اگر چاہے تو اپنا مذہب تبدیل بھی کر سکتا ہے۔ لوگ اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ اور ترویج کے لیے آزاد ہیں۔

بعض اطلاعات کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ مساجد انڈیا میں ہیں۔ مختلف اندازوں کے مطابق ملک میں مساجد کی تعداد تین سے پانچ لاکھ تک بتائی جاتی ہے۔اس کے علاوہ ہزاروں مقبرے، آستانے اور درگاہیں بھی ہیں جو ماضی کے مسلمانوں کی یاد دلاتی ہیں۔

ملک میں روایتی طور پر مذہبی رواداری کا چلن رہا ہے۔ اور مختلف مذاہب کے لوگ ایک ساتھ مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ عبادت کے لیے مسجد کی تعمیر میں کبھی روکاوٹ نہیں آتی تھی۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ مساجد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو تا گیا۔

گذشتہ 30، 35 برس میں ملک میں اقتصادی ترقی کے ساتھ بڑے بڑے شہروں نے ملازمت اور روزی کے نئے راستے کھول دیے۔ ان برسوں میں دیہی علاقوں اور چھوٹے چھوٹے قصبوں سے کروڑوں لوگ بڑے شہروں میں آ کر بستے گئے۔ کروڑوں کی تعداد میں مسلمانوں نے بھی ہجرت کی۔ ان کی پہلی توجہ روزی روٹی اور ملازمت پر مرکوز تھی۔

نوئیڈا، بنگلور، پونے، گروگرام، دلی، حیدرآباد اور فرید آباد میں نئی نئی بستیاں وجود میں آئیں۔ ان نئی بستیوں میں غالب اکثریت ہندوؤں کی تھی۔ ہندوؤں کے مذہبی اداروں اور خود ہندو شہریوں نے اپنی مذہبی ضروریات کے مطابق اپنی عبادت گاہیں تعمیر کیں۔ لیکن مسلمان اپنی کم آبادی اور بکھرے ہونے کے سبب اپنی نئی عبادت گاہیں تعمیر نہیں کر سکے۔

پچھلی دو دہائیوں میں پیشہ ور کاریگروں کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ اور مڈل کلاس کے مسلمانوں کی تعدا د میں تجارتی اور کاروباری شہروں میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ بڑے شہروں میں مساجد کی تعمیر ایک انتہائی مہنگا عمل ہے۔ مسلمان چونکہ منظم نہیں ہیں اس لیے شہروں میں اضافی مساجد کی ضرورت کے باوجود وہ تعیمرنہیں کی جاسکیں۔ دوسرے اس مدت میں ملک میں رفتہ رفتہ ایک تبدیلی یہ آئی کہ نئے علاقوں میں مساجد کی تعمیر کے لیے منظوری ملنا ایک دشوار عمل ہو گیا۔ کئی مقامات پر مقامی لوگوں کی مخالفت کے سبب بھی مساجد کی منظوری ملنے میں دشواری پیش آنے لگی۔

مسجدوں کی قلت کے سبب بہت سے مقامات پر مسلمان اپنی نمازیں بالخصوص جمعہ کی نماز خالی پڑی سرکاری زمینوں اور پلاٹوں پر ادا کرنے لگے۔ کئی مقامات پر مسجدوں کی صفیں مساجد کی فصیلوں سے نکل کر سڑکوں تک پھیل گئیں۔ مسلمانوں نے بعض مقامات پر عید کی نمازیں سڑکوں اور شاہراہوں پر ادا کرنی شروع کر دیں۔ نمازوں کے دوران کئی شہروں میں راستے بند کر دیے جاتے ہیں اور ٹریفک کے راستے بدلنے پڑتے ہیں۔

بہت سے سماجی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عام شہریوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا کرنے میں کھلے مقامات اور سڑکوں پر نماز پڑھنے نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

مذہب اگرچہ کسی شہری کا قطعی طور پر ایک انفرادی اور ذاتی معاملہ ہے اور اس میں ریاست کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے ۔ لیکن شہروں کی منصوبہ بندی میں جس طرح سکول کالجز، ہسپتال اور دوسری سہولیات کا انتظام ہوتا ہے اسی طرح مذہبی ضروریات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ نئے شہروں کی منصوبہ بندی میں حکومت اور انتطامیہ نے بیشتر مقامات پر مسلمانوں کی مسجدوں کی ضرورت کو نظر انداز کیا ہے ۔ لیکن مسلمان بجائے خود اجتماعی طور پر اپنا انتظام کرنے کے حکومت کا منہ دیکھتے رہے اور خود کو مظلوم سمجھتے رہے۔

دلی کے نواحی شہر گروگرام میں بعض ہندو تنظیمیں کھلے مقامات پر نماز پڑھنے کی مخالفت کر رہی ہیں۔ ریاستی حکومت بھی اس کے خلاف ہے۔ بہت سے لوگ اس مخالفت کو ہندتوا کے ایجنڈے سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوؤں کے بہت سے مذہبی تیج تہوار سرکاری زمینوں پر ہی منعقد ہوتے ہیں۔ لیکن اس بحث کا اہم پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں کو سڑکوں اور کھلے مقامات پر نماز پڑھنے کے بجائے نماز اپنی مسجدوں اور مقررہ مقامات پر ہی پڑھنی چاہیے۔ نماز پڑھنا مسلمانوں کا انفرادی اور ان کا ذاتی معاملہ ہے اور اس کے لیے حکومت کا منہ دیکھنے کے بجائے انھیں اپنا انتظام خود کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp