دو محبت کرنے والے اور چیک پوسٹ قالندیا


میں وہاں صبح سویرے پہنچا۔ ایرپورٹ سے بس پکڑ کر اس کے اپارٹمنٹ تک پہنچنا کوئی زیادہ مشکل نہ تھا۔ ڈبلن سے ڈنمارک پہنچنا کوئی ایسا مشکل نہ تھا۔ مشکل تو اس کا سامنا کرنے میں تھی۔ نہ جانے وہ کیسی ہوگی، کس طرح سے اس نے حالات کا مقابلہ کیا ہوگا۔ وہ ہنسنے گانے، گھومنے گھامنے والی سادہ سی یورپین لڑکی، اتنے بڑے حادثے کو کیسے بھگتایا ہوگا اس نے۔ میں سوچتا رہا اور پریشان ہوتا رہا۔

ڈبلن میں بڑا اچھا وقت گزرا تھا ہمارا۔ میں ٹرنٹی کالج میں پڑھ رہا تھا۔ پانچ سال دیکھتے دیکھتے گزرگئے۔ ڈبلن جیسے میرا دوسرا شہر اورآئرلینڈ میرا دوسرا وطن بن گیا۔ میں اس شہر کی اپنائیت میں کھوسا گیا تھا۔ آئرش ہوتے ہی ایسے ہیں۔ ہماری طرح سے کھلّے ڈلے، ملنے ملانے والے لوگ۔ بس میں بیٹھے ہوئے آپ کی عمر اور تنخواہ بھی پوچھ سکتے ہیں۔

اس دن دوپہر کو ایک سی ڈی لینے کے لئے مجھے راتھ مائن میں واقع اپنے اپارٹمنٹ میں آنا پڑگیا۔ جب واپس جانے کے لئے میں اپنی سائیکل کا تالا کھول کر کھمبے سے الگ کررہا تھا تو میں نے اسے دیکھا وہ ٹیکسی سے اپنا سامان اُتار کر شاید کچھ پوچھنا چاہ رہی تھی۔

وہ پتہ پوچھ رہی تھی جو ہماری عمارت کا ہی تھا۔ اس کی انگلش سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ یورپین تھی۔ وہ سیدھی ایئرپورٹ سے آرہی تھی۔ ہماری بلڈنگ کے دوسری منزل پر اس کا اپارٹمنٹ بک تھا۔ پہلی ہی نظر میں مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ دوستانہ طبیعت کی واقع ہوئی ہے اورسادگی اس کے مزاج کا حصہ ہے۔اس میں ایک خاص قسم کی کشش تھی ایسی کہ میں خوا مخواہ اس کی طرف کھنچتا چلا گیا۔ ایسا کم ہوتا ہے مگر اس میں تھا کچھ کہ میں اس کی طرف متوجہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔

میں نے اپنی سائیکل دوبارہ زنجیر سے باندھی اور اس کے ساتھ بلڈنگ کے آفس میں چلا گیا۔ ضروری اندراجات کروائے اور معمول کی کارروائیوں کے بعد اس کے اپارٹمنٹ کی چابی حاصل کی۔ اس نے یہ اپارٹمنٹ ایک سال کے لئے لیا تھا۔

احد تمیمی – احتجاج کرتے ہوئے

وہ ڈنمارک سے آئرلینڈ گیلک زبان پر ریسرچ کرنے آئی تھی۔ پی ایچ ڈی کی طالبہ تھی اور اوسلو یونیورسٹی میں زبانوں کے اختلاط کے موضوع پر پی ایچ ڈی کررہی تھی اسی سلسلے میں اس نے کچھ کام ڈبلن میں کرنا تھا۔ اوسلو یونیورسٹی کی طرف سے اسے ٹریولنگ فیلوشپ ملی تھی تاکہ وہ ڈبلن یونیورسٹی کے ٹرنٹی کالج میں اپنی تحقیق مکمل کرسکے۔

ڈبلن کا ٹرنٹی کالج پانچ سو سال پہلے آئرلینڈ کے پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے لئے بنایا گیا تھا۔ گزشتہ صدی کے پہلے دس بارہ سالوں تک یہی روایت تھی کہ ملک میںاکثریت رکھنے والے کیتھولک بچوں کو اس کالج میں داخلہ نہیں ملتا تھا۔آج دنیابدل گئی ہے۔ ٹرنٹی کالج میں ساری دنیا سے بچے پڑھنے آتے ہیں۔ یہاں کی لائبریری ایک ایسی لائبریری ہے جس پر یہ کالج فخر کرتا ہے۔ میرا بہت وقت اس لائبریری میں گزرتا تھا۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ اس لڑکی کا بھی زیادہ تر وقت لائبریری میں ہی گزرے گا۔ ٹرنٹی کالج میں لسانیات کا ایک بہت بڑا شعبہ تھا۔ دنیا بھر سے لسانیات کے ماہرین اور لسانیات کے طالب علم اس یونیورسٹی میں تحقیق وتجسس کے کام کے لئے آتے تھے۔

اس نے اپنانام شارلیٹ بتایا۔ چابی حاصل کرنے کے بعد اس کے سامان کے ساتھ اس کے اپارٹمنٹ تک اسے چھوڑنے گیا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اس نے شادی شدہ لوگوں کے لئے بنے ہوئے اپارٹمنٹ میںسے ایک حاصل کیا تھا۔ اس کی انگلیوں میں کوئی انگوٹھی نہیں تھی۔ یورپ میںکچھ لڑکیاں منگنی اور شادی کے بعد انگوٹھیاں نہیں پہنتی ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ یہ لڑکی بھی شادی شدہ ہے مگر اسی گروپ سے تعلق رکھتی ہے جو اپنی شناخت کے لئے کسی اورکا نام نہیں چاہتی ہیں۔

احد تمیمی – کمرہ عدالت میں

اس کی شکل سے لگ رہا تھا کہ وہ تھکی ہوئی ہے اس نے میرا شکریہ ادا کیا اورپوچھا کہ ٹرنٹی کالج یہاں سے کتنے فاصلے پر ہے۔ میں نے بتایا کہ راتھ مائن سے تھوڑا فاصلہ ضرور ہے مگر پیدل جایا جاسکتا ہے۔ شہر کے بیچوں بیچ سے گزرتے ہوئے تیس سے چالیس منٹ میں راستہ طے ہوجاتا ہے۔ میں اکثر سائیکل چھوڑ کر پیدل ہی چلا جاتا ہوںمگر یہاںسے وقفے وقفے سے بس بھی جاتی ہے۔ میں نے اس سے اس کا موبائل فون نمبر لے لیا اور اپنا نمبر دے دیا تاکہ کوئی مسئلہ ہو تو مجھے فون کرلے۔

رات گیارہ بجے تک میںیونیورسٹی کی لیب میں کام کرتا رہا ، حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس کا خیال ہی نہیں آیا، مصروفیت ہی کچھ اس قسم کی ہوجاتی ہے۔ پی ایچ ڈی کرنا آسان نہیں ہوتا ہے ان ممالک میں۔ ہم دو آدمی تھے جو فزکس میں پی ایچ ڈی کررہے تھے۔ میں اور شان ، وہاں ہمیں صبح سے شام اورپھر رات ہوجاتی تھی مگرہمارے پروفیسر صاحب کے مطالبات ختم ہی نہیں ہوتے تھے مگر مجھے یہ بھی پتہ تھا کہ ٹرنٹی کے پی ایچ ڈی کی دنیا میں کتنی مانگ ہے۔ اُس وقت پی ایچ ڈی کا آخری سال تھا مگر مجھے مختلف جگہوں سے کام کے سلسلے میں پیشکش موصول ہورہی تھیں، میرے باس پروفیسر او ڈوہنو کا کا خیال تھا کہ میں پی ایچ ڈی کے بعدامریکہ جاﺅں جہاں میرے کے لئے بہت سارے مواقع ہوں گے۔

دوسرے دن صبح صبح جب میں یونیورسٹی کے لئے نکل رہا تھا تو مجھے شارلیٹ کا خیال آیا۔ میں نے اسے فون کیا تو اس نے بتایاکہ وہ ٹھیک تھی اور یونیورسٹی پہنچ گئی تھی جہاں کل ہی اس کی کاغذی کارروائی وغیرہ ہوگئی تھی اور اس نے اپنا کام شروع کردیاہے۔ اس وقت وہ اپنے پورے سال کا ٹائم ٹیبل بنارہی تھی۔

میں نے اسے شام کو ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دیدی تھی۔ ”تمہیں پاکستانی کھانا کھلاﺅں گا۔“ میںنے ہنستے ہوئے کہا تھا۔

”عربی کھانا تو میں نے بہت کھایا ہے مصالحوں والا اگر ویسا ہی ہو گا تو ضرور کھاﺅں گی۔“ اس نے بھی ہنستے ہوئے جواب دیا تھا۔

شام سات بجے ٹھیک وقت پر وہ میرے اپارٹمنٹ میں آگئی۔ میں نے اتوار کو بنائی ہوئی مرغ کڑاہی گرم کرلی تھی تازہ دال اور مچھلی مصالحہ بنایا تھا اور ساتھ میں چاول جس میں مٹر کے بجائے اُبلے ہوئے بھٹّے کے دانے ڈالے تھے۔سفید چاول میں سونے جیسے بھٹّے کے دانے اوپر سے مکھن چاول کا مزا آجاتا تھا۔

وائن کی بوتل وہ اپنے ساتھ لائی تھی، وِدال فلیری یہ ہمارے ڈنمارک کی خاص وائن ہے اس نے مجھے بتایا تھا۔ تین سو سال کا تجربہ ہے اس کے پیچھے، امید ہے کہ تمہیں پسند آئے گا۔

اسے کھانا پسند آیا اورمجھے اس کی کمپنی کا مزہ آگیا۔ تین سو سالہ تجربے کی حامل وِدال فلیری کا جواب نہیں تھا۔ وہ سنجیدہ بھی تھی اور ساتھ ساتھ کمال کی مزاح کی حس رکھتی تھی۔ میں نے اسے پاکستانی لطیفے سنائے اور اس نے مجھے ڈنمارک کے کسانوں کی حماقتوں کا قصہ سنایا۔

اسی دن اس نے مجھے بتایا کہ وہ شادی شدہ ہے اور اس کی شادی دو سال پہلے ایک فلسطینی احمد سے ہوئی ہے اوراب احمد بھی ڈبلن آنے والا ہے۔ اسی لئے اس نے یہ بڑا اپارٹمنٹ کرائے پر لیا تھا۔

میں تھوڑا حیران سا ہوگیا کہ ایک پڑھی لکھی پی ایچ ڈی کرنے والی یورپین لڑکی نے فلسطینی سے کیسے شادی کرلی۔

”یہ کیسے ہوا“ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ اب میری سمجھ میں آیا ہے کہ تم مصالحوں والا عربی کھانا کیسے کھاتی ہو۔ اسے پاکستانی مرچوں والا کھانا بہت پسند آیا تھا۔ ننھے ننھے پسینے کے قطرے اس کے ماتھے پر چمکتے ہوئے مجھے اچھے لگ رہے تھے۔

باقی افسانہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4