دو محبت کرنے والے اور چیک پوسٹ قالندیا


یورپ- 1944

”پی ایچ ڈی کے دوسرے سال مجھے چھ ماہ کے لئے تل ابیب یونیورسٹی اور الاظہر یونیورسٹی قاہرہ جانا تھا کیونکہ مجھے عربی اور عبرانی زبان کے سلسلے میں بھی کچھ تحقیقی کام کرنا تھا۔ جب آپ تل ابیب جاتے ہیں تو یروشلم بھی جاتے ہیں۔ غزہ ویسٹ بینک اور اُردن بھی جاتے ہیں۔ وہیں میری ملاقات احمد سے ہوئی اور پہلی ملاقات کے بعد ہی میں اس پر مرمٹی تھی۔“ اس نے بغیر شرمائے ہوئے صاف صاف بتادیا۔

مغرب والوں کی یہ ادا مجھے بہت پسند تھی۔ کچھ آئرش لڑکیوں نے مجھے بھی اس طرح سے کہہ دیا تھا کہ وہ میرے خواب دیکھتی ہیں لیکن جن کے خواب میں دیکھتا تھا ان سے نظر ملاتے ہی پورے جسم پر کپکپی سی چڑھ جاتی اور حلق ایسا خشک ہوتا کہ کوئی بات نکلی نہیں تھی۔یہ عجیب سا تضاد تھا ہمارے اور ان کے رہنے سہنے کے طریقوں میں۔ یہ ہے تہذیبوں کا تصادم

”وہ یقیناً زبردست آدمی ہوگا۔“ میںنے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”یہاں کیوں آرہا ہے۔“میں نے پوچھ بھی لیا تھا۔

”اسے آئرلینڈ کی حکومت کی طرف سے ماسٹرز کرنے کے لئے دو سال کا وظیفہ ملا ہے۔ اتفاق یہ ہے کہ مجھے بھی ٹرنٹی کالج آنا پڑا اور اب ہم لوگ یہاں رہیں گے۔ اس کے ماسٹرز کے بعد شاید ڈنمارک میں رہیں یا فلسطین میں دیکھو قسمت کہاں لے جاتی ہے۔ میں نے کب سوچا تھا کہ میں کسی فلسطینی مسلمان سے شادی کروں گی۔ میرے ماں باپ کو توہفتوں نیند نہیںآئی مگر انہوں نے مجھے منع نہیں کیا۔ وہ تو یہی کہہ رہے تھے کہ اگر میں خوش ہوں تو انہیں کوئی پرواہ نہیں ہے۔ میری ماں نے یہ ضرورکہا تھا کہ میں سوچ لوں کہ دنیا کے اُس حصے میں کتنی آگ لگی ہوئی ہے اور آگ کے پاس جو ہوتا ہے اس کا لپکا تو لگتا ہی ہے۔“ اس نے جواب دیا تھا۔

”احمد کے گھر والوں نے کرسچن سے شادی کرنے کی اجازت کیسے دے دی،“ میں نے فوراً ہی سوال داغ دیا۔

Denmark – 1945

”فلسطینیوں میں کرسچن اور مسلمان کی شادی عام تو نہیں ہے مگر غیر معمولی بھی نہیں ہے۔ مصر ، عراق، شام، فلسطین اور بیروت میںمسلمانوں اور کرسچنوں کے درمیان شادی ہوجاتی ہے۔ رہا میرا سوال تو میں میرے ماں باپ کا تعلق ڈنمارک کے کرسچن گھرانے سے ضرور ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم لوگوں کا مذہب سے کوئی خاص تعلق نہیں۔ یورپ میں اسّی فیصد سے زیادہ لوگ لامذہب ہیں۔ کرسمس اب ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔ کسی چرچ کو چندہ اس لئے دیتے ہیں کہ یہ لوگ اچھے کام کرتے ہیں، بوڑھوں کی دیکھ بھال، غریب ملکوں میں ترقیاتی کام افریقہ کے جنگلوں میں ہسپتالوں کا قیام اور ان کو چلانا وغیرہ وغیرہ۔ میرے لئے یہ بات بالکل بھی اہم نہیں تھی کہ احمد کا مذہب کیا ہے۔ احمد کے گھر والوں کو یہ بات پسند نہیں آئی مگر ان لوگوں نے شادی میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی اورہماری شادی ہوگئی تھی۔“ اس نے ہنستے ہوئے اپنا بیگ کھول کر موبائل فون نکالا اور اس کی اسکرین کے اوپر ایک تصویر دکھائی تھی اپنی اوراحمد کی۔ دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کھڑے تھے، مسکراتے ہوئے۔

میں نے غور سے دیکھا۔ احمد ایک وجیہہ آدمی تھا۔اس کی آنکھوں میں غضب کی کشش تھی۔ وہ دونوں مجھے بہت اچھے لگے۔ سادہ معصوم بھولے بھالے۔ میںایسی تصویریں دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔ انہیں دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ دنیا سے ابھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

”احمد کب آئے گا۔“ میں نے سوال کیا۔ ”مجھے دوبارہ تم دونوں کی دعوت کرنی پڑے گی۔“ میں نے اس کی نیلی آنکھوں کو غور سے تکتے ہوئے کہا تھا۔

”اوہ صرف بارہ دن کے بعد ۔ اس کا ویزہ، پرمٹ، پاسپورٹ سب مکمل ہوگیا ہے اور وہ اب آنے ہی والا ہے۔“ اس کی آواز میں خوشی کی چہک موجود تھی۔

کھانے کے بعد سبز چائے کی دو گرم گرم پیالیاں پی کر وہ چلی گئی۔ میں اپنے کاموں میں اتنا مصروف رہا کہ اس کا خیال مجھے اس وقت آتا جب سب لوگ سوجاتے ہیں۔ میں نے سوچا بھی کہ شاید اب احمد آگیا ہوگا مگر اسے فون کرکے پوچھ نہیں سکا تھا۔

دو ہفتوں کے بعد ٹرنٹی کالج کے آڈیٹوریم میں فلسطین کے بارے میںہونے والے ایک مذاکرے میں شرکت کے لئے گیا تو وہ دونوں ہال کے دروازے پر مل گئے۔ شارلیٹ نے بڑے گرم جوشی سے میرا تعارف احمد سے کرایا تھا اور بتایا کہ احمد کل ہی آیا ہے۔ احمد بھی بڑے اچھے طریقے سے ملا ۔ اس کی شخصیت کے بارے میں اتنا ہی کہنا مناسب ہوگا کہ اس کی شخصیت ایک بھرپور شخصیت تھی، مکمل، مجھے سمجھ میں آگیا کہ وہ کیوں اس کی دیوانی تھی۔

جلسہ گاہ میں ہم تینوں ساتھ ہی بیٹھے تھے، آئرلینڈ کے مشہور اخبار آئرش ٹائمز کا ایک صحافی جو اسرائیل و فلسطین میں دو سال تک رہنے کے بعد آیا تھا اس نے اپنی تصویروں کے ذریعے بڑی پراثر تقریر کی۔ اس نے بتایا کہ کس طرح سے اسرائیل کی صیہونی حکومت فلسطینیوں سے جانوروں سے بدتر سلوک کررہی ہے۔ فلسطینی ایسی حالت میں رہ رہے ہیں جہاں نہ پانی ہے، نہ بجلی ہے، نہ سیوریج کا انتظام ہے۔ بچوں کے اسکول روزانہ کی بمباری سے تباہ کردیئے گئے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی قید ہیں۔ ان کے گرد حصار بنادیا گیا ہے اور روزانہ مختلف طریقوں سے ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔مجھے پہلی دفعہ اندازہ ہوا کہ تصویروں میں کتنی جان ہوتی ہے۔ ہر تصویر بول رہی تھی۔ میری نظروں کے سامنے ہالی وڈ کی بنائی ہوئی وہ فلمیں آگئی تھیںجس میں ہٹلر کے زمانے میں یورپ میںیہودیوں کی حالتِ زار دکھائی گئی تھیں۔ وہی پولیس کا جبرواستبداد ، وہی قاتلانہ حملے اورکیمپوں کی کسمپرسی ، وہ بچوں کا بلبلانا اور بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ رشتہ داروں کا قتل، وہی بھائی بہن، شوہر بیوی، بال بچے کا جدا ہونا اور وہی سفاک فوجیوں کے چہرے۔ میں نے ہال میں اچٹتی ہوئی نظر ڈالی۔ کئی لوگ رو رہے تھے۔ میں اپنی نم ناک آنکھوں میں آنسوﺅں کو روکنے کی کوشش کررہا تھا۔

کیا ہوجاتا ہے انسان کو۔ پچاس سال بھی نہیں گزرے کہ انتہا پسند یہودیوں نے تقریباً وہی سب کچھ دُوہرادیا جو ان پر بیتی تھی۔تاریخ سے کوئی نہیں سیکھتا ہے۔

جلسے کے بعد یہ طے ہوا کہ اگلے دن میں شارلیٹ کے گھر کھانا کھاﺅں گا۔

دعوت اچھی تھی مگر دعوت سے زیادہ ہماری بات چیت زور دار تھی۔ احمد بھی شارلیٹ کی طرح سے مسحور کن شخصیت کا مالک تھا۔ اس نے قاہرہ یونیورسٹی سے انگلش میں اعلیٰ ڈگری حاصل کی تھی اوراب ٹرنٹی کالج سے مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے آیا تھا۔ اسے انگلش اور عربی ادب کے بارے میںبڑی معلومات تھیں۔ بین الاقوامی ادب پر بھی اس کی نظر تھی۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی جب اس نے بتایا کہ وہ فیض احمد فیض کی نظمیں، منٹو کے افسانے اور شوکت صدیقی کے مشہور ناول ”خدا کی بستی“ کا انگلش ترجمہ پڑھ چکا ہے۔

عرب دنیا کی سیاست، فلسطینیوں اور اسرائیل کا مسئلہ اور دنیا بھر میں مسلمانوں اور آزادی کی مختلف تحریکوں کے بارے میںبھی اس کی معلومات کا دائرہ وسیع تھا۔ نیلی آنکھوں والی شارلیٹ اسے اپنا دل بے وجہ نہیں دے بیٹھی تھی

ڈبلن میں ایک سال خوب گزرا، ہماری دوستی پکی ہوگئی۔ میں شارلیٹ اوراحمد سے بہت قریب ہوگیا۔

باقی افسانہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4