ہزارہ کی نسل کشی اور قومی اداروں کی ذمہ داری


چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی اس رائے سے اختلاف کی گنجائش نہیں کہ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کا قتل نسل کشی کے مترادف ہے۔ لیکن اس کا حل تلاش کرنے کے لئے وہ کمیٹی بنانے اور اعلیٰ حکام کو زیادہ مستعدی سے کام کرنے کے علاوہ کچھ کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ اس حوالے سے یہ سوال تو بہر حال پیدا ہوتا ہے کہ ہزارہ لوگوں پر حملوں کا نوٹس لیتے ہوئے کیا اس بات پر غور کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس ملک میں یہ معاملہ کسی ایک کمیونٹی یا اقلیت کے ساتھ پیش نہیں آرہا بلکہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوں یا کسی دوسرے عقیدے کو ماننے والے افراد ، وہ اس وقت یکساں طور سے انتہا پسند گروہوں کے نشانے پر ہیں۔ اس صورت حال پر ملک کے اندر سے آہ و فغان کی آوازیں اکثر و بیشتر سننے میں آتی رہتی ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک اور ادارے بھی صورت حال کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں کیا ایک گروہ کی بات کر کے اور اسے نسل کشی قرار دے کر حالات کو درست راہ پر ڈالا جا سکتا ہے۔ اور کیا یہ معاملہ قانون کے نفاذ، عدل کی فراہمی اور انتظام کی بہتری سے تعلق رکھتا ہے یا اس کی وجوہ زیادہ گہری اور متنوع ہیں۔

ہزارہ کمیونٹی پر گزشتہ کئی برسوں سے ہونے والے حملوں کے نتیجہ میں سینکڑوں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ تاہم بلوچستان کے انسپکٹر جنرل پولیس کا دعویٰ ہے کہ اب اس خوں ریزی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے پھر بھی تمام اداروں سے اس بارے میں تفصیلات طلب کی ہیں اور ایک کمیٹی بنانے کا عندیہ دیا ہے۔ لیکن اسی سماعت کے دوران انہوں نے پولیس اور فرنٹئر کورپس کو انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) سے رابطہ کرنے اور ہزارہ گمشدگیوں اور ہلاکتوں کے معاملات کی جانچ کرنے کا حکم دیتے ہوئے یہ تبصرہ بھی کیا ہے کہ ’ہم سرکاری اداروں کے بغیر امن سے زندہ نہیں رہ سکتے۔ ہمیں انہیں اپنا دشمن نہیں سمجھنا چاہئے‘۔ چیف جسٹس کی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے پنجاب کے وزیر قانون کا یہ بیان بھی پڑھنے کی ضرورت ہے کہ’حکومت لبیک تحریک کے مولوی خادم رضوی کو فیض آباد معاہدہ کی وجہ سے گرفتار نہیں کرسکتی‘۔ فیض آباد دھرنا اور اس کے نتیجے میں حکومت کے ساتھ طے پانے والا توہین آمیز معاہدہ فوج کے تعاون اور سرپرستی سے طے پایا تھا۔ اس معاہدہ کے تحت گزشتہ برس نومبر میں فیض آباد دھرنا کے دوران قانون شکنی، مار دھاڑ اور ہلاکتوں کے الزام میں جن لوگوں کے خلاف مقدمات قائم کئے گئے تھے، انہیں واپس لینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ البتہ فیض آباد دھرنا کے معاملہ پر غور کرنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی دفعات کے تحت قائم ہونے والے مقدمات کو کسی بھی معاہدہ کے تحت واپس نہیں لیا جاسکتا۔ اس ہدایت پر عمل درآمد کے لئے جب اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے خادم رضوی سمیت لبیک تحریک کے لیڈروں اور کارکنوں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تو فروری میں لاہور کے داتا دربار کے باہر دھرنا دیا گیا۔

یہ دھرنا اس وعدہ کے بعد ختم ہو سکا تھا کہ انسداد دہشت گردی عدالت لبیک تحریک کے لیڈروں کے خلاف مقدمات کو سرد خانہ میں ڈال دے گی۔ تاکہ موجودہ کمزور حکومت کے جانے کے بعد اگر کوئی طاقتور حکومت قائم ہو سکی یا مستقبل میں لبیک تحریک کو کسی خاص مقصد کے لئے استعمال کرنے کی ضرورت ہوئی تو نظام کے حافظہ میں محفوظ یہ مقدمات ان لوگوں پر دباؤ ڈالنے کے کام آسکیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی فیض آباد دھرنا کے خاتمہ کے موقع پر فوج کی طرف سے دھرنا کے شرکا کو ایک ایک ہزار کے نوٹ بانٹنے کا حوالہ دے کر واضح کر چکے ہیں کہ یہ لوگ کن کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ چیف جسٹس سے تو صرف یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے انصاف کے راڈار میں صرف ہزارہ لوگ ہی فٹ ہوتے ہیں یا ختم نبوت کی تحریک کے نام پر احمدیوں پر حملوں کو جائز قرار دینے والے لوگ بھی ظالموں میں شمار ہوں گے۔ کیا نسل کشی صرف ہزارہ کی ہو رہی ہے یا سندھ میں جبر و استبداد سے عاجز آکر اپنے صدیوں پرانے وطن سے بھارت نقل مکانی کرنے والے ہندو بھی اسی قسم کے ظلم کا شکار ہورہے ہیں۔

ملک میں اختلاف رائے اور عقیدہ کے نام پر قتل کرنا ہی نہیں اس کا پرچار کرنا بھی عام ہے۔ اسی لئے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو پھانسی دئیے جانے کے بعد شروع ہونے والی لبیک تحریک صرف نفرت اور انتقام کے نعرے بلند کرتی ہے اور خود کو درست مانتے ہوئے باقی سب مسالک اور عقائد کو مسترد کرتی ہے۔ اس کی نفرت کا خاص نشانہ احمدی عقیدہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ گروہوں کی نسل کشی کی بات کرنے والے چیف جسٹس کو اس بات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ 1974 میں آئین پاکستان میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد سے ملک میں احمدیوں کی تعداد پانچ چھ ملین سے چند لاکھ تک کیوں محدود ہو گئی ہے۔ 1947 میں قیام پاکستان کے وقت اس خطے میں غیر مسلم آبادیوں کی تعداد 23 فیصد کے لگ بھگ تھی لیکن اس وقت ملک کی 96 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ سپریم کورٹ یا اس ملک کی حفاظت کرنے والے دوسرے ادارے اگر ان اعداد و شمار کی روشنی میں یہ واضح کرسکیں کہ ملک میں آباد غیر مسلم آبادیاں کیوں تیزی سے ملک چھوڑ رہی ہیں تو ہزارہ کی نسل کشی کے بارے میں جواب تلاش کیا جاسکے گا۔

عدالت عظمیٰ نے جن اداروں کو ملک کی پرامن سلامتی کا ذمہ دار قرار دیا ہے، مذہبی انتہا پسندی کے فروغ میں ان کے کردار کا جائزہ لئے بغیر پاکستان سے عقیدہ کے نام پر قتل و غارتگری کا خاتمہ ممکن نہیں۔ آج فوج کراچی میں امن بحال کرنے اور کراچی کو ’جہنم‘ بنانے کی ذمہ دار متحدہ قومی موومنٹ سے شہر کو نجات دلانے کا سہرا اپنے سر باندھتی ہے اور میڈیا کے علاوہ دیگر مبصرین بھی اس کی توصیف کرتے ہیں۔ لیکن اس بات کا جواب بھی آئی ایس آئی سمیت فوج کے ادارے ہی دے سکتے ہیں کہ ایم کیو ایم کیسے اور کیوں قائم کی گئی تھی اور اسے اتنی طاقت کن قوتوں یا اداروں نے فراہم کی تھی کہ 12 مئی 2007 کو جب بحالی عدلیہ تحریک کے سلسلہ میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کراچی جانے کی کوشش کی تو پچاس کے لگ بھگ لوگوں کو ہلاک کر کے کراچی کو جیتا جاگتا جہنم بنا دیا گیا اور جسٹس چوہدری کو ائر پورٹ سے ہی واپس لوٹنا پڑا تھا۔ یہ بھی دیکھ لینا چاہئے کہ اس روز اسلام آباد میں کون سی شخصیت مکے لہرا کر کراچی کی خوں ریزی کو اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ بتا رہی تھی۔ یہ کہانی صرف ایم کیو ایم کے عروج و زوال تک ہی محدود نہیں ہے۔ طالبان کے حوالے سے بھی اسی تجربہ کو دہرایا گیا اور حافظ سعید کی لشکر طیبہ یا مولانا اظہر مسعود کی جیش محمد بھی اسی قسم کے ادارہ جاتی تجربات کی پیداوار ہیں۔ امریکہ سمیت پوری دنیا ان گروہوں اور افراد کے خلاف یک آواز ہے لیکن پاکستان کے اداروں اور عدالتوں کو ان لوگوں کے جرائم کے خلاف ثبوت ہی نہیں ملتے۔ ان حالات میں کسی ایک گروہ کی نسل کشی پر سینہ کوبی سے کیا فائدہ ہوگا۔

چیف جسٹس نے جس صوبہ کے دارالحکومت میں بیٹھ کر ملک کے اداروں کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیا ہے، اس صوبے کے ہزاروں گھروں کے باشندے اپنے لاپتہ افراد کی یاد میں رو رو کر آنکھوں کی بینائی اور چیخنے کا حوصلہ کھو چکے ہیں۔ ان لاپتہ افراد کے بارے میں سپریم کورٹ ماضی میں جوش کا مظاہرہ کرچکی ہے لیکن اس المیہ کا سبب بننے والے طاقتور عناصر کو ہاتھ ڈالنا ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے اختیار میں بھی نہیں ہے۔ یہ کون سے ادارے ہیں اور ملک کے کون سے مفاد کا تحفظ کررہے ہیں۔ کسی بھی ملک کے سیکورٹی اور انٹیلی جنس ادارے صرف اس وقت مؤثر اور سلامتی کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں جب ان کا کنٹرول منتخب حکومت کے ہاتھ میں ہو اور وہ ایک فعال نظام کے پابند ہوں ۔ جب یہ ادارے کسی کو جوابدہ نہ رہیں اور جب یہ ادارے نظریہ بھی خود تخلیق کریں اور اس کی تشریح کرتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی ذمہ داری بھی خود ہی اٹھا لیں اور اس طریقہ کار میں رونما ہونے والی بے اعتدالیوں پر جوابدہی سے مستثنیٰ ہوں تو حفاظت کے نام پر خوف اور امن کے نام پر سناٹا ہی قوم کا مقدر بن سکتا ہے۔ آج اہل پاکستان ان دونوں کیفیتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali