سی پی آر – مصنوعی تنفس سے زندگی بچانا


یہ مضمون لکھتے ہوئے میں‌ بہت برا محسوس کر رہی ہوں۔ اس کو لکھنے کے لئے کچھ انتظار کرنا پڑا۔ وہ اس لیے کہ جس کی وجہ سے لکھا جارہا ہے، میں‌ چاہتی تھی کہ وہ بہتر ہوجائے تب لکھوں۔ آج صبح وہ کافی بہتر تھی اور اس نے اس بات کی اجازت بھی دی کہ بغیر نام استعمال کیے اس کی مثال کو اس مضمون کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آج کے مضمون سے ہم سی پی آر یا کارڈیوپلمونری ری سسیٹیشن کی اہمیت اور طریقہ سیکھیں گے۔

کلینک کا آخری مریض‌ جا چکا تھا اور میں‌ اور میری اسٹوڈنٹ گھر جانے کی تیاری میں‌ تھے۔ جب میں‌ نے اپنی نرس شیری کی گھبرائی ہوئی آواز سنی۔ وہ سیکرٹری سے کہہ رہی تھی کہ نائن ون ون کال کرو کیونکہ دوسری نرس بے ہوش ہوگئی ہے۔ ہم لوگ بھاگ کر ان کے کمرے میں‌ پہنچے تو میں‌ نے دیکھا کہ ہماری ایک نرس صوفے پر لٹائی ہوئی ہے، اس کا رنگ پیلا پڑگیا ہے اور وہ سانس ٹھیک سے نہیں‌ لے رہی۔ اس نے سارا دن کام کیا تھا۔ میرے آفس میں‌ بھی وہ کئی بار کاغذ لے کر آئی تھی کہ سائن کردیں۔ وہ ایک عام سا دن تھا۔ میں‌ نے اس کی کلائی پکڑی تو نبض غائب تھی۔

سی پی آر کریں! میں‌ نے نرسوں‌ سے کہا اس کو زمین پر لٹاؤ تاکہ اس کی کمر سخت سطح پر ہو تاکہ ہم اس کا سینہ دبا کر خون کا بہاؤ جاری رکھیں۔ ایک نرس نے سی پی آر شروع کیا۔ اس کو سانس دو! میں نے شیری سے کہا تو اس نے بے ہوش نرس کی ناک پچکا کر منہ سے اس کو سانس دیا۔ 120 فی منٹ کی رفتار سے تیس مرتبہ سینہ دبایا اور رک کر دو سانسیں دینا شروع کیں۔

اینڈوکرنالوجی کا کلینک طویل عرصے کی بیماریوں‌ کے مریضوں کے علاج میں‌ مصروف رہتا ہے اور ہمیں‌ زیادہ ایمرجنسیوں‌ کی عادت نہیں‌ ہے۔ اسٹوڈنٹ نے برابر والے کارڈیالوجی کلینک میں‌ جاکر مدد کے لیے پکارا تو ایک کارڈیالوجسٹ بھی آگیا۔ آہستہ آہستہ مدد پہنچنا شروع ہوگئی۔ کوئی ڈی فبریلیٹر لے آیا۔ اس کے پیڈ ایک دائیں کندھے کے قریب اور دوسرا دل کے بائیں‌ جانب پسلیوں‌ سے ذرا نیچے چپکا کر چلادیا گیا۔ مشین نے اس کی دل کی دھڑکن کو پہچان کر جھٹکے لگانے کا مشورہ دیا۔

میں اس کو نہایت پریشان ہوکر دیکھ رہی تھی اور اس کے بچے اور اس کے بچوں کے ننھے منے بچے میرے ذہن میں‌ گھوم گئے۔ ہمارے اینڈوکرنالوجی آفس کی سالانہ کرسمس پارٹی میرے گھر میں‌ ہوتی ہے۔ آخری کرسمس پارٹی میں‌ اس کے بچے اور نواسا اور پوتا سب آئے تھے۔ وہ سب آپس میں‌ بہت خوش لگ رہے تھے۔ ان لوگوں‌ کی زندگی میں‌ ان خاتون کی زندگی کی بہت اہمیت ہے۔ دونوں بچے کالج میں‌ ہیں اور وہ بہت نوجوان والدین ہیں۔ اپنی ماں‌ کے سہارے کے بغیر وہ اپنی پڑھائی مکمل نہیں‌ کرپائیں‌ گے۔ کل چھ مرتبہ جھٹکے لگانے کے بعد اس کی نبض واپس لوٹ آئی اور بلڈ پریشر بہتر ہوگیا۔ وہ خود سے سانس لینے لگی۔ اس کو ایمرجنسی روم لے جایا گیا جہاں‌ دو بار اور جھٹکے دینے پڑے۔

اس دوران میں‌ پریشان ہونے کے علاوہ حیران بھی تھی۔ جیسا کہ اور ڈاکٹرز بھی اس بات کو سمجھ سکیں گے، آہستہ آہستہ ہمارے دوست، ساتھ میں‌ کام کرنے والے، ہمارے پڑوسی، ہمارے ساتھ پڑھنے والے اور ہمارے خاندان کے افراد سبھی ہمارے مریض بنتے جاتے ہیں۔ مجھے یہ بات معلوم ہے کہ اس کو دل کی کوئی بیماری نہیں‌ تھی۔ عمر میں‌ بھی وہ مجھ سے چھوٹی ہے۔ اس کا دل کیسے رک گیا؟ ایک چھوٹے دائرے کے اندر ہم لوگ یہ بات جانتے تھے کہ اس کی ذاتی زندگی میں‌ کافی دباؤ چل رہا تھا۔ میرے ذہن میں‌ تشخیص کے لیے یہ ڈفرنشل چل رہا تھا کہ کیا اس کو بروکن ہارٹ سنڈروم ہوگیا؟ کیا اس نے خود کشی کی کوشش کی؟

یہ ہمارے آفس کے تمام لوگوں‌ کے لیے ایک خوفناک تجربہ تھا۔ حالانکہ سب میڈیکل کا عملہ ہے لیکن اس طرح‌ اپنے ایک ساتھ میں‌ کام کرنے والی خاتون کو اس طرح‌ موت کے منہ میں‌ جاکر واپس آتے دیکھ کر سب شدید صدمے میں‌ تھے۔ اس کی فیملی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو پتا چلا کہ اس کے کلینک کے چارٹ میں‌ سارے فون نمبر پرانے ہیں۔ فیس بک کے ذریعے اس کی بیٹی کو پیغام بھیجنا پڑا۔ یہ ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ بھی تھا کہ کلینک کے تمام افراد کو ایک دوسرے کے گھر والوں‌ کا نمبر پتا ہونا چاہئیے تاکہ ایمرجنسی کی صورت حال میں‌ ان سے رابطہ کیا جاسکے۔ باقی سارے تو پہلے سے ہی فیس بک دوست ہیں اور مجھے حیرانی نہیں‌ ہوئی جب چارج نرس نے اگلے دن مجھے فیس بک فرینڈ کی دعوت بھیجی۔

چارج نرس نے کہا کہ میں‌ بہت برا محسوس کررہی ہوں کیونکہ اس نرس نے مجھے کہا تھا کہ میں بیمار ہوں‌، مجھے گھر جانے دو لیکن میں‌ نے اس کو نہیں‌ جانے دیا۔ میں‌ نے چارج نرس سے کہا کہ تم برا محسوس مت کرو۔ یہ اچھا ہوا کہ اس کو دل کا دورہ یہاں‌ کلینک میں‌ پڑا جہاں‌ سب نے مل کر اس کی جان بچالی۔ ان کے گھر پر کام کے اوقات میں‌ کوئی نہیں‌ تھا۔ راستے میں‌ گاڑی چلاتے حادثہ ہوجاتا تو ہو سکتا ہے کہ اور لوگوں‌ کو بھی چوٹیں آتیں۔ گھر پر پہنچ کر ہوتا تو وہ مر جاتی اور کسی کو وقت پر پتا نہیں‌ چلتا۔

اس دن میرے بچوں‌ کا میرے ساتھ سوشی کھانے کا پروگرام تھا۔ میں‌ دیر سے پہنچی اور سارا وقت ایسا محسوس ہوا جیسے دل ڈوبا ہوا ہو۔ وہ دونوں‌ بھی یہ خبر سن کر پریشان ہوئے۔ جب ہسپتال نے بے بی سٹنگ کے کورس کی آفر کی تو میں‌ نے اپنے دونوں‌ بچوں‌ کو اس میں‌ ڈالا جہاں‌ انہوں‌ نے سیکھا کہ چھوٹے بچے کیسے سنبھالتے ہیں، اپنا بے بی سٹنگ کا کاروبار کیسے شروع کریں‌ اور سب سے اہم بات یہ کہ انہوں‌ نے سیکھا کہ اگر چھوٹے بچے کے گلے میں‌ کچھ پھنس جائے تو اس کو کیسے نکالیں‌ اور ضرورت پڑنے پر سی پی آر کیسے کرنا ہے۔

میں نے ان دونوں‌ سے کہا کہ سی پی آر ٹریننگ دوبارہ سے لیں تاکہ وہ ذہن میں‌ تازہ رہے اور اگر کسی کو اچانک دل کا دورہ پڑ جائے تو وہ اس کی مدد کرسکیں۔ اصل میں‌ میں‌ اپنے بارے میں بھی سوچ رہی ہوں۔ بالکل ڈاکٹر گریر کی طرح جو انٹرنل میڈیسن ریزیڈنسی میں‌ ہمارے آئی سی یو کے اٹینڈنگ تھے۔ انہوں‌ نے ایک مرتبہ کہا کہ آپ لوگ اچھی طرح میڈیسن سیکھ لیں‌ تاکہ جب میں بیماری اور مشکل میں‌ ہوں‌ اور میرے اوپر سرجری ہورہی ہو تو آپ لوگ میری جان بچا سکیں۔

ہر سال ہزاروں افراد دل کے دورے سے مر جاتے ہیں۔ چونکہ اکثر افراد کو دورہ ہسپتال سے دور ہوتا ہے اس لیے یہ بات نہایت اہم ہے کہ تمام ہائی اسکول کے اسٹوڈنٹس کو زندگی بچانے کی بنیادی تربیت حاصل ہو تاکہ پروفیشنل مدد پہنچنے تک وہ مریض کو زندہ رکھ سکیں۔ دل کے دورے کے دوران مریضوں کی مدد کرنے کے بارے میں‌ باقاعدہ ٹریننک 1991 میں‌ شروع ہوئی۔ تب سے اس تعلیم نے بہت سی جانیں‌ بچائی ہیں۔

اگر آپ کے گرد کوئی ایک دم سے بے ہوش ہوجائے تو مندرجہ زیل اقدام اٹھانے ہوں گے۔

1۔ مریض کو جگانے اور اس سے بات کرنے کی کوشش کریں۔ اگر وہ سانس نہیں لے رہے اور نبض نہیں‌ مل رہی ہو تو

2۔ فوری طور پر مقامی ایمرجنسی نظام کو متحرک کریں۔ امریکہ میں‌ نائن ون ون فون نمبر ملاکر اپنی ایمرجنسی بتائیں تو مناسب مدد پہنچ جاتی ہے۔ پنجاب کے بڑے شہروں میں ایمرجنسی کا نمبر 1122 ہے اور ایدھی کا 115۔

3۔ سی پی آر شروع کریں۔ اس میں‌ مریض کو زمین یا سخت سطح پر لٹا کر سینے کے نچلے حصے کو دونوں‌ ہتھیلیوں‌ سے 120 فی منٹ کی رفتار سے دبانا ہوگا۔ ہر تیس کے بعد دو سانسیں دینی ہوں گی۔ بس اتنی سانس کہ سینہ ابھرتا دکھائی دے۔

4۔ اے ای ڈی یا آٹومیٹڈ ایکسٹرنل ڈی فبریلیٹر، دل کو بجلی کے جھٹکے دینے والی مشین ہے۔ اس کے دونوں‌ پیڈ دل کے دائیں اور بائیں‌ جانب چپکا کر دل کو واپس نارمل ردھم میں‌ لایا جاتا ہے۔ اس مشین کو استعمال کرنا نہایت آسان ہے۔ ہر آفس، اسکول اور عوامی عمارات جیسا کہ لائبریری وغیرہ میں‌ اے ای ڈی مشین ہونی چاہئیے۔

5۔ اگر مریض سانس نہ لے رہا ہو تو آکسیجن ماسک استعمال کرسکتے ہیں، سانس کی نالی ڈالنے کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ نسوں‌ میں‌ دوا ڈالنے کے لیے انٹرا وینس لائن ڈالنا ضروری ہے جس سے مناسب دوائیں دی جاسکیں۔ جب یہ طے ہوجائے کہ نبض واپس آچکی ہے، مریض سانس لے رہا ہے اور بلڈ پریشر بہتر ہوگیا ہے تو مریض‌ کو ہسپتال لے جایا جائے جہاں‌ پر ان کا مزید مناسب علاج ہوسکے۔

ہماری نرس اب بہتر ہوگئی ہے۔ اس کو دل کا دورہ پوٹاشیم کی شدید کمی سے ہوگیا تھا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ایلیکٹرولائٹس کا نارمل دائرے میں رہنا بہت ضروری ہے۔ اگر کوئی مریض‌ بہت بیمار ہوں‌ اور کھا پی نہ رہے ہوں‌، ساتھ میں متلی، ڈائریا یا الٹیاں ہورہی ہوں‌ تو ان کے جسم میں‌ نمکیات کی شدید کمی سے بھی دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔ جب میں‌ اس کو دیکھنے گئی تو اس نے کہا کہ جہاں‌ بجلی کے جھٹکے لگے تھے وہاں جلد کچھ جھلس گئی ہے اور اس کی کمر بھی سیدھے لیٹے لیٹے دکھ رہی ہے۔ تو میں‌ نے اس سے کہا کہ ”زندگی دکھ تکلیف کے ساتھ آتی ہے!“ تو وہ ہنس پڑی کیونکہ واقعی اگر وہ مر گئی ہوتی تو کچھ محسوس نہیں‌ کررہی ہوتی۔ اس کو بہتر دیکھ کر باقی سب کی بھی جان میں‌ جان آئی۔ شیری نے اس کو مذاق میں‌ کہا کہ تمہیں جب بھی چمیاں چاہیے ہوں‌ تو ویسے ہی مانگ لینا، دوبارہ دل کا دورہ مت ڈالنا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).