کاش اگلے سال کی لسٹ میں ورشا کا نام بھی ہو


گزشتہ روز یونیورسٹی میں پیاری دوست ورشا سہیل سے ملاقات ہوگئی، ورشا اداس اور دکھی دکھائی دے رہی تھی، چہرے کا رنگ زرد تھا، وہ اپنی عمر سے دس سال بڑی محسوس ہو رہی تھی، میں نے کہا ورشا تم تو خوبصورت اور شرارتی لڑکی تھی، یہ اپنا کیا حال کر لیا ہے؟ کہنے لگی چلو کنٹین پر بیٹھتے ہیں اور یونیورسٹی زمانے کی باتیں کرکے دل بہلاتے ہیں، ہم دونوں کنٹین پر چلے گئے، ملک شیک کا آرڈر دیا اور باتیں کرنے لگیں۔ میں نے کہا ورشا یونیورسٹی زمانے کو گزرے بمشکل دو سال ہوئے ہیں اور تم لڑکی سے آنٹی دکھائی دے رہی ہو؟ ورشا میرا سوال سن کر رونے لگ گئی، اس کی انکھوں میں آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے، میں اپنے سوال پر شرمندگی محسوس کر رہی تھی، دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ ایسا تبصرہ کر کے پیاری سہیلی کا دل دکھانے کی کیا ضرورت تھی؟

اسی کیفیت میں تھی کہ ورشا نے کہا فروا یار ماس کام میں ایم اے کرنے کے بعد میاں چنوں اپنے آبائی گھر چلی گئی تھی، ماں باپ نے ایک امیر گھرانے میں رشتہ کردیا، شادی ہو گئی، کچھ وجوہات کی وجہ سے نوبت طلاق تک جا پہنچی۔ یہ حادثہ میری زندگی میں قہر پر بن کر ٹوٹا، والدین طلاق کی وجہ سے ابھی تک صدمے میں ہیں، ایک نیوز چینل میں بطور نیوز اینکر کے لئے مجھے سلیکٹ کر لیا گیا تھا، والدین اور رشتہ داروں نے نیوز اینکرنگ سے منع کردیا اور کہا کہ ابھی تو تمہاری طلاق ہوئی ہے اور تم نیوز اینکر بننے چلی ہو، پچھلے چھ ماہ سے نوکری کی تلاش میں ہوں، گھر کے مالی حالات بدترین ہیں، نوکری مل نہیں رہی، یہ وہ وجوہات ہیں جس وجہ سے میرا یہ حال ہو گیا ہے۔

ورشا سہیل کی دکھ بھری کہانی سن کر دل بیٹھ گیا، اس کے بعد ہم سہیلیوں نے ادھر ادھر کی باتیں کی اور اپنے اپنے گھروں کو چل دیں۔ گھر آتے ہی میں اپنے کمرے میں چلی گئی، روشنی بجھائی اور سو گئی، اب اندھیرا تھا اور میں ورشا کے بارے میں سوچ سوچ کر آنسو بہائے جا رہی تھی۔ اسی دوران نیند آگئی اور میں سو گئی۔ اٹھتے ہی اماں نے کہا لڑکی کھانا نہیں کھاؤ گی، میں نے کہا اماں موڈ نہیں ہے، ایک کپ چائے کا مل جائے تو نوازش ہو گی، میری تمیزدارانہ گفتگو سن کر اماں مسکرائی۔ اماں کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر دل خوش ہوگیا، لیب ٹاپ آن کیا اور بی بی سی پرزہین پاکستانی نوجوانوں کی ایک رپورٹ پڑھنا شروع کردی۔

رپورٹ کچھ یوں تھی کہ فوربز کی جانب سے 30 ایشیائی کامیاب نوجوانوں کی فہرست جاری کی گئی تھی، فہرست میں ان نوجوانوں کا ذکر تھا جو اپنے اپنے ملک میں تکلیف دہ صورتحال کے باوجود تبدیلی لانے میں کامیاب رہے تھے۔ یہ تیس وہ مرد اور خواتین تھے جن کی عمریں بھی تیس سال سے کم تھی۔ فوربز تھرٹی انڈرتھرٹی ایشیا لسٹ 2018 میں سات پاکستانی نوجوانوں کا نام بھی شامل تھا، یہ پڑھ کر رپورٹ اسٹڈی کرنے میں مزید دلچسپی پیدا ہوئی، اب چائے میرے کمرے کے میز پر تھی، سات زہین پاکستانی نوجوانوں کے کارنامے جاننے کے لئے بیقرار تھی، اماں نے کہا، جلدی سے چائے پی لو اور باہر آجاو، تمہارے ابا تم سے کچھ اہم بات کرنا چاہتے ہیں، سمجھ گئی وہ کیا بات کرنا چاہا رہے ہیں، میں نے کہا اماں آپ چلئے میں کچھ دیر میں آتی ہوں۔

فوربز کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ عالمی میڈیا کوریج میں پاکستان کو ایک خطرناک ملک کے طور پر دکھایا جاتا ہے، ہر وقت کہا جاتا ہے یہاں انتہا پسندی، دہشت گردی اور فرقہ واریت ہے، خواتین کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، اس کے باوجود یہاں کے نوجوانوں بہت ٹیلنٹڈ ہیں جو مختلف و منفرد شعبوں میں کارہائے نمایاں سرا نجام دے رہے ہیں۔ اب میں ورشا کے بعد ان نوجوانوں کی کہانی سناتی ہوں جو فوربز کی تھرٹی انڈر تھرٹی لسٹ میں جگہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں، فیضان حسین سماجی کارکن ہیں، ٹیکنالوجی کی مدد سے لوگوں کی زندگی بہتر بنانے پر یقین رکھتے ہیں، فیضان نے نان پرافٹ Perihelion Systems دو ہزار تیرہ میں بنایا۔ Perihelionایک امریکی سائن لینگویچ ٹرانسلیٹنگ سافٹ وئیر ہے جو بیماریوں کے پھیلنے اور بڑھنے کے بارے میں عالمی صحت کے اداروں کو آگہی فراہم کرتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کے اس سسٹم سے بیماریوں کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔

ایک ٹیلینٹڈ پاکستانی جن کا نام حمزہ فرخ ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی 84 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ بوند شمس سولر واٹر پروجیکٹ کے بانی حمزہ فرخ کو سوشل انٹرپرینور کی کیٹگری میں سماجی خدمات کی وجہ سے منتخب کیا گیا ہے۔ 24 سالہ حمزہ فرخ نے اپنے اس پروجیکٹ کے تحت سورج کی روشنی سے چلنے والا واٹر ایکسٹریکشن اور فلٹر سسٹم بنایا جو دیہی علاقوں میں سیکڑوں لوگوں کی پانی کی ضروریات پوری کر رہا ہے۔ عدنان شفیع اور عدیل شفیع دو سگے بھائی ہیں، فوربز کی لسٹ میں ان دونوں بھائیوں کو ریٹیل اینڈ ای کامرس کی کیٹگری میں شامل کیا گیا ہے۔

عدنان اور عدیل پرائس اوئے کے بانی ہیں، جو الیکٹرونکس کے شعبے میں قیمتوں کے موازنے کا پلیٹ فارم ہے، جس سے نہ صرف ریٹیلرز کو مارکیٹنگ کی معلومات فراہم کی جاتی ہیں بلکہ صارفین کو بھی قیمتوں کے حوالے سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ تھرٹی انڈر تھرٹی لسٹ میں پاکستان کی معروف سنگر مومنہ مستحسن کا نام بھی شامل تھا، ان کو موسیقی کی کیٹگری میں شامل کیا گیا تھا، گلوکاری کے ساتھ ساتھ مومنہ مختلف سماجی مسائل کے حوالے سے بھی کام کرتی رہتی ہیں اور مختلف ایشوز پر بحث و مباحثہ کرتی رہتی ہیں۔ 17 سالہ محمد شہیر نیازی کو سائنسی میدان میں تحقیقات و خدمات پر ینگسٹ اور ہیلتھ کیئر اینڈ سائنس کی کیٹیگری میں شامل کیا گیا۔ ان کا کام معتبر سائنسی جریدے ’ رائل سوسائٹی اوپن سائنس جنرل‘ میں بھی شائع ہو چکا ہے۔

2006 عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے جاری کی گئی فہرست لے مطابق پاکستان ان 57 ممالک میں شامل تھا جہاں طبی میدان میں عملے اور مہارت کی شدید قلت تھی۔ اسی ضرورت کی پیشِ نظر رکھتے ہوئے دو پاکستانی تخلیقی دماغوں نے نیوروسٹک نامی ادارہ بنایا۔ محمد اسد رضا اور ابراہیم علی شاہ دونوں کی عمر 24 برس ہے اور اس ادارے کے قیام کا مقصد ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کے لیے کم خرچ اور اعلیٰ معیار کے طبی آلات اور مصنوعی اعضا فراہم کرنا ہے۔ نیوروسٹک طبی خدمات کے ساتھ ساتھ پاکستان، افغانستان، ایران اور شام کے ان علاقوں میں مصنوعی اعضا کی فراہمی کی خدمت بھی انجام دیتا ہے جہاں لوگوں کی بحالی کی سہولیات تک رسائی کم ہے یا بالکل نہیں۔ اسی فہرست میں سعدیہ بشیر نے انٹرپرائز ٹیکنالوجی کی کیٹگری میں اپنی جگہ بنائی۔ سعدیہ ویڈیو گیمز پروڈکشن کی فیلڈ سے وابستہ اور ’پکسل آرٹ گیمز اکیڈمی‘ کی شریک بانی ہیں، جہاں گیم ڈیزائن اینڈ پروڈکشن، گیم پروگرامنگ اور اینیمیشن کی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔

ان تمام پاکستانی نوجوانوں کے کارنامے پڑھ کر ایک دم میرا ذہن ایک مرتبہ پھر ورشا سہیل کی طرف چلا گیا، وہ ورشا جو یونیورسٹی کی گولڈ میڈلسٹ طالبہ ہیں، جوٹیلینٹڈ ہونے کے ساتھ ساتھ خوش شکل اور شرارتی بھی تھی، وہ ورشا جو اب طلاق کے بعد زندگی سے موت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ کاش اگلے سال فوربز تھرٹی انڈر تھرٹی لسٹ میں ورشا کا نام بھی ہو۔ یہ سوچ میرے ذہن میں رقص کررہی تھی کہ زور سے دروازہ کھلا اور امی کی آواز آئی، بیٹا جلد کرو، تمہارے ابو نے ایک ضروری کام کے سلسلے میں باہر جانا ہے، جلد سے لیب ٹاپ بند کیا اور اپنے کمرے سے نکل کر ابو کے پاس پہنچ گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).