جینز والی طالبات اور بے حیائی کا سدباب


پنجاب حکومت نے مارچ 2018 کے ایک ہدایت نامے کے ذریعے اساتذہ کے جینز پہننے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس سے پہلے گاہے بگاہے مختلف یونیورسٹیوں کی جانب سے طالبات کے جینز پہننے پر پابندی کی خبریں آتی رہی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی آف فیصل آباد، جی سی یونیورسٹی فیصل آباد، فاسٹ نیشنل یونیورسٹی اسلام آباد، کنیئرڈ کالج اور ایسے دیگر بڑے تعلیمی اداروں کی جانب سے مختلف وجوہات کی بنیاد پر طالبات کے جینز پہننے پر پابندی کی خبریں آتی رہی ہیں۔ بات تو معقول ہے۔ کسی لڑکی کے جینز پہننے کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہ مغرب زدہ خیالات کی حامل ہے اور کسی بھی وقت کوئی بھی بے راہ روی کر سکتی ہے۔

لیکن ایسا نہیں ہے کہ مغرب بھی اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتا رہا ہے۔ باشعور مغربی قوموں نے اس کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ مشرقی جرمنی کی باحمیت حکومت نے جینز پر طویل عرصے تک پابندی عائد کیے رکھی۔ ادھر تعلیمی اداروں اور ڈسکو میں جینز پہننے کی مناہی تھی۔ کمیونسٹ پارٹی کے باشعور راہنماؤں کا کہنا تھا کہ جینز صرف وہی افراد پہنتے ہوں گے، جو مجرمانہ اور آوارہ ذہنیت کے مالک ہوں گے۔

بگڑا ہوا بھارت بھی جینز پر پابندی لگا رہا ہے۔ پٹنہ کے مگدھ مہیلا کالج نے طالبات کے جینز پہننے پر پابندی لگائی ہے۔ آگرہ کے ایک گاؤں کی پنچایت نے لڑکیوں کے جینز پہننے پر پابندی لگاتے ہوئے شراب نوشی اور جوئے کے اڈوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیرالہ کے ایک پروفیسر صاحب نے تو اس کے عواقب پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ علم نباتیات کے پروفیسر راجتھ کمار نے بتایا ہے کہ وہ عورتیں جو جینز اور شرٹس پہنتی ہیں ان کے ہاں عام بچوں کی بجائے خواجہ سرا پیدا ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے کیرالہ میں خواجہ سراؤں کی تعداد چھے لاکھ ہو چکی ہے۔

اگر مشرقی جرمنی سے لے کر بھارت تک جینز پر پابندی لگ چکی ہے تو ہمیں ان سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے، غیرت کا معاملہ ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جینز کی جگہ طالبات کیا پہنیں؟ بہتر ہے کہ طالبات کو ہمارا روایتی لباس پاجامہ پہننے کی ترغیب دی جائے۔

پاجامے کو ہر قسم کے فیشن میں بہ سہولت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کی بے شمار اقسام ہیں۔ جن لڑکیوں کو کھلا ڈلا لباس پسند ہے وہ کان پور سٹائل کا لہراتا ہوا پاجامہ پہن سکتی ہیں۔ جن طالبات کو جسم سے چپکے ہوئے تنگ کپڑے پسند ہیں وہ چوڑی دار پاجامہ پہن لیں۔ پھر لٹھے سے لے کر مختلف لان اور دیگر اقسام کے رنگ برنگ پاجامے دستیاب ہیں۔ جینز میں تو بس دو تین رنگ ہوتے ہیں۔ ڈیزائن سب کا ایک ہوتا ہے۔ پاجامے میں کتنی زیادہ ورائٹی ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر جدید ڈیزائنر لباس میں جینز یا شلوار کی بجائے پاجامے کا رواج ترقی پا رہا ہے۔

یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض طالبات نہایت ہی مہین کپڑے کے پاجامے پہن لیتی ہیں جس سے پردے کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ بہتر ہے کہ جینز پر مکمل پابندی عائد کرنے کے بعد پاجامے بارے میں بھی راہنما اصول وضع کر دیے جائیں۔

پہلا یہ کہ پاجامے کا کپڑا خوب موٹا ہونا چاہیے۔ ہو چاہے کاٹن کا، لیکن اتنا دبیز ہو کہ اس کے آر پار دیکھنا ممکن نہ ہو تاکہ بے پردگی سے بچا جا سکے۔ اس کے علاوہ طلبہ و طالبات کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس وقت نہایت کم ہوتا ہے۔ عام لٹھے کے پاجامے پر نہ صرف ایک گھنٹے میں شکنیں پڑ جاتی ہیں بلکہ ایک مرتبہ پہننے کے بعد اسے دھونا پڑتا ہے۔ اس مسئلے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

ہم نے مارکیٹ میں نیلے اور کالے رنگ کی کاٹن کا ایک خوب موٹا کپڑا دیکھا ہے۔ اس کے بنے ہوئے پاجامے کو چاہے مہینے بھر نہ دھوئیں یہ صاف لگتا ہے اور اس کی استری بھی خراب نہیں ہوتی ہے۔ بہتر ہے کہ پاجامے بنانے کے لئے لٹھے کی بجائے اسے استعمال کیا جائے۔ بعض طالبات ہینڈ بیگ وغیرہ استعمال کرنے سے کتراتی ہیں۔ ان کی سہولت کے لئے اس موٹے کپڑے کے پاجامے میں جیبیں بھی لگائی جا سکتی ہیں جن میں وہ اپنے پیسے اور موبائل وغیرہ رکھ لیں۔

ایک بڑا مسئلہ کمربند کا بھی ہوتا ہے۔ ادھر ادھر لٹکتا پھرتا ہے تو لوگ اسے دیکھ کر مذاق اڑاتے ہیں۔ کمربند کی جگہ الاسٹک استعمال کرنا نہایت ہی خطرناک ہو سکتا ہے اور کسی ناگہانی حادثے کی صورت میں پاجامے کی بجائے طالبہ پر ہی پابندی لگ سکتی ہے۔ اس لئے کمربند اور الاسٹک کی بجائے اگر پاجامے کو اپنی جگہ پر قائم رکھنے کے لئے اس میں بٹن لگا کر بند کرنے کی سہولت دے دی جائے تو مناسب ہو گا۔ مزید حفاظت کے لئے پاجامے کے نیفے کے گرد ہکیں لگا کر اس میں بیلٹ ڈالنے کی جگہ بھی رکھی جا سکتی ہے۔

ہمیں امید ہے کہ اس جدید وضع کے موٹے کپڑے کے پاجامے، جس میں جیبیں، بٹن اور بیلٹ موجود ہو، کے استعمال کے نتیجے میں معاشرے میں پھیلی ہوئی بے حیائی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ طالبات مغرب زدہ بھی نہیں ہوں گی اور اپنی روایت کے مطابق موٹے کپڑے سے بنا ہوا یہ پاجامہ پہن کر نہ صرف مشرقی خیالات کی علمبردار ہونے کا بصری ثبوت دور سے ہی فراہم کر دیں گی بلکہ یونیورسٹی حکام کو اس ہیجان سے بھی نجات مل جائے گی جس میں وہ جینز میں ملبوس طالبات کو دیکھ کر مبتلا ہو جاتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar