وہ مائیں جو باپ بھی ہیں


حسن صاحب نے چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے بات شروع کی۔ میں شہر سے ایک ہفتہ باہر چلا جاوں تو میری بیوی کا رویہ فون پر ہی چڑچڑا محسوس ہونے لگتا ہے، بے وجہ الجھنا، لڑائی کا کوئی بہانہ ڈھونڈ لینا کچھ نہ ملے تو یہ کہہ دینا کہ آپ اچھے ہیں جو دوسرے شہر جاکر بیٹھ گئے یہاں میں ہلکان ہوچکی ہوں ہزاروں جھمیلوں میں، ان باتوں پر کبھی میں بھی آواز اونچی کرلیتا ہوں تو کبھی خاموش ہوجاتا ہوں، گھر لوٹ کر اندازہ ہوتا ہے کہ میری عدم موجودگی میں بچوں نے بیگم کا کیا حال کیا ہوگا، اسکول چھوڑنے جانے سے لے کر ان کو لنچ بکس بناکر بیگ میں رکھنے تک اور پھر اسکول سے واپس لاکر ان کی جھوٹی سچی کہانیاں مسکرا مسکرا کر سننے سے لیکرمنہ میں نوالے ڈالنے تک آدھا دن تو یوں ہی گزر جاتا ہے۔ پھر ان کو سلانا پھر ان کے بیگ کی تلاشی لینا کہ بچے کہیں کسی اور سرگرمی میں تو نہیں پڑ گئے۔

وہ سو کر اٹھیں تو ان کو ٹیوشن بھیجنا شام کی چائے کے ساتھ کسی کی فرائز کی فرمائش تو کسی کو نگٹس دینا، ساتھ ساتھ چولہے پر چڑھی رات کی ہانڈی تو گھڑی پر نظر۔ اسی دوران اگر کوئی بن بلائے مہمان آجائے تو اس کے لئے اچھے کھانے کی فکر، مہمانوں کے رخصت ہونے پر اگلے دن کی پریشانی اسے کئی گھنٹوں پہلے شروع ہوجاتی ہے بچے کسی نئے سیل کی بیٹری کی طرح چارج ہوئے پھر رہے ہوتے ہیں اور وہ ان کے دھلے یونیفارم استری کرنے کے بعد مجھے آواز لگا دیتی ہے کہ سنیں! کل آفس آپ نے کونسے کپڑے پہن کر جانا ہے؟ اس ساری روٹین میں کہیں یہ نہیں بھولتی کہ آنے والے چند ماہ بعد جو خاندان میں شادی ہے اس میں کتنا خرچہ ہونے والا ہے، کیا کیا بنانا ہے کہاں کہاں سے بچت کرنی ہے، کون ناراض ہے اسے کیسے منانا ہے اور کون ہے جس سے بچ کر چلنا ہے کہ کہیں رنگ میں بھنگ نہ پڑجائے۔ اگر میں ایک روز بیٹھ کر یہ سب نہ دیکھتا اور دل سے محسوس نہ کرتا تو شاید دفتر میں بیٹھا یہی کہہ رہا ہوتا کہ بس بس رہنے دو ان عورتوں کو تو ٹھنڈے دودھ کو پھونکیں مارنے کی عادت ہے، اتنا کام ہوتا نہیں جتنا واویلا مچاتی ہیں۔

چار بچوں کا باپ ہوں شام کو گھر جاوں تو بچوں کو بے صبری سے میرا انتظار ہوتا ہے موڈ اچھا ہو تو ان کے وارے کے نیارے ہوجاتے ہیں جس روز باس سے تین پانچ ہوجائے تو اس دن بچوں کو میری ایک چنگھاڑ ہی بیرکوں میں چھپا دیتی ہے۔ سارا دن کھپنے والی بیوی بچوں کو اندر کمرے میں جاکر پٹیاں پڑھاتی ہے کہ بابا تھکے ہوئے آئیں ہیں ان کے سر میں درد ہے شور نہیں کرنا جو چاہیے مجھے بتاؤ۔ اور میرے موڈ کو بھانپتے ہوئے مجھے سونے کا مشورہ دے کر وہ کمرے سے نکل جاتی ہے۔ میں یہ سوچ کر کروٹ لے کر آنکھیں موند لیتا ہوں کہ چلو ڈانٹنا اچھا ہی ہوا کچھ تو نیند پوری ہو۔ لیکن رات کے کسی پہر جب میری نیند بے وقت سونے سے کہیں دور چلی جاتی ہے تو بیوی کو بے سدھ گہری نیند میں دیکھ کر میں سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ یہ عورت کتنا کام کرتی ہے اور یقیناً اس لمحے بھی کئی کام ذہن میں لئے سوئی ہوگی اگر رات نہ بنی ہوتی تو ابھی بھی گھر کے جھمیلوں میں الجھی نظر آتی۔

میں سولہ برس کا تھا جب میرے والد اس دنیا سے رخصت ہوئے مجھ سے چھوٹے دو اور بھائی تھے جن کی عمریں بارہ اور آٹھ برس تھیں، والدہ کی کم عمری میں شادی ہوئی، ابھی عمر چھتیس برس ہوئی تھی اور زندگی تھوڑی سہل محسوس ہونا شروع ہوئی کہ کہ بیوہ ہوکر انھیں ہمیں نانا کے گھر آنا پڑا۔ ہم اس عمر میں تھے کہ سمجھ ہی نہ سکے کہ ہم پر کیا قیامت گزر گئی۔ کیسے اماں نے ہمیں پالا، کسی کا احسان لئے بغیر مالی مدد کے بناء پڑھا لکھا کر اس مقام تک پہنچایا کہ آج سوچوں تو دل پر منوں بوجھ محسوس ہوتا ہے آج اس قیامت کے گزرنے کی شدت ہلکی سی بھی محسوس ہو تو رات کی نیند اڑ جاتی ہے۔ باپ کے بغیر میں نے چوبیس برس گزار لئے، اف، کیسے؟ کس طرح؟ اتنے برسوں میں ابا یاد بھی نہیں آئے سوائے ایک موقع کے جب میں خود باپ بنا، بیٹے کے کان میں اذان دی تو گلا رندھ سا گیا اماں کو اتنا خوش دیکھ کر دل کیا کہ کہوں کہ کاش آج ابا زندہ ہوتے تو وہ بھی کتنا خوش ہوتے کہہ نہ سکا، لیکن آج سوچتا ہوں کہ اماں نے بھی اس وقت ایسا سوچا ہوگا۔

میری ماں نے بڑی محنت سے ہم کو پالا، لڑکوں کو پالنا کوئی آسان بات تھوڑی ہے اس کا اندازہ اپنے سپوتوں کو دیکھ کر ہوتا ہے، ایک کو پیار کرو تو دوسرا خفا، تیسرے کا کہنا کہ آپ کو تو میں نظر نہیں آتا، چھوٹے کا بس چلے تو وہ تین کو پاس نہ آنے دے۔ روز ایک ہنگامہ روز ایک نئی کہانی، اسکول سے آنے والی شکایات کا انبار دماغ کے کل پرزے ہلادیتا ہے تو امتحانات میں کم نمبر آنے پر لہو کھولنے لگتا ہے۔ نہ جانے اماں کیسے ہمیں سنبھالتی ہوں گی؟ نہیں رہا گیا تو ایک روز اماں سے پوچھ ڈالا جب ان کا لاڈلا پوتا ان کی گود میں بیٹھا ان کے بالوں سے کھیل رہا تھا۔ میرا سوال کہ امی، ابو کے انتقال کے بعد آپ نے کیسے ہمیں پالا ہم دونوں میاں بیوی سے تو یہ نہیں سنبھلتے آپ اکیلے کیسے کرتی تھیں؟

اماں کو تو جیسے جھٹکا لگ گیا غور سے مجھے دیکھا اور کہا کہ دنیا کے لئے تو تمہارا باپ اس جہاں میں نہیں تھا لیکن میں نے تم سب کو پالا اسی کے ساتھ ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا جب رات کو میں اس کے سامنے روتی نہ ہوں، تم بچوں کی شکایتیں نہ کرتی ہوں، تم جب بیمار پڑتے تو اپنی فکر کا اظہار تمہارے بابا سے ہی کرتی تھی، تم جب کامیاب ہوتے تھے تو انھیں ہی سب سے پہلے بتاتی تھی وہ جسمانی طور پر بھلے نہ سہی لیکن تھے ہمارے ساتھ ہی، اتنے برس بیت جانے کے بعد بھی تمہارے بابا آج بھی ساتھ ہیں۔ میں ان کے جواب سے ہل سا گیا، بدن میں ایک سرد لہر سی دوڑی اور ایک بار اپنی ماں کو ایک پھر مڑ کر اپنی بیوی کو دیکھا جو رات کا کھانا بنارہی تھی اور ساتھ ساتھ بڑے بیٹے کو ایک مضمون بھی لکھوا رہی تھی لیکن چہرے پر بلا کا اطمینان اور سکون تھا۔

عورت کو سمجھنا مشکل ہے یہ سنا ضرور تھا آج اماں کی بات سن کر یقین ہوگیا۔ جس عورت نے عین جوانی میں جب اسے قدم قدم پر شوہر کے ساتھ کی ضرورت تھی بیوگی کی چادر اوڑھ لی تھی اپنے بچوں کو اس ذمہ داری سے پالا کہ روز محشر اس سے اس کا شریک حیات سوال کرے گا کہ کیسے پالا میرے بچوں کو کوئی کمی تو نہیں چھوڑی؟ امتحان پر پوری اتری یا ہمت ہار بیٹھی؟ لیکن وہ تو روز محشر کیا اپنے شوہر کو آج بھی جوابدہ ہے۔ اب جب مین اپنی بیوی کو اپنی غیر موجودگی میں اتنی ساری ذمہ داریاں سنبھالنے پر جھنجھلاہٹ کا شکار دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کاش میری ماں دوسری شادی کرلیتی لیکن جب سے ان کا جواب سنا ہے میں تو بس رہ ہی گیا ہوں ہر دلیل ہر جواز، ہر سوچ ان کے جواب کے سامنے ختم ہوچکی۔ مرد شاید ایسا نہیں کرسکتا شاید اس کے خمیر میں ہی ایسا نہیں ہے وہ صرف باپ بن سکتا ہے ماں نہیں لیکن ایک ماں باپ بھی بن جاتی ہے اور سب کچھ سنبھال لیتی ہے۔

حسن صاحب سے اس پر اثر تبادلہ خیال کے بعد میں نے اپنی ماں کی جانب بھی دیکھا جن کے بالوں میں ابھی آٹھ دس سے زیادہ سفید بال نہیں آئے جس پر میں انھیں اکثر چھیڑتی ہوں کہ ان سیاہ بالوں کا راز تو بتادیں تو وہ گھور کر دیکھتی ہیں، امی کی حس مزاح اب بھی کمال کی ہے، کچھ لکھنے کی خواہش ہو تو ان سے رہنمائی میں لازمی لیتی ہوں، ابو کی وفات کو چھ برس بیت گئے جس روز سے ابو گئے میں نے انھیں سوتا نہیں دیکھا، رات کے کسی پہر آنکھ کھلی ہو تو یا تو عبادت کرتے دیکھا یا اپنے پلنگ پر سر ٹکائے ہاتھ میں کوئی کتاب لئے دیکھا، صبح دفتر جاتے وقت سب کو ان کی جانب سے ہدایت نامہ لازمی ملتا ہے، وہ اس وقت بھی جاگ رہی ہوتی ہیں کبھی جو ان کی آنکھ لگ جائے تو ہلکی سی آہٹ سے وہ ہڑبڑا کر اٹھ جاتی ہیں، ابو کی وفات کے بعد بھی سسرال کو نبھانے سے لے کر ہر خوشی غمی میں ان کی شرکت لازمی ہے۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar