میری امی۔ میری سپر ہیرو


امی کا، عورت کی تعلیم پر زور دینے کا مقصد یہ تھا کہ اپنا دماغ استعمال کر و، اپنی ذہانت استعمال کرو، اور کبھی فرسودہ سوچیں، دقیانوسی اقدار، مردانہ استحصال اور لوگوں کی نا انصافیاں، زندگی کے ایسے موڑ پر لے آئیں تو، مقابلہ کر نا، نہ کہ دماغ کو پیچھے رکھ کے عام عورتوں کی طرح چہرے اور جسم کی خوبصورتی کو آگے لانے کا سوچنا۔ اپنی تعلیم پر اور اپنے کئیرئیر پر زور دینے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہمیں گھر اور بچوں کی خاطر خود کو قربان کرنے کا درس بھی دیا۔ لفظوں سے نہیں اپنے اعمال سے۔ میرے بچپن کی عیدوں میں، جب ساری دنیا کی عورتیں سجی سنوری، پھر رہی ہو تی تھیں، دعوتیں لی دی جا رہی ہو تی تھیں، امی عام سے کپڑوں میں کچن میں کھڑی ہوتی تھیں۔ ہمیں سجا سنوار کر، نئے فراک پہنا کر ہاتھوں میں چھوٹے چھو ٹے پرس دے کر کہا کر تی تھیں، جاؤ، باہر سیر کر کے آؤ، آج میں سوچتی ہوں ہم میں سے کوئی بھی امی کو نہیں پو چھتا تھا کہ امی آپ عید کیسے کر یں گی؟ کچن میں کھانے پکا پکا کر؟ آج سوچتی ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ ان کی زندگی کتنی بد رنگ تھی، شوہر سے انڈر سٹینڈنگ نہیں، باپ ہے نہیں، ماں اپنے دوسرے بچوں کے ساتھ مصروف، دن بھر سکول اور ٹیوشن میں مصروف رہنے کی وجہ سے، کوئی سہیلی نہیں، غربت کی وجہ سے رشتے دار دور دور۔ تو ہم ہی ہم تھے، اور ہمیں بھی اپنے گوڈے سے لگانے کے بجائے سجا سنوار کر تفریح کر نے باہر بھیج دیتی تھیں۔ اور کبھی حالات کا رونا نہیں روتی تھیں، بس ہر دم حالات سے لڑنے میں مصروف رہتی تھیں۔

اب جب پرانی دوست حیران ہو کر پو چھتی ہیں، کہ کیا ابھی تک تم اپنی امی سے مشورے مانگتی ہو، تم تھکی نہیں؟ ابھی تک تمھاری امی کنٹرولنگ ہیں؟ تو میں جواب میں کہتی ہوں یہ سوال ہی غلط ہے، مجھ سے یہ پوچھو، ہماری امی ابھی تک ہمارا ساتھ دینے سے کیوں نہیں تھکیں؟ وہ آج تک ہمیں چھوڑ، ہمارے بچوں کی صحت، تعلیم کی فکر کر نے سے کیوں نہیں تھکیں؟ ہم ان کی بات سنیں یا نہ سنیں، زمانہ ان کے ساتھ جو مرضی کر جائے، دکھ تکلیف اور بیماری، کوئی بھی چیز انہیں ہمارے بارے میں سوچنے سے، ہماری فکر کرنے سے نہیں روک سکی۔ میری بیٹی کو کچھ ہو، تو وہ تڑپنے سے نہیں تھکیں، میرا بیٹا ٹھیک سے نہ پڑھے، تو اس کے لئے فکر مند ہو نے سے نہیں تھکیں، ہمیں دنیا کے دکھوں تکلیفوں سے بچانے سے نہیں تھکیں۔ ان کی جب کیمو ہو ئی تو میں نے سوچا، اب وہ صرف اپنی فکر کر یں گی، لیکن نہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کیمو کرواتے ہی، اٹھیں تو سب سے پہلے پوچھا ہادی ( میرا بیٹا ) ٹھیک سے پڑھنا شروع ہوا ہے؟ علینہ ( میری بیٹی ) اس کی بلڈ رپورٹ ٹھیک آئی ہے؟

امی! خدا کے واسطے، انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں، اپنا سوچیں۔ میں تڑپ کر بولی۔
نہیں علینہ کو کہو اس نے ڈاکٹر ہی بننا ہے۔
امی! بن جائے گی۔ آپ مت سوچیں۔ بس ہم تک آپ کا فرض تھاآّ گے ہمارا فرض ہے۔ اور آج کل کے بچے اپنا خود سوچتے ہیں۔
ایسے ہی خود سوچتے، بس بچوں کو گائیڈ کر نا ہو تا ہے، اکیلے نہیں چھوڑنا ہو تا بچوں کو۔ بچوں کا کیا ہے۔ مجھے ڈانٹ کر بولیں۔

اور اپنی دوستوں کو کنٹرولنگ کا کیا جواب دوں؟ دنیا میں کوئی ایسا مخلص ہے جو ایسا کنڑول رکھے کہ آپ کے لئے سب اچھا اچھا لے آئے، آپ کی زندگیوں کے کانٹے چنتا جائے، آپ کی ذات میں اپنی ذات ضم کر دے، ہمیں ہمیشہ دے، بدلے میں کچھ نہ مانگے، ۔ ہم چاہے ڈاکٹر بن جائیں یا بہت بڑے سرمایہ دار، ماؤں کو ہم کیا دیتے ہیں؟ ایک بات سننے کا کہنے کا مان؟ وہ بھی کنٹرولنگ؟ کنٹرول تو وہ ہو تا ہے جو یہ دنیا ہمیں کرتی ہے۔ ہم سے بہت کچھ لے لیتی ہے اور بدلے میں دھوکہ، دکھ، اذیت، دیتی ہے۔ جب تک صحت، دولت ساتھ رہے، یہ دنیا آپ کا دم بھرے گی، آپ کو مشورے بھی دے گی، اور آپ سنیں گے بھی، لیکن مائیں وہ مخلوق ہیں جو صرف دینا جا نتی ہیں۔ ہماری فکریں، ہماری خوشیاں، ہم، ہم اور ہم۔ نہ کوئی حساب کتاب، نہ کوئی پیسے کا لین دین۔ مانگنا بھی کیا ہو تا ان کا، ایک بچے کو جو معاشی طور پر ٹھیک ہو، اسے کہہ دینا، دوسرے بچے کی مدد کر دو، جو ذرا کمزور رہ جائے۔ یہی کچھ۔ بس مائیں یہی کچھ مانگتی ہیں۔ اور کیا مانگتی ہیں؟ کیا کنڑول کرتی ہیں؟ آپ ہی کی بھلائی کے لئے آپ سے بھڑی رہتی ہیں۔ ؟

آج بھی میری امی میرے بچوں سے بات کر تی ہیں تو ان کے مستقبل کی ہی بات کرتی ہیں۔ بننا کیا ہے؟ ان کو زندگی میں اچھی تعلیم ملے، اچھا ساتھی ملے۔ اچھے سے اچھا۔ آگے سے آگے۔ سرسید کی سوچ۔ ایک چھوٹی سی یتیم بچی کے دماغ میں نہ جانے کیسے آگئی تھی، جو آج تک نہیں نکل رہی۔ انہیں زندگی نے جتنا بھی آزمایا، جتنا بھی توڑنے کی کوشش کی، پھر سے ابھر آئیں، بلکہ کبھی ڈوبی ہی نہیں۔ برین ٹیومر سے بیٹی کی موت ہو ئی، میری بہن کی، وہ آخری دو سال بستر پر مفلوج پڑی رہی، میں نے سوچا، جس عورت کی زندگی میں صرف بچے ہی سب کچھ تھے، جو انہی کی خاطر دنیا کے ہر طوفان سے لڑ جا تی تھی، اب بیٹی کی جان لیوا بیماری سے ٹوٹ جا ئے گی۔ لیکن ٹوٹنے کی بجائے، وہ بیڈ پر لیٹی بیٹی کا سہارا بن گئیں، اسے چھوٹے سے بچے کی طرح سنبھالنے لگ گئیں، جیسے وہ پھر سے پیدا ہو ئی ہو۔ کمرجھکا کر اس کے سر پر کھڑی رہتی تھیں، کیونکہ اس کی آواز بھی چلی گئی تھی تو وہ اشارے سے بات سمجھاتی تھی، اس کی بات سمجھنے کے لئے رات کے وقت بھی گھنٹوں اس سے باتیں کر تی رہتیں، اس وقت تک جب تک اس کی بات سمجھ نہ آجاتی۔ میں نے کہا امی آپ کی اپنی کمر میں درد شروع ہو جائے گا۔ تو کہتیں! پتہ نہیں کیا کہنا چاہتی ہے جب تک اس کی طلب پو ری نہ کر لوں کیسے سو سکتی ہوں۔ ؟

اس نے امی کے ہاتھوں میں آخری سانس لی، تو لگا اب امی کا دم بھی نکل جائے گا۔ ان کی زندگی میں بچوں کے علاوہ تھا ہی کیا۔
مگر بہن کی ڈاکٹر بیٹی( ابھی وہ تھرڈ ائیر میں تھی ) کو بہت پہلے سے ہی، بہن کی بیماری سے بھی پہلے اپنی ہی بیٹی کہتی تھیں۔ اسے ڈاکٹر بنانے کے پیچھے بھی امی کا ہی خواب تھا، جو بہن نے اپنی بیٹی میں ٹرانسفر کیا تھا، تو اب بہن کی بیٹی امی کے سامنے بہن کی کامیاب اور صحت مند شکل کی صورت کھڑی تھی۔ یعنی امی نے بہن کو موت کے باوجود مر نے نہیں دیا۔

کچھ دن پہلے میری اسی بھانجی کے گھر ننھی پری پیدا ہو ئی تو امی اس کے ساتھ ہسپتال میں تھیں، اس کا سی سیکشن تھا، اسے ایک پل نہیں چھوڑا، نرسیں کہتی رہیں، آپ کی اپنی ٹانگ میں انفیکشن ہے، آپ بیٹھ جائیں، بھانجی کے سسرال والوں نے کہا سارہ تمھاری امی خود اتنی تکلیف میں ہیں، انہیں کہو گھر جا کر سو جائیں۔ سارہ نے کہا وہ میری امی ہیں کبھی نہیں جائیں گی۔ سارہ بھی جانتی ہے کہ امی مشکل میں چھوڑ کر کبھی نہیں جا تیں۔

تو دوستو! ہم سے یہ نہ پو چھو کہ وہ ابھی تک ہمارے معاملات میں مداخلت کیوں کرتی ہیں، کوئی ہم سے پو چھے کہ وہ ہمارے کام آنے سے ابھی تک باز کیوں نہیں آتیں۔
بڑی بہن جسے ڈاکٹر بنانے کے لئے اپنے سکول کی ساری فیسیں اکٹھی کر کے بھیج دیتی تھیں، وہ جب کینیڈا میں میڈیکل کے پیپرز دینے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی تھی، اور ہم میں سے ابھی تک کسی کی بھی کینیڈا کی امیگریشن نہیں ہو ئی تھی تو دنیا میں کوئی اور نہیں، وہ امی ہی تھیں جو اپنا لاہور میں چلتا ہوا سکول بند کر کے، اس کے پاس آگئیں، اس کے تین چھوٹے بچوں کو، جن میں سے بیٹی صرف دو سال کی تھی، انہیں سنبھالتیں۔ اس وقت، ان کے گھٹنوں میں درد کا آغاز ہو چکا تھا، مگر شدید برف باری میں بھی، اس بچی کو لے کر باہر سنو مین بنواتی تھیں۔ پینگ پر جھولے دیتی تھیں، اور منہ میں اپنے ہاتھوں سے بنائے ہو ئے گرم گرم پراٹھے کے نوالے ڈالتی تھیں۔

ہمیں کینیڈا امیگریشن کے لئے پنجاب یو نیورسٹی سے اپنی ڈگریاں چاہیے تھیں، جب فیصل جاتے، کلرک ٹال مٹول کر کے بھیج دیتے، ہمارے پاس وقت نہیں ہو تا تھا، چھوٹے چھوٹے بچے، اور دونوں ہی جاب کرتے تھے، ایسے میں امی اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر یو نیورسٹی جا کر بیٹھ گئیں، اور کلرکوں سے کہا جتنی دیر لگانی ہے لگاؤ، میں اس وقت یہاں سے جاؤں گی جب ڈگری دو گے، کلرک نے پہلے سمجھایا کہ جعلی ڈگری، جلدی مل جاتی ہے، اصلی نہیں ملتی۔ مگر بضد رہیں کہ اگرفیصل نے ماسٹرز کیا ہے تو اصلی ہی لے کر جاؤں گی۔ اور ہم آج بھی یاد کر کے ہنستے ہیں کہ امی نے تب تک وہاں ڈیرا ڈالے رکھا جب تک ایسے کرپٹ لوگوں سے بغیر رشوت کے ڈگری نکلوا نہیں لی۔ ہمارے بچپن سے لے کر، آج تک، اور ہمارے بچوں کے بچپن سے لے کر آج تک، ابھی تک، ہمارے ہی کام آرہی ہیں۔ ہماری گستاخیوں کے باوجود، ہماری نافرمانیوں کے باوجود، ہمارے چھوٹے پن کے باوجود، ہر طرح کی مصیبتوں کی ورائٹی جھیلنے کے باوجود۔ اپنی بیماریوں سے لڑنے کے باوجود بھی وہ ہمارے ہی کام آرہی ہیں۔ اورہم ایسے پیراسائٹس ہیں جو ابھی تک انہی پر پل رہے ہیں۔

امی!میری اور میرے بچوں کی زندگی میں ہونے کا شکریہ۔ میری جتنی اچھائیاں، خوبیاں اور زندگی میں کامیابیاں ہیں، سب آپ کی وجہ سے۔ میری زندگی کی سب خامیاں، ناکامیاں اور کو تاہیاں میری اپنی وجہ سے ہیں۔ آپ دنیا کی سب سے خوبصورت، سب سے کامیاب ماں ہیں۔ میں اس زندگی میں، مر نے کے بعد اور اگر اس کے بعد بھی کوئی زندگی ہے تو سب میں چاہوں گی، کہ میری ماں آپ ہی ہوں۔ پتہ نہیں آپ کو دوبارہ یہی بے وقوف بچے چاہییں یا نہیں مگر مجھے ہر وقت ہر زندگی میں آپ ہی کا ساتھ چاہیے۔

وہ ماں جو آج تک نئی ٹیکنالوجی سیکھنے کی لگن رکھتی ہے، وہ ماں، جس نے اب آکر ڈرائیونگ لائسنس لیا کہ میں اپنی بیٹیوں کے گھر آرام سے جا سکوں، وہ ماں جو آج تک یو ٹیوب اور فیس بک سے اچھے اچھے تعلیم و تربیت کے ٹیکسٹ نکال نکلا کر ہمیں اور ہمارے بچوں کو بھیجتی ہے کیونکہ وہ سمجھ گئی ہیں کہ آمنے سامنے بات کر نے کا وقت اور حوصلہ کسی کے پاس نہیں رہا تو انہوں نے زمانے سے اور وقت سے ہار ماننے کی بجائے ہماری فلاح کا، ہماری تعلیم کا نیا طریقہ بھی اپنا لیا ہے۔ فیصل آباد کے ایک چھوٹے سے علاقے سے ہمیں پہلے لاہور اور پھر کینیڈا لانے والی ماں، ہمیں کبھی نہ اکیلا چھوڑنے والی ماں۔ آپ جیسا کوئی نہیں۔ آپ سے زیادہ ہمارا کوئی مخلص نہیں۔

یو آر دی بیسٹ۔ میری زندگی تک میرے ساتھ رہیں۔ میں فوزیہ کی طرح خوش قسمت بننا چاہتی ہوں جس نے آپ کے ہاتھوں میں جان دی تھی۔ ورنہ میں مرنے کے بعد بھی اس سے جلتی رہوں گی۔ siblings jealousy۔ تو ہے نا پھر۔ لو یو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2