گالی اور گولی


گذشتہ ہفتے کے واقعات میں سب اہم واقعہ وزیر داخلہ جناب احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کا رہا۔ اسطرح کے روح فرسا واقعات میں یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اس سے پہلے سابق وزیر خارجہ جناب خواجہ آصف کے چہرے پر بھی سیاہی پھینکی گئی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے اوپر بھی جوتا اچھا لا گیا۔ جناب عمران خان پر بھی ایک جلسے میں جوتے سے وار کیا گیا۔ اس سے پہلے 2013 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور اے این پی پر جس تسلسل حملے کیئے گئے وہ بھی تاریخ کی ایک قبیح مثال ہے۔ چند روز پہلے کراچی میں جلسہ گاہ کے مقام پر پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی میں جوتم پیزار ہوئی ہے وہ بھی سب نے براہ راست دیکھی ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ ان تمام معاملات میں مارنے والا بھی اپنی سوچ پر یقین رکھتا تھا اور جس کی تضحیک کی جاتی ہے وہ بھی اپنی سوچ کو درست مانتا ہے۔ گالی دینے والا بھی اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے گالی کھانے والا بھی اس کوسچ کی پاداش کہتا ہے۔ گولی چلانے والا بھی پورے ایمان سے گولی چلاتا ہے اور گولی کھانے والا بھی اپنی مظلومیت پر یقین رکھتا ہے۔ جس کا موٹر سائیکل جلتا ہے وہ بھی حق پر ہوتا ہے اور جو اس کو نذر آتش کرتا ہے اس کے پاس بھی اس فعل کی بہت سی دلیلیں ہوتی ہیں۔ اس متشدادنہ سوچ کے پیچھے کیا عوامل ہیں اس پر تفصیل سے بحث درکار ہے۔

اس بات کو اب تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم ریاستی طور پر مذہب کا پرامن پہلو اجاگر کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ تقاریر کی حد تک ہر شخص امن کا داعی ہے مگر ہمارے اعمال اس قول سے لاگا نہیں کھاتے۔ مجھے ہر مسلمان کی طرح اس بات پر بین یقین ہے کہ ہمارا مذہب امن کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ یہ درگرز کی تلقین کرتا ہے۔ محبت اور بھائی چارے کو فرغ دیتا ہے۔ بزرگوں کا احترام اور بچوں پر شفقت کی ہدایت موجود ہے۔ کسی شخص کو بلاوجہ ضرر پہنچانے کی ممانعت ہے۔ دوسرے مذاہب کے احترام کا سبق بھی ملتا ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اس رحمت اور شفقت کے بین القوامی پیغام تک رسائی حاصل نہیں کر سکے؟ اس بحث کے تما م تر پہلوں میں سے اہم ترین پہلو یہ ہے کہ ہم نے ریاستی اور ملکی طور پر امن اور بھائے چارے کو فروغ دینے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی۔ ہم نے نفرتوں کو اپنا شعار بنایا ہے اور انہی کے فروغ میں اپنی تمام کاوشیں صرف کی ہیں۔ ہم نے سماجی طورپردلیل کو بز دلی سمجھا ہے اور دعوے کو اہمیت دی ہے۔ بدزبان شخص کو ہم بہادر گردانتے ہیں اور نرمی سے بات کرنے والا تھڑ دلا سمجھا جاتا ہے۔ مار پیٹ کرنے والا ہمار ا ہیرو بن جاتا ہے اور معافی مانگنے والا، درگزر کرنے والامعاشرے کے تمسخر کا نشانہ بنتا ہے۔ ہم نے سبق یہی سیکھا ہے ہر مکالمے کا نتیجہ بندوق سے نکلتا ہے اور گالی اور گولی سب سے بڑی حقیقت ہوتی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی نفرت کے اظہار کے لئے مذہب کا سہارا لیا ہے۔ اس مذہب کا جو محبت اور امن کا پیغام دیتا ہے۔ ہم نے سیاسی طور پر مذہب کو ایک کارڈ کے طور پر استعما ل کرنے کو شعار بنایا ہے جو کہ معاشرے کی فکری اساس کے ساتھ ہونے والا ایک المناک ظلم ہے۔ مذہب اور سیاست کا ہم نے اپنی دانست میں وہ مرغوبہ تیار کیا ہے کہ جس کی وجہ سے ہر شخص خوف میں مبتلا ہے۔ بات کرنے سے ڈرتا ہے۔ اظہار سے منکر ہو جاتا ہے۔ ستانوے فیصد مسلمان آبادی والے ملک میں ہہمیں اقلیتوں سے تو کوئی خطرہ نہیں ہے مگر مسلمانوں کو مسلمانوں سے خطرہ ہے۔ اور یہ خطرات ایک سوچی سمجھی سوچ کی بناء پر ہمارے ذہنوں میں تخلیق کیئے گئے ہیں۔ ذاتی یا حکومتی مفادات کے لئے کی گئی یہ سوچ اس سماج کو ایک متوازن سماج بننے سے روک رہی ہے اور المیہ یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا ادراک ابھی نہیں ہے۔ لوگ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے مذہب کو استعمال کرتے رہے اور یہ سارا معاشرہ اس اثر کو قبول کرتا ہے۔ گذشتہ دنوں کیپٹن صفدر کی تقریر سے جس شدت پسندی کا اظہار کیا گیا وہ کسی طرح بھی متوازن معاشروں کی سوچ نہیں ہو سکتی۔ شیخ رشید نے جس طرح جلاؤ گھیراؤ اور گالی اور گولی کے استعمال کی ترغیب دی وہ ناقابل معافی جرم ہے۔ عمران خان نے جس طرح ایک پوری نسل کو نفرت کا سبق پڑھایا اس کے مقاصد تو سیاسی تھے مگر اس نے ہمیں سماجی طور پر غاروں میں رہنے والوں کی سوچ تک پہنچا دیا ہے۔ بدقستی سے نفرت کے اس شعار کے نتائج ہم کئی دہائیوں تک بھگتیں گے۔

اس مسئلے کا ایک پہلو ہماری حکومتی کی سیاسی اور بین الاقوامی ترجیحات بھی رہی ہیں۔ ہم خود ہی اپنے بچوں کو امریکی ڈالروں سے ہونے والے جہاد کی تربیت دیتے رہے اور پھر ایک دن اچانک سے ہم نے جہاد کرنے والوں کی بیخ کنی کا عمل شروع کر دیا۔ اپنی آتش فشاں فصل کو ہم نے خود بارود کی نظر کر دیا۔ اس سارے عمل میں اس سماج پر ہونے والے اثرات کو مدنظر نہیں رکھا۔ اپنی بین الاقوامی ترجیحات ہمیں مقدم رہی ہیں اور درون خانہ پلنے والے عذاب پر نظر رکھنے سے ہم نے پہلو تہی کی ہے۔ ہماری نسلیں تشدد کے ماحول میں پلی برھی بڑھی ہیں اور بدقسمتی سے اس نسل کے پاس اس تشدد کا جواز بھی موجود ہے۔ ہمارے نصاب میں فاتحین اور جنگجوں کے قصے تو پوری شان و شوکت سے تحریر ہے مگر امن کے داعی افراد کا ذکر خال خال بھی دستاب نہیں ہے۔ مطالعہ پاکستا ن کی کسی کتاب میں جمہوریت کے بارے میں کوئی باب میں تو آج تک نہیں پڑھا۔ جمہوریت کے لئے دی گیء قربانیوں کو ذکر میں نے تو نہیں سنا۔ اپنے فنکاروں پر فخر ہمیں کبھی میسر نہیں ہوا۔ موسیقی کو کبھی ہم نے باعث عزت نہیں سمجھا۔ شاعری کبھی وجہ روزگار نہیں رہی۔ مصوری اس سماج میں عناد کا شکار رہی۔ یہ وہ فنون ہیں جو ہمیں نرمی کیطرف لے کر جاتے ہیں۔

کسی بھی معاشرے کی سوچ کی تخلیق میں دہائیاں لگتی ہیں۔ بدقسمتی سے گذشتہ ستر سال میں ہم اپنی تمام تر توانائیاں غلط سمت صرف کر چکے ہیں۔ تشد د کے فروغ دینے والے ہی اس سماجی جرم کے ذمہ دار ہیں۔ اب اگر ہم چاہیں بھی کہ یک دم اس سوچ کو تبدیل کر دیں تو یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ جس متشدد روئیے کو ہم نے ریاستی طور پر شعار بنایا ہے اس کی گرفت میں سے نکلنا ایکدم ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے بھی دہائیاں درکار ہیں۔ کئی نسلیں اب برباد ہوں گی تو تب کہیں جا کر امن و محبت کا پیغا ام لوگوں کے ذہنوں میں سرایت کرے گا۔ لیکن اگر ہم بحیثیت قوم اس سماجی تبدیلی پر متفق ہو بھی جائیں تو بھی اس کام کو ابھی سے شروع کرنا پڑے پڑے گا۔ مزید تاخیر کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس کے لئے تما م سٹیک ہولڈرز کو ایک نقطہ نظر پر متفق ہونا پڑے گا۔ ہمیں یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم مذہب کو ایک کارڈ کے طور پر استعما ل نہیں کریں گے۔ ہم حکومتی اور سیاسی مقصد کے حصول کے نفرت کو شعار نہیں بنائیں گے۔ گالی اور گولی کی سیاست کرنے والوں کی تادیب کریں گے۔ اپنی حکومت کے تسلسل کے لئے مذہب استعمال نہیں کریں گے۔ منبر اور مدرسے کا استعمال نفرت پھیلانے کے لئے نہیں کریں گے۔ اس اہم ادارے سے سماجی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ عوامی مسائل حل کیئے جا سکتے ہیں مگر اس کے لئے ریاستی طور پر متشدانہ سوچ کی مناہی ضروری ہے۔ سوچنے کی بات صرف اتنی ہے کہ کیا حکومتی اور ریاستی سطح پر تمام ادارے اس سماجی تبدیلی کے لئے تیار ہیں کیا پھر ہمارے کیسے میں تشدد کی دلیلیں ابھی موجود ہیں؟

نوٹ۔ گذشتہ ہفتے پولیس کے آئی جی موٹر وے اینڈ نیشن ہائی وے کلیم امام صاحب سے ملاقات ہوئی۔ کلیم امام صاحب کی پولیس کے لئے خدمات مثالی ہیں انہوں نے بتایا کہ پولیس نے ایسے پمفلٹ تیار کروائے ہیں جن میں علماء۔ مشائخ اور مساجد کے اماموں سے درخواست کی گئی ہے کہ ٹریفک کے قوانین کی پاسداری کا سبق اپنے اپنے خطبات میں دیں۔ یہ وہ مثبت پہلو جس کی تقلید لازمی ہے۔ مذہب، مسجد اور منبرسماج کی بہتری کے لئے استعال ہونا چاہیے گالی اور گولی کی سیاست کے لیے نہیں۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar