سوال نہیں، جواب درکار ہیں


مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے روزنامہ ڈان کے سیریل المیڈا کو انٹرویو دیتے ہوئے ایسے سوال اٹھائے ہیں جن کے جواب پوری قوم جاننا چاہتی ہے۔ اس لئے اب ان سوالوں پر کوئی حیران نہیں ہو سکتا بلکہ یہ بات ضرور حیران کرے گی اگر نواز شریف ان سوالوں کے جواب فراہم کریں یا کم از کم ان سوالوں کے بارے میں اپنی معلومات کے مطابق تصویر کو واضح کرنے کی کوشش کریں۔ اگر وہ یہ جواب فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو سال رواں میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی کے جس زعم میں وہ مبتلا ہیں ، وہ بے بنیاد بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ نواز شریف بے داغ سیاسی کیرئیر کے حامل نہیں ہیں۔ ان کی سیاست کا آغاز سابق فوجی آمر ضیا الحق کی سرپرستی میں ہؤا تھا کیوں کہ وہ اپنے قابل اعتماد لوگوں کے سہارے ملک میں عوامی حکمرانی کا ڈھونگ رچانا چاہتا تھا۔ تاہم اب وہ وقت بیتے تیس سال ہو گئے۔ اس کے بعد نواز شریف تین بار ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور سیاست میں فوج کے ساتھ رسہ کشی کے چشم دید گواہ ہیں۔ وہ اس کہانی کی سچائی جانتے ہیں جس کی وجہ سے پوری قوم جمہوریت کے نام پر کئی دہائیوں سے دھوکہ کھا رہی ہے اور ہر بار عوام کا منتخب کیا ہؤا لیڈر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے بعد بے بس ، لاچار اور بے اختیار ہوجاتا ہے۔ عوام اس سے اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں لیکن منتخب ہونے والا لیڈر خود اپنے اقتدار کو بچانے اور بچ بچ کر چلنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ ذولفقار علی بھٹو سے لے کر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف تک اس تجربہ سے گزر چکے ہیں۔ اب نواز شریف کے پاس موقع اور وقت ہے کہ اگر وہ آنے والے انتخابات میں الیکٹ ایبلز اور گیم سجانے والوں کی میزیں الٹنا چاہتے ہیں تو وہ سارے سچ عوام کے سامنے رکھ دیں جو وہ جانتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ ان کی سیاست کا خاتمہ کرنے کی تیاری مکمل ہے۔ اور وہ مبہم فقروں اور ادھورے سوالوں کے ساتھ اس کھیل کو پلٹ نہیں سکیں گے۔

پاکستان کی سیاست سے دلچسپی رکھنے والا شاید ہی کوئی مبصر ہو جو یہ نہ جانتا ہو کہ نواز شریف کو سیاست سے باہر رکھنے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی نواز شریف کے دشمن بھی یہ جانتے ہیں کہ ملک میں اگر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات منعقد ہوتے ہیں تو پنجاب کی حد تک کوئی سیاسی لیڈر یا جماعت نواز شریف کی مقبولیت کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی۔ اس صورت حال کا ادراک رکھنے والے الیکٹ ایبلز کو ہانک کر پاکستان تحریک انصاف میں شامل کروا رہے ہیں اور اس پارٹی کو کنگز پارٹی کا اسٹیٹس دیا جارہا ہے۔ موجودہ حکومتوں کے خاتمہ کا وقت قریب آنے کے ساتھ اپنے بل بوتے پر منتخب ہونے والے یا اقتدار کے لئے سیاست کرنے والے ارکان اسمبلی تیزی سے اس پارٹی کی تلاش میں ہیں جو آئیندہ اکثریت حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ ملک میں عبوری حکومتیں قائم ہونے کے بعد یہ سرگرمیاں تیز ہو جائیں گی اور پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کے خواہشمندوں اور مسلم لیگ (ن) سے فاصلہ کرنے والوں کی قطاریں طویل ہو سکتی ہیں۔ نام نہاد الیکٹ ایبلز یا سرکار کی سیاست کرنے والے لیڈروں کو دو وجوہات نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ باند ھ کے رکھا ہؤا ہے۔ ایک یہ کہ نواز شریف بدستور مقبول ہیں اور ان کی مقبولیت کسی بھی امید وار کے لئے جیت کی کنجی ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کی دوسری وجہ پارٹی کے ان ’وفاداروں‘ کی یہ امید ہے کہ شہباز شریف کی کوششوں سے انتخابات سے پہلے کوئی نہ کوئی ایسا معاہدہ ہو جائے گا کہ نواز شریف سیاسی عمل میں معاونت تو کریں گے لیکن خود سامنے آنے والے اشاروں کے مطابق سیاست سے بن باس لے لیں گے۔ جوں جوں یہ واضح ہوتا جائے گا کہ نواز شریف معاہدہ کی بجائے تصادم چاہتے ہیں یہ لوگ کنی کترانا شروع کردیں گے۔

ڈان کو دئیے گئے انٹرویو میں نواز شریف نے واضح کیا ہے کہ وہ کوئی معاہدہ کرنے اور اپنے نعروں ’مجھے کیوں نکالا‘ اور ’ووٹ کو عزت دو‘ سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ان نعروں کے ساتھ انتخابی میدان میں اترنے والے کھلاڑی کو اس کھیل کے خطرات کا اندازہ بھی ہونا چاہئے۔ ان خطرات کو تسلیم کرکے کھرا سچ بولنے کی صورت میں ہی نواز شریف سیاسی کم بیک کرنے کی امید کرسکتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے انہیں اپنے نامکمل فقرے مکمل کرنا ہوں گے اور ان سوالوں کے جواب دینا پڑیں گے جو وہ اپنی نااہلی کا جواز فراہم کرنے اور ملک کو درپیش اندیشوں اور مشکلات کے حوالے سے انٹرویو کرنے والوں سے پوچھتے ہیں۔ سیرل المیڈا سے بھی انہوں نے ایسے ہی سوال پوچھے ہیں۔ لیکن اگر نواز شریف بھی ان سوالوں کے جواب نہیں جانتے یا عوام کا مینڈیٹ ہونے کے باوجود نااہل ہونے کے بعد بھی یہ بتانے کے تیار نہیں ہیں کہ انہیں کیوں نکالا گیا اور کون سی قوتیں ووٹ کو عزت نہیں دیتیں تو ان کی سیاسی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ کیوں کہ کنگز پارٹی کے وہ لوگ جو صرف اقتدار کے سائے میں رہنے کے عادی ہیں، انہیں تحریک انصاف کی صورت میں روشنی کی ایک کرن دکھائی دے رہی ہے۔ وہ جلد یا بدیر مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر نئی چہیتی پارٹی میں شامل ہونے کو ترجیح دیں گے۔ ان لوگوں کے لئے مسئلہ صرف یہ ہے عمران خان انہیں ’قبول‘ کرتے ہوئے پارٹی ٹکٹ سے نوازتے ہیں یا اس پارٹی میں شامل ہونے والوں کی طویل قطار کی وجہ سے انہیں ویٹنگ لسٹ میں رکھا جائے گا۔ ایسی صورت میں وہ مجبوری کی حالت میں نواز لیگ کے ساتھ چپکے رہیں گے یا اپنی ذاتی کامیابی کو یقینی سمجھتے ہوئے آزاد امید وار کے طور پر اسمبلیوں کے انتخاب لڑیں گے تاکہ انتخابات کے بعد دیگر سیاسی گروہوں کی طرح وہ بھی اقتدار کی بندر بانٹ میں شریک ہو سکیں۔

نواز شریف اس صورت حال کا مقابلہ صرف اس صورت کرسکتے ہیں اگر وہ واقعی کشتیاں جلا کر میدان میں اترنے کا عندیہ دیں اور واضح کریں کہ آئین کی بالادستی اور منتخب حکومت کے وقار اور اختیار کی جنگ میں وہ اب کسی مصلحت سے کام نہیں لیں گے۔ اس صورت میں نواز شریف کو نام نہاد جیتنے والے سیاسی گھوڑوں کی ضرورت نہیں رہے گی اور وہ جس کے سر پر ہاتھ رکھ دیں گے وہ اپنے حلقے میں غیر معروف ہونے کے باوجود کامیاب ہو سکے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی نواز شریف کو وہ قیمت دینے کے لئے بھی تیار رہنا ہو گا جو ناکامی کی صورت میں انہیں چکانا پڑے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بدستور تذبذب کی کیفیت میں دکھائی دیتے ہیں اور پر اعتماد ہونے کے باوجود عوام اور مبصرین کو یہ یقین دلانے میں کامیاب نہیں ہو رہے کہ وہ انتخابات کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں کیوں کہ ان کا مؤقف درست ہے۔ درست مؤقف صرف اس صورت میں ووٹر کو متاثر کرتا ہے جب اسے یہ مؤقف سامنے لانے والے کی نیت اور صاف گوئی پر پورا بھروسہ ہو۔ نواز شریف کو دیکھنا ہو گا کہ کیا وہ یہ بھروسہ قائم کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

ڈان کو دئیے گئے انٹرویو میں نواز شریف نے جو سوال کئے ہیں ، وہ سادہ مگر اہم ہیں۔ انہیں مختصراً یوں بیان کیا جاسکتا ہے:

1۔ ملک میں دو یا تین حکومتیں نہیں ہو سکتیں۔ ملک میں صرف آئینی حکومت ہو سکتی ہے۔

2۔ پارٹی چھوڑنے والوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ پارٹی نہیں چھوڑ رہے، ان سے پارٹی چھڑوائی جارہی ہے۔

3۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ‘مجھے کیوں نکالا‘ مقبول نعرہ ہے اور لوگ جواب چاہتے ہیں۔

4۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کوئی غلطی نہیں کی اور انہیں دوبارہ اقتدار ملا تو وہ پھر بھی ایسے ہی کام کریں گے۔

5۔ اصلاحات کے بارے میں بات کرتے ہوئے نواز شریف کہتے ہیں کہ ’جب حکومت کے پہلے سال سے ہی عدم استحکام پیدا کیا جائے گا تو اصلاحات کیسے لائی جا سکتی ہیں‘۔

6۔ ’قربانیوں کے باوجود ہمارا بیانیہ قبول نہیں کیا جاتا۔ افغانستان کا مؤقف مانا جاتا ہے، ہمارا نہیں‘۔

7۔ ’انتہا پسند تنظیمیں متحرک ہیں۔ آپ انہیں نان اسٹیٹ ایکٹرز کہہ لیں۔ لیکن کیا ہمیں انہیں ممبئی جاکر 150 لوگوں کو مارنے کی اجازت دینی چاہئے‘۔

یہ سارے سوال نما بیانات واضح ہونے کے باوجود مبہم اور جواب طلب ہیں۔ خاص طور سے ممبئی حملوں کے حوالے سے ذمہ داری قبول کرنے کا بیان انتہائی حساس اور نازک ہے۔ پاکستان کا سرکاری مؤقف رہا ہے کہ اس کی سرزمین سے کسی گروہ نے بھارت میں حملے نہیں کئے۔ نواز شریف اگر اس مؤقف پر قائم رہنے اور اس کی وضاحت کرنے اور تفصیلات بتانے سے قاصر رہتے ہیں کہ کون سے عناصر کو کن لوگوں نے ممبئی حملوں کے لئے تیار کیا تھا۔ اور یہ کہ ریاست کے ڈھانچے میں کون سی قوتیں منتخب لیڈروں کے خلاف متحرک ہوتی ہیں اور پارلیمنٹ کیوں باختیار ادارے کے طور پر کام کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ ان ہاتھوں کو جاننے کے باوجود ابھی تک کسی نے ان کی نشاندہی نہیں کی ہے۔ نواز شریف یہ کام کرسکیں تو ہو سکتا ہے انہیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے لیکن وہ ملک میں آئینی جمہوریت کی بحالی کی جد و جہد کو نئی زندگی دینے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ اس ملک کے عوام پر یہ ان کا احسان ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali