خدا نے ازخود نوٹس لے لیا تو کیا ہو گا؟


ایک ٹی وی ڈرامے کی ریکارڈنگ کا منظر (فائل فوٹو)
ایک ٹی وی ڈرامے کی ریکارڈنگ کا منظر (فائل فوٹو)

یونائیٹڈ پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے گروپ نے سوچا کہ ہارون الرشید کا دور لوٹ آیا ہے اور وہ اپنی فریاد لے کے زنجیرِ عدل کھینچنے پہنچ گئے۔

انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں، شاعرانہ تعلی کچھ زیادہ ہی آزادانہ برتی جاتی ہے۔ سو کئی صدیوں کا سفر طے کر کے، چیف جسٹس کے دربار میں عدلِ جہانگیری کے واسطے دیے گئے کہ خدارا یہ ہندوستانی ڈرامے بند کرائیے۔

یہ گئے تھے اپنی شکایت لگانے لیکن وہاں لینے کے دینے پڑ گئے۔ پروڈیوسرز نے وہاں جو کہانی سنانے کی کوشش کی اس کا لبِ لباب مجھے کچھ یوں سمجھ آیا کہ ان غیر ملکی ڈراموں سے، ہمارے ملک کی روایات اور اقدار مجروح ہو رہی ہیں اور بے حیائی کا اندھا بھینسا، سرحد روندتا، ہماری پاک سرزمین میں گھسا چلا آ رہا ہے۔

ذیلی سرخی یہ بھی تھی کہ اگر چینلز پہ تمام وقت غیر ملکی، ڈرامے نشر کیے جائیں گے تو ہمارے ڈرامے کون خریدے گا

چیف جسٹس نے مبینہ طور پہ انھیں آڑے ہاتھوں لیا کہ، فحاشی اور لغویات تو اپنی نشریات کے ذریعے آ پ بھی پھیلا رہے ہیں۔ خصوصاً مارننگ شوز میں ہونے والی بیہودگیوں کا ذکر کیا۔ شنید ہے کہ پروڈیوسرز اپنا سا منہ لے کے رہ گئے۔

ان باتوں سے قطعاً یہ نہ سمجھیے کہ راقم کو غیر ملکی ڈراموں سے کسی قسم کا شغف ہے یا خدانخواستہ، حب الوطنی ہی کچھ مشکوک ہے۔ بات یہ ہے کہ،پروڈیوسرز اور چینلز کے مالکان، ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ دونوں کو نہ کسی ضابطۂ اخلاق کی پروا ہے اور نہ ہی کسی بھی قسم کی سماج سدھار سوچ ان کی کھوپڑیوں میں جگہ پا سکتی ہے۔

ان سب کا دین، ایمان ایک ہی ہے اور وہ کیا ہے؟ سبھوں کو معلوم ہے۔ انڈین، ترکی اور ایرانی ڈرامے، چونکہ اپنے ملکوں میں نشر ہو چکے ہوتے ہیں، اس لیے ہمارے چینلز ان کو کوڑیوں کے مول اٹھا لاتے ہیں۔

ان ڈراموں کی عوام میں مقبولیت کی بہت سی وجوہات ہیں۔ کم قیمت میں حاصل کیے گئے یہ ڈرامے، چینلز کو بغیر محنت کے بے تحاشا منافع دلاتے ہیں۔ لنڈے کے کپڑوں کی طرح یہ سیکنڈ ہینڈ ڈرامے، اپنے ملکوں کی تہذیب اور ثقافت بھی ساتھ لے کر آتے ہیں۔

شاید میرا اندازہ غلط ہو، لیکن ،’میرا سلطان‘ اور دیگر ترکی ڈراموں کے نشر ہونے کے بعد، پاکستان اور ترکی کے درمیان یک طرفہ سیاحت میں بہت اضافہ ہوا۔ چونکہ یہ تعلق یک طرفہ ہے اس لیے ظاہر ہے قومی لحاظ سے ایک صحت مند تعلق نہیں۔ مگر ایک اسلامی برادر ملک کے ڈراموں سے ہمیں اتنی تکلیف نہیں جس قدر ہندوستانی ڈراموں سے ہے اور کیوں نہ ہو؟

غیر ملکی، پروگرامز کی وجہ سے ہمارے فنکار، ادیب، ڈائریکٹر ، ٹیکنیشن، سب بے روز گار ہو جاتے ہیں لیکن یہ بات چینل کا مالک نہیں سوچتا۔ عین اسی طرح جس طرح پروڈیوسر، چینل کی مرضی پہ ایک سے بڑھ کے ایک غیر اخلاقی اور سطحی ڈرامہ اور پروگرام بنوانے سے نہیں چوکتا۔

پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان کے نجی چینلز پہ ایک خوفناک رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے اور وہ ہے، زندگی کے حقیقی معاملات یا بقول ان کے ،’ایشو بیسڈ ‘ ڈرامے دکھانے کا رجحان۔ یہ رجحان ایک وبا کی طرح پھیل چکا ہے۔ اب ایسا ہے کہ گھبرائے ہوئے کانٹینٹ کوآرڈینیٹر، فون ملاتے ہی پوچھتے ہیں، ’کچھ ایشو بیسڈ ہے؟` جیسے پھوہڑ پڑوسن، ساتھ والی سے شوہر کے اچانک گھر آ جانے پہ سالن مانگتی ہے۔

سپریم کورٹ

’کچھ ایشو بیسڈ ہے‘ کے پھیر میں، چینلز، پروڈیوسرز، لکھنے والے سب ہی آ جاتے ہیں۔ ضابطۂ اخلاق کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں اور، ’کچھ ایشو بیسڈ ‘ لکھتے ہوئے، نہایت غیر ذمہ داری اور بے رحمی سے اصلی واقعات، نام اور کرداراچھالے جاتے ہیں۔ اگر ڈرامے میں اصل نام نہ بھی دیے جائیں تو پریس کانفرنس اور دیگر تشہیری ذرائع میں حلق پھاڑ پھاڑ کر چیخا جاتا ہے کہ یہ فلاں شخص کی کہانی ہے۔

حال ہی میں ایک نجی ٹی وی کی طرف سے ،’زینب کے قاتل‘ کے نام سے ایک ٹیلی فلم کا پوسٹر شائع ہوا، کسی پروڈیوسر ایسوسی ایشن کے کان پہ جوں تک نہ رینگی اور نہ ہی اخلاقیات اور روایات کا ڈھنڈورا پیٹنے والے کسی بھی ادیب یا ادیبہ نے یا شوبز سے منسلک کسی ایک بھی فرد نے اس بات پہ آ واز اٹھائی کہ یہ ضابطۂ اخلاق کے صریح خلاف ہے۔

ناچار زینب کے والد ہی کو ایک بار پھر پریس کانفرنس میں اس دکھ کا اظہار کرنا پڑا کہ میری بچی کے نام سے بلااجازت یہ فلم کیوں بنائی جا رہی ہے؟ تب بھی کسی ایک پروڈیوسر کی طرف سے مذمتی بیان سامنے نہ آیا۔ امین انصاری کا اخلاقی ساتھ دینے کوئی، بغض معاویہ میں بھی نہ اٹھا۔

آج چیف جسٹس صاحب کے سامنے اپنا مقدمہ لے جاتے ہوئے آ پ سب نے ایک لمحے کے لیے بھی ننھی مقتول زینب کے بارے میں سوچا؟ کیا اس کفن فروشی کی روایت کو اپنانے اور زندہ رکھنے کے لیے آپ اور ہم اس ڈرامہ انڈسٹری کی ترقی چاہتے ہیں؟ پیٹ پہ لات پڑی تو آہ نکلی، ان کا سوچیے جن کے دل پہ ہاتھ پڑتا ہے تو آپ واہ کرتے ہیں۔

خدارا! متاثرین کے نام اور حقیقی پتے یوں عام نہ کیجیے اور ان کی اصل کہانیاں، اس بے رحمی سے مت بنایے اور بیچیے۔ چیف جسٹس صاحب، اس بات کا نوٹس لیں یا نہ لیں لیکن اگر آ پ کی حد سے بڑھی ہوئی لالچ اور شہرت کی خواہش کا ازخود نوٹس خدا نے لے لیا تو کیا ہو گا جنابِ اعلی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).