ماں کے لیے بھی ایک ہی دن ہے!


کالم لکھنے کے لیے الفاظ کے چناؤ میں کبھی اتنی مشکل پیش نہیں ہوئی جتنی آج درپیش ہے۔ ایک ایسی ہستی کے بارے میں کالم لکھنا جو میرے۔ آپ کے۔ وجود اور بقا کی ضامن ہے۔ رب العالمین اور رحمت اللعالمین ؐ بھی ماں کے کردار سے متاثر نظر آتے ہیں۔ خدا نے قرآن میں کہا کہ والدین سے اف تک مت کہو، پیغمبرِاعظمؐ نے فرمایا۔ وہ آدمی ذلیل و خوار ہو، رسوا ہو۔ عرض کیا۔ یا رسولؐ کون؟ فرمایا۔ وہ بدنصیب جو ماں باپ کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو بھی بڑھاپے کی حالت میں پائے، پر(ان کی خدمت کر کے اور ان کا دل خوش کر کے)جنت حاصل نہ کرے۔

ایک ایسی ہستی جو اپنا سب کچھ اپنی اولاد کے لیے وقف کر دیتی ہے، اپنی خواہشیں۔ اپنے سکھ۔ اپنا چین آرام۔ حتیٰ کہ جوانی۔ بڑھاپا۔ سب کچھ۔ ماں کی زندگی کا محور و مرکز ہی اولاد ہے، ماں ایک ایسی نوکری سے وابستہ ہے جسے دنیا والے کوئی نوکری تصور ہی نہیں کرتے۔ ”ہاؤس وائف‘‘۔ لیکن اکثر سوچتا ہوں کہ ہمیں تو آف ڈے بھی ملتاہے، کوئی اتوار کا دن ہے اور کبھی کوئی دوسری تعطیل۔ لیکن ماں کے لیے کوئی بھی ”آف‘‘ نہیں ہے۔ ہر روز صبح کا ناشتہ بنتا ہے، ہر روز گھر کے برتن صاف ہوتے ہیں، ہر روز کپڑے دھلتے اور استری ہوتے ہیں۔ گھر میں سارے کپڑے سیٹ کر کے کون رکھتا ہے؟ جہاں گندم محفوظ کی گئی ہے اس گندم کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے ابا جی سے گندم والی گولیاں منگوا کر کون رکھتا ہے؟ سردیاں شرو ع ہونے سے پہلے سرد کپڑوں کو بروقت دھوپ کون لگواتا ہے؟ یہ سب کچھ خود بخود نہیں ہو رہا۔ یہ ترتیب۔ یہ نظم۔ زندگی میں یہ خوبصورتی ماں کی بدولت ہے۔ میں اپنی والدہ محترمہ کو ”ماں جی‘‘ کہتا ہوں۔ صبح جب ڈیوٹی پر جانے کے لئے کمرے سے تیار ہو کر ڈائننگ ٹیبل پر پہنچتا ہوں تو ناشتہ لگ چکا ہوتا ہے۔

دوپہر کو جب واپسی ہوتی ہے تو میری پسند کا کھانا تیار ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان کی زندگی کا مقصد ہی ایک ہے اور وہ ہے مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو خوش دیکھنا۔ اگر کبھی ایسا ہو کہ جو کھانا ماں جی نے بنایا ہے وہ مجھے پسند نہ ہو اور میں ناگواری کا اظہار کروں تو جواب میں آج تک یہ نہیں سنا۔ کہ۔ ”اگر پسند نہیں تو نہ کھاؤ‘‘۔ بلکہ سو جتن کرتی ہیں۔ سبزی پسند نہیں تو بیٹا انڈہ بنا دیتی ہوں۔ روٹی نہیں کھانی تو چاول تیار ہو جاتے ہیں۔ ماں جی سے کبھی آج تک ”نا‘‘ نہیں سنا۔ جب بھی گھر سے نکلتا ہوں تو ایک جملہ ضرور کہتی ہیں ”بیٹا دھیان سے گاڑی چلانا‘‘۔ سوچتا ہوں کہ آخر روز ایک ہی جملے کی ضرورت کیا ہے؟ کیا میں کوئی دودھ پیتا بچہ ہوں جسے اپنا خیال نہیں ہے؟

ان دعاؤں اور جملوں کی اہمیت کیا ہے؟ اس کا اندازہ حضرت موسیٰؑ کے واقعے سے ہوتا ہے۔ موسیٰؑ کوہِ طور پر اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے جاتے تھے۔ اس دوران ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ باری تعالیٰ نے فرمایا ”موسیٰؑ اب ذرا سنبھل کے۔ کیونکہ تیری ماں اب اس دنیا میں نہیں جو تیرے لیے میرے حضور دعائیں کرتی تھی‘‘۔ ماں۔ تجھے سلام۔ لیکن ماں کو اس سب کے بدلے میں کیا ملتا ہے؟ اول تو اولاد دے ہی کیا سکتی ہے؟ مگر پھر بھی۔ اب تو معاشرہ بہت بدل گیا ہے۔ اب تو ہم ماں کے لیے بھی صرف ایک دن مناتے ہیں۔ بلکہ وہ بھی صرف سوشل میڈیا تک۔ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو سوشل میڈیا پر ماں کے ساتھ محبت کے ترانے پڑھ رہے ہیں لیکن ان کی مائیں ان سے ناراض ہیں۔ اب تو نوجوان اتنے مصروف ہیں کہ مان باپ کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ ہسپتال میں بوڑھے بزرگ مریض دیکھتا ہوں تو روح کانپ اٹھتی ہے۔ ان کو صرف ایک عارضہ لاحق ہے۔ تنہائی۔ نظر انداز کیا جانا۔

بہت سے لوگ بزرگوں کا علاج کروانے کے لیے انہیں ہسپتال نہیں لاتے بلکہ داخل کروانے لاتے ہیں تا کہ ان کی اپنی جان چھٹ جائے۔ آرتھووارڈ میں ہاؤس جاب کے دوران رات کے 8 بجے میں ایک بوڑھی مریضہ سے ملا۔ دائیں ٹانگ کی ہڈی فریکچر تھی۔ اس کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ میں نے پوچھا۔ ماں جی آپ کی اولاد نہیں ہے کیا؟ بولیں۔ بیٹا میرے چار بیٹے ہیں لیکن وہ سب اپنے اپنے گھر مصروف ہیں۔ اس کے بعد نہ تو سوال کی ہمت ہوئی اور نہ اس ماں کو دیکھنے کی۔ اس کے گال آنسوؤں سے تر تھے۔ تب مجھے خیال آیا کہ ایک ماں چار بیٹے پال سکتی ہے لیکن چار بیٹے ایک ماں کو نہیں پال سکتے۔

اس مدرز ڈے پر صرف دعوے اور وعدے نہ کریں۔ منائیں۔ ضرور منائیں۔ لیکن محض ایک خاص دن سے باہر نکل کر زندگی بھر ماں باپ کی محبت اور خدمت کا فیصلہ بھی کریں۔ اپنے بزرگوں کو وقت دیں۔ انہیں صرف آپ کے پیسے کی نہیں بلکہ آپ کی ضرورت ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).