کیا مسلمانوں میں صرف جرنیل ہی پیدا ہوئے اہل علم نہیں؟



ذرا سا ذہن پر زور ڈالئے اور یاد کیجئے کہ آپ نے مسلمانوں کے عروج سے متعلق اب تک کیا کیا پڑھا ہے؟۔ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ کو مطالعہ سے تھوڑا بہت بھی شغف ہے تو نسیم حجازی سے لے کر صادق حسین صدیقی تک اور اسلم راہی سے لے کر عارف محمود تک نہ جانے کتنے نام آپ کے ذہن میں دوڑ جائیں گے۔ ان بزرگوں کے خون کو گرما دینے والے ناولوں کی یاد سے ذہن جب واپس آئے تو علامہ اقبال کا کلام اٹھا لیجئے اور مسلمانوں کے عروج سے متعلق مواد پڑھ جائیے۔

اس مطالعے سے دو باتیں واضح ہو جائیں گی۔ اول یہ کہ مسلمان ایک زمانے میں دنیا کی غالب ترین قوم تھے اور دوم یہ کہ مسلمانوں کی ناعاقبت اندیشی نے یہ دن دکھائے کہ وہ سارا جاہ و جلال جاتا رہا۔ اس میں بین السطور یہ کہ مسلمانوں کو اپنی اس عظمت رفتہ کو بحال کرنا چاہئے۔ مسلمانوں کے عروج سے متعلق یہ بیانیہ پوری طرح مسلمان جرنیلوں کی فتوحات کے چاروں طرف گھومتا ہے۔ اس میں ان سپہ سالاروں کے قصے ہیں جنہوں نے بڑے بڑے علاقے فتح کئے۔ علامہ اقبال ان کے دشت تو دشت دریا تک کو بھی روند جانے سے متاثر نظر آتے ہیں جبکہ نسیم حجازی کو ان جرنیلوں کی زرہ بکتر اور چمچاتی تلواریں متوجہ کرتی ہیں۔

مندرجہ بالا تمہید کو ذہن میں رکھ کر اب ذرا آج کل کے حالات پر چلے آئیے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے قائد اعظم یونیورسٹی کے ایک شعبہ کو ابوالفتح عبدالرحمان منصور الخازنی کے نام سے منسوب کرنے کی تجویز منظور کی تو میرے جیسے کم علم گوگل کی طرف بھاگے۔ ادھر کھوجا ادھر دیکھا لیکن کل ملاکر پچیس تیس سطور سے زیادہ جانکاری اس سائنسداں کے بارے میں ہاتھ نہ آ سکی۔

اس مرحلہ پر یہ نہ بھولنا چاہئے کہ منظور قرارداد کے مطابق یہ سائنسداں اپنے عہد کا عظیم اسکالر تھا اور اس نے سائنس کے بعض اہم اصول دریافت کئے۔ بدل بدل کر سرچ کرنے کے بعد بھی جب گوگل زیادہ جانکاری دینے سے معذور نظر آیا تو ذہن میں بے اختیارانہ نسیم حجازی، اسلم راہی، صادق حسین صدیقی اور عارف محمود کی یادوں کے کاررواں چلے آئے۔ ان بزرگوں نے کیسی لگن کے ساتھ مسلمان جرنیلوں کے واقعات کو موٹے موٹے ناولوں کی شکل میں دنیا میں پھیلا دیا۔ یہ اصحاب مسلمان ہیروز کی داستان کہنے کے لئے عمر بھر جان کھپاتے رہے۔ یہ بات دیگر ہے کہ ان کی نظر میں مسلمان ہیروز صرف سپہ سالار اور جنگجو تھے اور انہوں نے ابن سینا، البیرونی، ابن الہیثم، جابر بن حیان، الخوارزمی اور فارابی کو اس لائق نہیں مانا کہ انہیں مسلمان ہیرو مانا جائے یا ان پر کچھ لکھا پڑھا جائے۔

ہو سکتا ہے کوئی کہے کہ نسیم حجازی، اسلم راہی اور صادق حسین صدیقی کی ہی گرفت کیوں؟ اور بھی تو لکھنے والے تھے، مسلم دانشوروں پر انہوں نے کیوں نہیں لکھا؟۔ بالکل درست فرمایا، یہی تو ہمارا سوال ہے کسی نے بھی اسی پیمانے پر ان بزرگوں کے بارے میں کیوں نہیں لکھا؟۔ میرے خیال میں اس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ پہلی تو ہمارا بطور قوم سپہ سالاروں سے بے پناہ پریم اور دوسری سائنس جیسے موضوعات سے ہماری مذہبی اسٹیبلشمنٹ کی چڑ۔

آج بھلے ہی ہم کہہ دیں کہ مسلمانوں میں فلاں فلاں سائنسداں ہوا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اپنے عہد میں ان میں سے زیادہ تر سائنسدانوں کو مذہبی قیادت کے عتاب کا شکار ہونا پڑا۔ جن پر زیادہ زور نہیں چلا انہیں بھی مذہبی اسٹیبلشمنٹ نے کم از کم دھتکارا تو ضرور۔ اس رویے کی اور وجوہات تو جو ہوں سو ہوں ایک وجہہ بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ مذہبی قیادت کا ایک قابل ذکر حصہ سائنس جیسے جدید علوم کو علم کے خانے میں رکھنے پر آمادہ ہی نہیں رہا۔ ان اصحاب کا آج تک یہی اصرار ہے کہ علم تو بس علم دین ہے، عالم کہلانے کا حق صرف علم دین حاصل کرنے والے کو ہے اور دنیاوی علوم دراصل کوئی علم ہیں ہی نہیں۔ جہاں مزاج میں یہ باتیں شامل ہوں وہاں کسی سائنسداں کی کیا پذیرائی ہو سکتی ہے آپ خود سوچ لیجئے۔

مسلمان جرنیلوں اور فاتحین کو رومینٹیسائز کرنے کی لت کا ہی نتیجہ ہے کہ ‘تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں’ یا پھر ‘خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا’ جیسی باتیں ہماری برجستہ گفتگو میں شامل رہی ہیں۔ اس کے برعکس مسلمان سائنسدانوں اور دانشوروں کو رومینٹیسائز کرنا تو دور ہم نے اپنی بحثوں سے ان کے ذکر تک کو دھکے دے کر نکال دیا۔

ذرا تصور کیجئے کہ ہم نے دنیا کے سامنے اپنے ہیروز کے طور پر سپہ سالاروں اور فاتحین کو تو کامیابی سے متعارف کرا بھی دیا اور اس کا نتیجہ بھی دیکھ لیا لیکن آج تک ہمیں یہ یقین دلانا مشکل ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں بھی دوچار بڑے سائنسداں یا اسکالر پیدا ہوئےتھے۔ نسیم حجازی اور اسلم راہی کا ذکر تو خیر میں نے مثال دینے کے لئے کیا ان کے علاوہ بھی ہمارے یہاں کہنہ مشق ادیبوں سے لے کر قلم گھسیٹوں تک کی کوئی کمی نہیں رہی پھر بھی ہمارے مجموعی لٹریچر میں مسلمان دانشوروں، سائنسدانوں اور محققین کا تذکرہ نہ کے برابر ہے۔ جن چند ایک مسلمان اہل علم کے حالات آج انٹرنیٹ وغیرہ پر موجود ہیں وہ معلومات بھی غیر مسلم علم دوست افراد کی کاوشوں کا ثمرہ ہے۔

چلتے چلتے ایک پہلو کی طرف اور اشارہ ضروری ہے۔ مسلمان ہیروز کے پورے ڈسکورس کو سپہ سالاروں تک محدود کرنے کا رجحان بتاتا ہے کہ ہم عسکری فتوحات کو مسلمانوں کے عروج کا معیار مانتے ہیں۔ یہ تصور آج کی دنیا میں غیر معنوی بھی ہے اور مسلمانوں کے صحیح تعارف کی راہ میں رکاوٹ بھی۔ موجودہ متمدن دنیا کے سامنے مسلمانوں کا مضبوط تعارف اس طرح ہی ہو سکتا ہے جب ہم یہ واضح کریں کہ سائنسی تحقیق اور جدید علوم کی ترقی میں ہمارا بھی ایک قابل ذکر حصہ ہے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter