بارش اور کتابیں


گزشتہ روز اسلام آباد میں ہونے والی بارش نے ہمیشہ کی طرح موسم کو نہایت خوش گوار بنا دیا۔ میں صبح آفس کے لیے گھر سے نکلا تو جی چاہا کہ فرو غ کتب کے قومی ادارے ”نیشنل بُک فاﺅنڈیشن” چکر لگا لیا جائے اور کچھ من پسند اور ذوق کو بھاتی کتابیں خرید لی جائیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہفتہ کے روز عام سرکاری دفاتر بند ہوتے ہیں اور جو کھُلتے ہیں اُن کی سویر بھی دیر سے ہوتی ہے۔ میں نے گاڑی کا رُخ اسلام آباد کے سیکٹر جی ایٹ کی طرف موڑا جہاں ”نیشنل بُک فاﺅنڈیشن” کا صدر دفتر قائم ہے۔ تیز بارش نے دل میں کتابوں کے حوالے سے ایک عجب سا رومانوی تاثربیدار کر دیا تھا۔ کتابوں کی کشش کھینچے چلے جا رہی تھی۔ خیر یہاں پہنچے تو سیکیورٹی پر معمور صاحب نے بتایا کہ آج چوں کہ ہفتہ ہے اس لیے یہاں کا کتاب گھر دن گیارہ بجے سے پہلے نہیں کھلے گا۔ ہائے ری قسمت، ابھی دس بجے تھے. فیصلہ یہی ہوا کہ ایک گھنٹہ یہاں رُک کر کتاب گھر کھُلنے کا انتظار کیا جائے۔ میں نے تیز بارش میں گاڑی کا شیشہ اوپر کیا اور مختلف ناشران کی فہرستوں سے کتابیں منتخب کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد دفتر میں آمدورفت شروع ہو گئی۔ ساتھ ہی سیکیورٹی گارڈ نے اشارے سے کتاب گھر کھُلنے کا بتایا۔ انچارج قمر صاحب نے ہمیشہ کی طرح خوبصورت مسکراہٹ اور خوش دلی کے ساتھ میرا ستقبال کیا۔ اب کتابوں کی تلاش کا سلسلہ شروع ہوا۔ گو کہ میری عادت ہے کہ پہلے سے ہی چند کتابوں کی فہرست تیار کر کے گھر سے نکلتا ہوں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ضروری نہیں کہ وہ تمام کتابیں مل جائیں بلکہ اُس فہرست سے زیادہ دیگر ایسی کتابیں پسند آ جاتی ہیں۔ جو فہرست میں تو نہیں ہوتیں لیکن شیلف پر پڑے پہلی نظر میں ہی اپنی جانب کھینچ لیتی ہیں۔ اور کیا! ایسا ہی تو ہوتا ہے، جس سے مرضی پوچھ لیجیے۔ سو جناب اس خوبصورت موسم میں جو کتابیں ہاتھ لگیں ان کا تعارف آپ سے کرواتا چلوں۔

آج کی پہلی تین کتابیں پاکستان کے معروف اشاعتی ادارے “سنگِ میل پبلیکشنز، لاہور” نے شائع کی ہیں. یہ پہلی کتاب دراصل ایک سفر نامہ ہے جو ”ازبکستان: امام بخاریؒ اور امیر تیمور کا دیس” کے عنوان سے ہے اور جس کے مصنف طاہر انور پاشا ہیں۔ طاہر انور پاشا کا تعلق بنیادی طور پر پولیس کے محکمہ سے ہے اور آپ 2008ء میں ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے۔ بچپن میں علامہ اقبالؒ کی شاعری میں ثمرقند اور بخارا کے ذکر نے مصنف کا دل وسط ایشیا میں جا پھنسایا۔ بعد ازاں ازبکستان میں وطنِ عزیز کے سفیر محترم ریاض بخاری صاحب بھی مصنف کے اس سفر کا محرک ثابت ہوئے اور یوں طاہر انور پاشا نے اپریل 2017ء میں ازبکستان کا سفر کیا۔
یہ دوسری کتاب ”دلِ ناداں اور قازقستان” کے عنوان سے ڈاکٹر صلاح الدین حیدر کا لکھا ہوا سفر نامہ ہے۔ ڈاکٹر صلاح الدین حیدر نے بحیثیت استاد، مُلکِ قازقستان کا سفر کیا۔ ڈاکٹر صاحب قازقستان کے شہر ترکستان میں، احمد یسوی قازق یونیورسٹی کی تدریسی ذمہ داریوں کے پیشِ نظرجون 1998ء تا مارچ 2001ء، مقیم رہے۔ تین سال سے زائد کا عرصہ وہاں گزارنے کے بعد واپس وطن آ کر ڈاکٹر صلاح الدین حیدر نے یہ سفر نامہ تحریر کیا۔ اُس زمانہ میں یہ سفرنامہ مرحوم احمد ندیم قاسمی کی زیرِ ادارت شائع ہونے والےمجلہ سہ ماہی ”فنون” میں چھپتا رہا اور مدیر سے داد پاتا رہا۔ اسی وجہ کو پیشِ نظررکھتے ہوئے مصنف نے سفرنامہ کو کتابی صورت میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔


آج کے ذخیرہ کی تیسری کتاب کے مصنف منشی عزیز الدین ہیں اور کتاب کا نام ہے ”تاریخِ چترال”۔ پرانے زمانے کی اس کتاب میں مصنف نے بہت خوبصورت اور دلچسپ انداز میں چترال کا جغرافیہ اور تاریخ بیان کی ہے۔ مصنف انگریزی ملازمت کے سلسلے میں کئی سال چترال میں رہے۔ انہوں نے کتاب کے لیے بنیادی مواد ایک مقامی مورخ مرزا محمد غفران سے حاصل کیا۔ مرزا غفران نے 1893ء میں چترال کی تاریخ پر ایک مختصر کتاب فارسی میں لکھی تھی۔ یہ کتاب انگریزوں کے ہاتھ لگی تو انہوں نے منشی عزیز الدین سے اِس کا اُردو ترجمہ کرایا۔ تاہم مترجم نے نہ صرف بعد کے حالات کا تذکرہ خود لکھا بلکہ اپنے مشاہدات اور تأثرات بھی اس میں شامل کیے۔ اضلاع اور مشہور مقامات کے علاوہ چترال کی زبانیں، لوگوں کے رسوم و عادات، طرزِ حکومت، شاہان چترال اورچترال کے مہتر و دیگر معلومات سے لبریز اس مفید کتاب کے نئے ایڈیشن میں کتابت تو پرانی ہی ہے البتہ صفحات عمدہ معیار کے لگائے گئے ہیں۔

میرے ہاتھ میں یہ ایک کتاب پاکستان میں سری ادب کے بے تاج بادشاہ، ابنِ صفی کے حوالے سے ہے، جس کا عنوان ہے: ”ابنِ صفی، منتخب طنزیہ و مزاحیہ تحریریں”. ہم جانتے ہیں کہ عمران سیریز اور جاسوسی دنیا کے دو سو پنتالیس ناول، فریدی، حمید اور عمران جیسے لافانی کردار اور بہت سے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین تخلیق کر کے ابنِ صفی نے اُردو ادب میں اپنا نام امر کر لیا ہے۔ اس کتاب میں، مرتب محمد فیصل نے ابنِ صفی کے ناولوں سے منتخب طنزیہ و مزاحیہ اقتباسات پیش کیے ہیں جو ابنِ صفی کے ایک “جمہوری ادیب” ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز طنز و مزاح نگار ہونے پر بھی دلالت کرتے ہیں۔ بابائے اُردو مولوی عبدالحق نے ایک بار ابنِ صفی کے بارے میں فرمایا کہ ”اس شخص کا اُردو پر بہت بڑا احسان ہے” اسی طرح فیض احمد فیضؔ نے کہا کہ ”ابنِ صفی کی شہرت کا سن کر میں نے بھی انہیں پڑھنے کا فیصلہ کیا اور پڑھنے کے بعد دلچسپ پایا.” ممتاز افسانہ نگار انتظار حسین نے ابنِ صفی کو اپنے زمانہ طالب علمی کا ”بیسٹ سیلر” قرار دیا تھا۔ نامور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی کہتے ہیں کہ ”مقامِ شکر ہے کہ اب ابنِ صفی مرحوم کا ذکر چھڑا ہے اور انہوں نے اُردو فکشن کو جو آبرو عطا کی ہے، اس کا احساس بیدار ہوا ہے۔”ابنِ صفی کے اس خوبصورت انتخاب کوہمارے اس قومی ادارے ”نیشنل بُک فاﺅنڈیشن” نے ہی شائع کیا ہے۔

اب ذرا آگےبڑھتے ہیں جناب۔ یہ کتاب ”کہاں گئے وہ لوگ” کے عنوان سے ”سعید صورتوں” کا ایک ”یاد نامہ” ہے جس کے مصنف پاکستان کی صحافت میں ایک منفرد نام رکھنے والے عباس اطہر مرحوم ہیں۔ اس کتاب کو پاکستان کے مشہور ترقی پسند ادارے ”جمہوری پبلیکیشنز، لاہور” نے شائع کیا ہے۔ کتاب کا مختصر تعارف مصف کے قلم سے لکھا پڑھ لیجیے: ”اس کتاب میں شامل اکثر کالم میں نے اپنے دوستوں اور بزرگوں کی موت پر لکھے جو اب بھی کبھی کبھی، کسی نہ کسی حوالے سے میری یادوں کے دھندلکے میں سے جگنو بن کر نمو دار ہوتےہیں۔” کتاب کے ناشر، نامور دانشور اور کالم نویس فرخ سہیل گوئندی نے اس کتاب کو ”یادگار لوگوں پر زندہ تحریریں” قرار دیا ہے۔

یہ اگلی کتاب ”نگری نگری” بھی ایک سفرنامہ ہی ہے۔ اس سفرنامہ کے مصنف جاوید محسن ملک، وفاقی نظامت تعلیمات، اسلام آباد میں ڈائریکٹر کے عہدہ پر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ جاوید محسن نے تعلیمی شعبہ سے منسلک رہتے ہوئے برطانیہ، دوبئی، اٹلی، نائیجیریا، مصر، ہالینڈ، تھائی لینڈ، سنگاپور، انڈونیشیا اور سعودی عرب کے علاوہ مشرقی پاکستان اور ہندوستان کا سفر کیا۔ اس کتاب میں مصنف نے اپنے اتنے برسوں پرانے سفر کی روداد قلم بند کی ہے۔ اس کتاب کو ”ثناء پبلیکیشنز، اسلام آباد” نے شائع کیا ہے۔

”پشاور: ماضی کے دریچوں سے” کے عنوان سے یہ کتاب محمد ابراہیم ضیاءؔ کی مرتب کردہ ہے۔ اس کتاب میں پشاور کے مختلف ادوار کی تاریخ اور جغرافیہ بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس کتاب میں پشاور کی بھُولی بسری باتوں کو عمدہ انداز میں یاد دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب بےشمار تاریخی تصاویر پر بھی مشتمل ہے۔

میری آج کی یہ آخری کتاب ”جہانگیر بُکس، لاہور” کی شائع کردہ ہے اور بچوں کے لیے ہے۔ زندگی سنوارنے والی، دلچسپ و سبق آموز کہانیوں پر مشتمل اس کتاب کا نام ”آسان کہانیاں” رکھا گیا ہے اور اسے ڈاکٹر عبد الرﺅف نے مرتب کیا ہے۔ ڈاکٹر عبد الرﺅف نے لندن یونیورسٹی سے بچوں کی نفسیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ نے بچوں، والدین اور اساتذہ کے لیے آسان، دلچسپ اور تعمیری ادب کی تخلیق میں خاصا نام پیدا کیا۔ ڈاکٹر عبد الرﺅف امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ پاکستان میں کلیدی عہدوں پر خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ تصویری خاکوں کے ساتھ شائع ہونے والی اس کتاب میں شامل کہانیاں دراصل قدیم یونانی کہانیوں “Aesop’s Fables” سے ماخوذ کی گئی ہیں۔ یہ کہانیاں لکھنے کا سہرا 620 ق م سے 520 ق م کے دوران قدیم یونان میں رہنے والے ایک غلام ”ایسوپ” کو جاتا ہے۔ ایسوپ یونان کا مشہور و معروف قصہ گو تھا جس کی حکایتیں اتنی مقبول ہوئیں کہ صدیوں تک زبان زد عام رہیں۔ اس کے صحیح حالات کا تو علم نہیں البتہ یونانی مورخ ہیروڈوٹس نے لکھا ہے کہ وہ بچپن میں کسی کا غلام تھا۔ آزاد ہونے پر لیڈیا (Lydia) اور یونان کا سفر کیا اور اسی سفر کے دوران اُس نے دلچسپ اور سبق آموز کہانیاں لکھیں۔ بعض محققین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ یونان کا ایسوپ اور مشرق کا حکیم لقمان ایک ہی شخص تھے۔ دلچسپ اور سبق آموز کہانیوں پر مشتمل ایسی کتابیں چھوٹے بچوں کی اخلاقی اور ذہنی نشوونما کے لیےبہت مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔

یہ سب کتابیں ہاتھ میں تھامے جب میں ”نیشنل بُک فاﺅنڈیشن” کے کتاب گھر سے باہر نکلا تو سورج اپنی آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا. ظاہر ہے بارش کب کی تھم چکی تھی. اس سب میں رومانوی فضا دوبارہ تب پیدا ہوئی جب رات کو یہ مضمون لکھتے ہوئے موسم نے پھر سے انگڑائی لینی شروع کی اور بادل خوب برسے. بلاشبہ بارش اور کتابیں مل کر انسان کے اندر اور باہر کے ماحول کو خوش گوار بنا دیتی ہیں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).