ہیپی مدرز ڈے


عدنان خان کاکڑ کا میسج آیا کہ مدرز ڈے پر کچھ لکھیے۔
مدرز ڈے پر کیا کچھ لکھوں!

زندگی اور زندگی کا تجربہ، ایک لکھنے والے کو (چاہے وہ مرد ہو یا عورت) کس طرح ایک ماں کا دل عطا کرتا ہے! اور ماں کا دل حاصل کرنے کے بعد کس طرح ایک محدود نظریاتی انسان، انسانیت کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے!

کس طرح ماں کا دل عطا ہونے کے بعد ایک لکھنے والا آفاقیت کی وسعتوں میں پرواز کرتا ہے اور خدا کے حضور خود کو محسوس کرتا ہے اور اس خوف سے لرزتا ہے کہ انجانے میں اس کے الفاظ کا شکار کوئی مظلوم نہ ہوجائے!
(پھر چاہے وہ مظلوم کوئی فرد ہو یا اجتماعی طور پر انسانوں کا یا کسی قوم کا ہجوم! آج کل کے آسان لفظوں میں، کہ سندھی ہو یا اردو، پنجابی ہو یا بلوچ، سرائیکی ہو یا پختون!)

اور یہ فرمان کہ اب نہ عربی کو عجمی پر فوقیت ہے اور نہ عجمی کو عربی پر۔ جب دل ماں کا دل بن جائے تو یہ فرمان بھی اپنی گہرائی کے ساتھ سمجھ میں آتا ہے کہ عربی اور عجمی کی تفریق کے بیچ کس طرح انسانی نسلوں کے خون کا دریا آگ کا دریا بنتا ہے اور اس میں گوشت پوست کے انسان کس طرح خاک و راکھ ہوتے ہیں!
خود انسانی نسلوں کی بقاء اور ان کے بنیادی حقوق سمجھنے کے لیے بھی ماں کا دل چاہیے، مرد کے سینے میں بھی اور عورت کے سینے میں بھی۔

انسانی نسل کیا ہوتی ہے اور اس کی بقا کیا ہوتی ہے! یہ سمجھنے کے لیے صرف شام و یمن یا روہنگیا مسلمانوں کی تصاویر ہی کافی نہیں ہوتیں بلکہ انسانی نسلوں کی تباہی کا کرب جھیلنے کے لیے ماں کا وہ دل چاہیے ہوتا ہے، جسے پتہ ہو کہ ماؤں کی کوکھ کیا چیز ہوتی ہے اور وہ کوکھ نو مہینے کس کس اضطراب سے گزرتی ہے اور دردِ زہ (بچہ جننے کی تکلیف) کیا ہوتا ہے اور مائیں کیسے لمحہ لمحہ خون پسینہ بلو بلو کر بچے پالتی ہیں اور کن خوابوں اور حسرتوں کا سہارا لے کر انہیں جوانی کی طرف لے کر چلتی ہیں اور خود میری طرح خوشی خوشی بڑھاپے کے دروازے پر کھڑے ہوکر سوچتی ہیں کہ اللہ سب کے بچوں کو سلامت رکھے۔ شالا اوکھی گھڑی دشمن کے بچوں پر بھی نہ آئے۔ سب ماؤں کی گود بھری رہے۔ سب ماؤں کی کوکھ ہری رہے۔
بڑھاپے کی دہلیز پر آ بیٹھی ہوں تو اماں کی کہی ہوئی باتیں یاد آیا کرتی ہیں۔

اماں اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے بتاتی تھیں کہ ان کے بڑوں نے ایک حبشی غلام عورت غلام من بھر اناج کی قیمت پر خریدی تھی۔
یہ اس زمانے کی بات ہوئی جب افریقہ سے سیاہ رنگ انسانوں کو جہازوں میں بھر کر ساحلوں پر غلاموں کی صورت فروخت کیا جاتا تھا۔

اماں کے بچپن میں وہ عورت بوڑھی ہوچکی تھی اور سندھی بولتی تھی۔ ناک میں پڑی نکیل اس نے کبھی بھی نہ نکالی۔ اماں بتاتی تھیں کہ وہ ایک اونچی آہ بھر کر آسمان کی طرف دیکھ کر کہتی۔ بچا ظالم کے ظلم سے اور حاکم کے ناگہانی حکم سے۔

اماں کہتی تھیں کہ ہمارا بچپن تھا اس لیے سمجھ نہیں آتا تھا کہ سلاماں کے الفاظ کے معنی کیا ہیں! یہاں بھلا کونسا ظالم آئے گا اور کونسا حاکم آئے گا!
اماں کو سلاماں کے الفاظ دوبارہ تب یاد آئے جب ضیاء کا دور مسلط ہوا۔ ایم آر ڈی کی تحریک چلی۔ ہمارے خاندان کے بھی کچھ افراد پر آمریت کا عتاب نازل ہوا اور خوف کا عفریت سندھ بھر میں سرسراتا پھرتا تھا کہ اِدھر کسی کی بھی گردن احتجاج کے ساتھ اُٹھی، اُدھر جیل اور کوڑے اس کا مقدر بنے۔

ان دنوں اماں بھی اپنے نماز پڑھنے کے تخت پر بیٹھے ہوئے، دونوں ہاتھ اٹھا کر اونچی آواز میں کہا کرتیں۔ بچا ظالم کے ظلم سے اور حاکم کے ناگہانی حکم سے۔
وہ خود بھی کہتی تھیں کہ مجھے سلاماں کے الفاظ اب سمجھ میں آئے ہیں کہ ظالم کا ظلم کیا ہوتا ہے اور حاکم کا ناگہانی حکم کیا ہوتا ہے!
اماں کے بعد۔
اب میں نماز پڑھنے کے بعد بے اختیار کہہ اٹھتی ہوں کہ میرے بچوں کو بھی اور زمانے بھر کے بچوں کو بھی، بچا ظالم کے ظلم سے اور حاکم کے ناگہانی حکم سے۔

مسنگ پرسنس کا معاملہ دیکھتی ہوں تو بھی میرے سینے میں رکھا ماں کا دل کبھی سندھی میں، کبھی اردو میں، کبھی پشتو میں، کبھی بلوچی میں اسٹیبلشمنٹ سے شکوے کرنا شروع کردیتا ہے کہ یارا! یہ اپنے ہی بچے ہیں۔ ناراض ہیں۔ انہیں مناؤ۔ انہیں پیار کی جھپی پاؤ۔ ان کے زخم دھو۔ مرہم رکھو۔ ان کے دکھ کا مداوا کرو۔ یارا! ملک اس کے باسیوں کے لیے ہوتا ہے۔ نظریہ وظریہ کچھ نہیں۔ انسان اصل چیز ہے۔ انسان کی عزت کی زندگی اس کا اصل حق ہے۔ تلاشی بھی لو مگر پیار سے۔ عزت سے۔ ان کا عزتِ نفس مجروح نہ کرو۔ وہ ملک کیسے عزت والا ہوگا یارا! جس کے اندر اس کے باسی عزت والے نہ ہوں گے! یہ ساری بولیاں بولنے والے نوجوان اور بچے اور بوڑھے اس ستر سالہ ملک کے وارث ہیں۔ یہ ملک ازل سے نہیں تھا یارا! یہ ملک ان کے اور ان کے والدین کے ہاتھوں میں بنا ہے۔ یہ سب ہیں تو یہ ملک ہے۔ یہ سب نہیں تو کونسا ملک یارا! لاشوں پر منڈلاتے گِدھ نہیں ملک بساتے۔ زندہ انسان بساتے ہیں ملکوں کو۔

پر میرے دل کا معاملہ یہیں نہیں تھمتا۔ دھشت گردی سے لڑتے پاک فوج کے جوانوں کی میتیں پاکستان کے پرچم میں لپٹی ہوئی دیکھتی ہوں اور ان کی نئی نویلی دلہنوں اور بوڑھی ماؤں کو ان کی میت پر اس یقین کے ساتھ صبر بھرے آنسو بہاتے دیکھتی ہوں کہ شہید مرتا نہیں، یا پولیس کے کسی سپاہی کی لہولہان لاش کو لاوارث کی طرح بیچ سڑک پر پڑا دیکھتی ہوں تو بچپن کی یادوں کی تہوں سے میڈم نوجہاں کی آواز میرے دل میں سوز بھرنے لگتی ہے کہ۔ اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے۔ نہیں نہیں یہ ماؤں نے اس لیے نہیں جنے تھے۔ یہ نئی نئی وردی پہن کر ماؤں کے پاس موت کی دعا لینے نہیں آئے تھے۔ میرے سینے میں رکھے ایک عام سے دل کو ایک ماں کا دل اسی دھشت گردی نے بنایا۔ سڑکوں پر پڑی لہولہان لاشیں اور حوروں کا متلاشی خود کش بمبار! یہ سب ماؤں نے اس لیے نہیں جنے تھے۔ مائیں جب گود بھر کر لوری دے رہی ہوتی ہیں تو دور دور تک یہ خیال بھی نہیں ہوتا۔ بقول ٹیگور کے کہ جب ایک بچہ دنیا میں آتا ہے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ خدا ابھی مایوس نہیں ہوا۔ خدا نے ماں کا دل بھی اس مایوسی سے بچا کر رکھا ہے۔

فیض آباد چوک پر بپھرے نوجوانوں کو دیکھ کر اور ممتاز قادری کے چہلم پر فضا میں پرواز کرتے ہیلی کاپٹر کی جانب جوتے پھینکتے نوجوانوں کو دیکھ کر اور عشق پیغمبر میں بیقرار نوجوانوں کے بے لوث عشق کو دیکھ کر ایک ایسی ماں کا سا دل بن جاتا ہے میرا دل، جو اپنے اچھے اور برے، صالح اور بگڑے بچے کو منصف نگاہ سے دیکھتے ہوئے سوچتی ہے کہ ان بچوں کو کیا دیا ہے ہم نے! جتنے خزانے لوٹ کے مال کی طرح ریاست و سیاست کی نذر ہوئے ان کا کچھ حصّہ اس ملک کی نسلوں کی تعلیم پر گر خرچ ہوجاتا! ریاست و سیاست نے جس طرح اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اس طرح غریب عوام کے بچوں کو بھی گر دلوائی ہوتی! اپنے بچوں کو سائنس و ریاضی اور انگریزی پڑھائی۔ انہیں یا تو پڑھایا نہیں۔ تھوڑا بہت اگر پڑھنے کو دیا تو جھوٹی من گھڑت تاریخ۔ مغلوں کی شہنشاہی اور سونے کے مندروں کی لوٹ مار! وہ بھی اسلام کے نام پر!

کافر کافر کا سبق پڑھنے کے لیے کم علموں کے حوالے کردیا جنہیں اسلام کے نام پر اپنے ہاتھوں اور پیروں کو سجدوں کی صورت بوسے دلوانا مقصود ہے! جو انہیں حور و بہشت تو بتاتے ہیں پر یہ فرمان نہیں کہ والدین کو اُف بھی نہ کہو۔ ان پر اس طرح رحم کرو جس طرح وہ تمہارے بچپن میں تم پر کرتے تھے۔ ضعیف والدین آواز دیں تو نماز تک توڑ دو۔ ماں کی اجازت کے بغیر جہاد پر بھی نہ جاؤ۔ ماں حیات نہ ہو تو اس کی بہن کی ماں کی طرح خدمت کرو۔ رحم کرو۔ اللہ رحم کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اسی رحمدلی کے ساتھ غریبوں، مسکینوں، غلاموں، والدین، یتیموں، قیدیوں، پڑوسیوں تک کا حق ادا کرنے کی تلقین میں کہیں بھی نہیں کہا کہ اگر وہ مسلمان ہو تو حق ادا کرو ورنہ کافر کہہ کر زندگی چھین لو اس سے۔ کاش کہ الفاظ کا جادو جگانے کے بجائے ان بچوں کو سیرت النبیﷺ ہی پڑھا دی ہوتی۔ پھر پتہ چلتا کہ عشقِ رسولﷺ کیا چیز ہے! عاشق عشقِ رسولﷺ میں کس طرح اپنی مٹھی بھر خاک میں خاک ہوتا رہتا ہے!

شاہ عبدالطیف بھٹائی کا ایک بیت ہے۔
سائیں سدا رکھ سندھ کو سرسبز و شاداب۔ دوست میرے دلدار۔ سارے جہاں کو شاد و آباد رکھ۔

سندھ میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا بیت ہے اور اس کی آفاقیت کی کئی طرح سے تشریح کی گئی ہے مگر اب جب زندگی کا ایک مکمل باب گزار چکنے کے بعد اپنے سینے میں صرف ایک ماں کا دل رکھا ہوا دیکھتی ہوں تو جان پاتی ہوں کہ اپنی دھرتی کے ساتھ تمام جہان کے شاد و آباد رکھنے کی دعا کیا ہوتی ہے!
چند ہی دن قبل جب سندھی مہاجر کشمکش کی چنگاریوں کو آگ کا الاؤ بنانے کی کوشش کی جارہی تھی(اب بھی کوشش جاری ہے) تو ماں کا دل بن چکا میرا دل پانی کے ذرا ذرا سے چھینٹے اٹھائے آگ کے اس الاؤ کو بجھانے کی کوشش میں الجھا رہا۔

کبھی اپنے ہم زبان سندھی بولنے والوں کو کہتی پھری کہ تمہارے یہ نسل در نسل صوفی نوجوان، سندھی مہاجر بلوے کے دوزخ میں جھونکنے کے لیے نہیں ہیں۔ اٹھو پہلے کی طرح ایک بار پھر پیار کی جھپی کے لیے بازو پھیلاؤ اور سینے کشادہ کرو۔

کبھی اردو بولنے والوں کو کہتی پھری کہ سندھ دھرتی تمہاری بھی ماں ہے۔ اسی دھرتی میں ہمارے والدین دفن ہیں اور اسی دھرتی میں ہمیں دفن ہونا ہے۔ اللہ تمہاری بھی نسلیں سلامت رکھے اور دوبارہ تم بلوا اور بٹوارا نہ دیکھو۔

میرے سینے میں رکھا یہ ماں کا دل جس طرح اپنے بچوں کے لیے دھڑکتا رہا ہے اب ان بچوں کے لیے بھی عین اسی طرح دھڑکتا ہے جو اپنے نامکمل خوابوں کی تمنا میں کبھی عمران خان کے پیچھے دوڑے پھرتے ہیں، کبھی میاں نواز شریف اور مریم کے پیچھے۔ کبھی بھٹو بینظیر کے صدقے زرداری کے پیچھے تو کبھی پاکستان کی محبت میں وردی والوں کے پیچھے تو کبھی 24 سالہ منظور پشتین کی صورت اپنی قوم کے لیے عزت بھری زندگی کی صورت۔

اللہ سب کو سلامت رکھے۔ شاد و آباد رکھے۔ بس کسی طرح سکھ شانتی کے دن آجائیں۔ نفرتوں کی آگ بجھے۔ سب کے چولہوں پر روٹی پکے سب کے گھر دیے جلیں۔ سب اس ملک میں باعزت زندگی گزاریں۔

اللہ سب کو ظالم کے ظلم اور حاکم کے ناگہانی حکم سے بچائے۔
ہیپی مدرز ڈے

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah