حال احوال کو بازیاب کرو


ایک سروے کے مطابق لاہور کی اکثر آبادی کو بلوچستان کے دو شہروں کے نام بھی نہیں آتے اگر معجزانہ طورپر کسی کسی کو آ بھی گئے تو کوئٹہ اور گوادر تک دی اینڈ ہو جاتا ہے۔

اس کا نقصان یہ ہوا کہ ایک ملک کے دو صوبوں میں اتنا فاصلہ پیدا ہو گیا کہ آج تک پنجاب کے لوگوں کو یہ پتہ نہ چل سکا کہ بلوچی نام کی کوئی قوم ہے ہی نہیں، اور فائدہ انسانی اسمگلروں کو یہ ہوا کہ عام پنجابی مزدورں کو یہ دھوکہ دے کر جان و مال سے لوٹا گیا کہ بلوچستان سے آگے یورپ ہے۔

چونکہ ہمارے میڈیا کا گزر بسر تو ٹھیکوں پر ہوتا ہے اور بلوچستان میں کوئی ایسی کمپنی نہیں جو رنگ گورا کرے یا گدھوں اور کتوں کا گوشت پیک کرے اسی لیے بلوچستان میڈیا کی اسکرین سے لاپتہ ہی رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ “لاپتہ” اور “بازیاب کرو” کے الفاظ اب تو بلوچستان کے ساتھ لازم و ملزوم بن چکے ہیں۔

بلوچستان دنیا کا وہ خطہ بن چکا ہے جہاں ہر بدلتی تاریخ کے ساتھ دن تو بدل جاتے ہیں مگر مطالبات تقریباً وہی ہوتے ہیں جو صدیوں سے ہیں۔

پرتگیزیوں سے حمل جیئند کے اغوا سے لے کر عطا محمد کی بکری کی گمشدگی تک یہی الفاظ کبھی مسکراہٹ کے ساتھ تو کبھی اشک بھر آئی کے ساتھ سُنّنے، پڑھنے اور دیکھنے کو ہر دن ضرور ملتے رہتے ہیں۔

پچھلے دو ہفتوں سے یہ الفاظ بلوچستان سے آن لائن نیوز سائٹ حال حوال کے متعلق سُنّنے کو آ رہے ہیں جو قارئین کی اسکرینوں سے لاپتہ ہے اور کسی کو کچھ خبر نہیں کہ کیوں؟

حال احوال نے 3 مئی یوم آزادی اظہار کو اپنا دوسرا جنم دن منایا تھا اور بلوچستان سے متعلق بلاگز اور خبروں کے لیے وہ کام کر رہا تھا جسے آسانی سے ایک عام طالبعلم لاہور میں بیٹھ کر پڑھ رہا تھا اور وہ سب سیکھنے کی کوشش کررہا تھا جو ستر سالوں میں اسے نہیں بتایا گیا۔

خبر کی جگہ اخبار ، ٹی وی اور ریڈیو پر ہے لیکن وہاں اگر خبر کے پہنچنے پر پابندی ہو تو دیواروں یا مساجد کے غسل خانوں تک تو خبر کیسے بھی کر کے پہنچ ہی جاتی ہے۔

جب اظہار رائے کو تہذیب کی پوشاک میں خوشنما الفاظ کے گلدستے میں کسی ایک صحافتی میڈیم سے نکلنے کی بلا وجہ اجازت نہ ہو گی تو علم کی ناقدری، گندے اور نازیبا الفاظ کا گلہ شکوہ کس سے کیا جا سکتا ہے؟

حال حوال بلوچستان کے ستر سالہ قومی میڈیا کی گمشدگی کے رٹّا لگائے ہوئے شکوے کو کم کرنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ اسے بھی گمشدگی کی فہرست میں ڈال دیا گیا۔

حال حوال بلوچستان کی ثقافت اور روایت کا وہ قدیم ترین حصہ ہے جس وقت شاید کاغذ اور قلم بھی ایجاد نہ ہوئے ہوں۔ اس صحافتی طریقہ کار کو شاید انٹرنیٹ سے ہٹایا جا سکے مگر کوچہ صحافت سے کیسے الگ کیا جائے گا؟

جب جب دو لوگ آپس میں ملیں گے، جب تک گھروں میں مہمان آتے رہیں گے، جب تک زبان سے الفاظ نکلیں گے اور اشاروں کا استعمال ہوگا تب تک حال حوال زندہ رہے گا.

حال حوال کو پڑھو، اس کے لیے لکھو، کھل کے لکھو اسی فورم پر آ کر اس کا استعمال کر کے اس پر تنقید کرو مگر اسے گمشدہ کر کے بدبودار الفاظ کو گندگی کے ڈھیر پر پھلنے کی اور پرورش پانے کی وجہ مت بنو۔

لفظوں کو آزاد کرو

بلوچستان کی آواز کو آگے تک پہنچاؤ،

پڑھو، لکھو

لوگوں میں فاصلوں کو مٹاؤ

حال حوال کو بازیاب کرو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).