الیکٹیبلز کا رویہ بروقت انتخابات کی علامت


جنوبی پنجاب کے بعد اب وسطی پنجاب سے بھی قدآور Electablesنے بنی گالہ میں عمران خان صاحب کے روبرو سرجھکا کر اپنے گلے میں تحریک انصاف کی پہچان ہوا سکارف نما دوپٹہ ڈلوانا شروع کردیا ہے۔اُمید ہے کہ 31مئی کے روز موجودہ حکومتوں کی تحلیل کے بعد ایسے ہی مزید کئی لوگ غول کی صورت نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کا ساتھ چھوڑنا شروع ہوجائیں گے۔

سائبیریا سے رزق اور پناہ کی تلاش میں اڑ کر مسلسل ٹھکانے بدلتے پرندوں کی جبلت رکھنے والے Electablesکا یہ رویہ خبر دیتا ہے کہ آئندہ انتخابات بروقت ہوجائیں گے۔ کسی نہ کسی بہانے انہیں سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے مو¿خر کروانے سے باز رہا جائے گا۔ سوال اب مجھ ایسے سطحی ذہن والے رپورٹر کے ذہن میں صرف ایک رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں عمران خان اور ان کی جماعت کو نواز شریف کو 1997میں ملا ”ہیوی مینڈیٹ“ نصیب ہوگا یا صورت حال 1988یا 1993جیسی ہوگی جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو وزارتِ عظمیٰ تو مل گئی تھی لیکن آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں اپنا وزیر اعلیٰ نامزد کرنے کی سہولت نہ مل پائی۔

پنجاب پر کنٹرول کے بغیر اسلام آباد سے حکومت چلانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ خیبرپختونخواہ،سندھ اور بلوچستان میں ”اپنی حکومتیں“ بھی اس ضمن میں کام نہیں آتیں۔ تحریک انصاف کو لہٰذاپنجاب پر مزید توجہ دینا ہوگی۔ شہباز شریف کو سانحہ ماڈل ٹاﺅن کا حساب دینے پر مجبور کرنا ہوگا۔ احتساب بیورو کو احد چیمہ کے علاوہ بھی چند بیوروکریٹ گرفتار کرنا ہوں گے۔

نواز شریف کے لئے بھی پانامہ کافی ثابت نہیں ہورہا۔ انہیں ”مودی کا یار“ ثابت کرنا ہوگا۔ قومی سلامتی کو خطرہ بناکر دکھانا ہوگا۔ 1990کی انتخابی مہم کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کے بارے میں بھی ایسا ہی تاثر پھیلایا گیا تھا۔ اصغر خان کیس کی بدولت منکشف ہوئے چند قدآور نام میڈیا کے ذریعے یہ ”قومی فریضہ“ سرانجام دے رہے تھے۔

اب کی بار البتہ 24/7چینلوں کو Manageکرنا ہوگا۔ حق وصداقت کے علمبردار بنے اینکر خواتین وحضرات کو خریدنا مگر مشکل ہے۔ تنخواہیں ان کی معقول ہیں۔ وطن کی محبت میں سرشار ہوئے ”حاضر حاضر لہوہمارا“ پکارتے رہتے ہیں۔ ٹی وی سکرینوں کی اکثریت IK-Friendlyہے۔ 2014کے طویل دھرنے کے دوران 120دنوں تک ہمارے چینلوں نے اپنے ریگولر پروگراموں کو خان صاحب کی Liveتقاریر کے لئے کٹ کیا تھا۔لاکھوں کے اشتہار ان کے دھرنے کی براہِ راست کوریج کے لئے قربان کئے تھے۔ انتخابی مہم کے دوران بھی ان کا رویہ تحریک انصاف کے لئے دوستانہ ہی رہے گا۔

فکر البتہ مجھے یہ کھائے جارہی ہے کہ دنیا بھر میں ٹیلی وژن اب کسی سیاست دان کو بادشاہ بنانے کے قابل نہیں رہا۔ 1960کی دہائی میں کنیڈی ٹی وی پر کرشماتی نظر آنے کی وجہ سے آئرلینڈ سے آئے پروٹسٹنٹ خاندان کا فرد ہوتے ہوئے بھی امریکی صدر بن گیا تھا۔ ٹی وی کا Make or Breakوالا Holdکلنٹن کے دور تک برقرار رہا۔ اس کے بعد مگر اوبامہ آگیا جس نے SMSکی سہولت کو Grass Rootsمہم کے لئے استعمال کرنے کا ہنردریافت کیا۔ ٹرمپ نے Twitterپر توجہ دی اور Foxٹی وی کے علاوہ تمام چینلوں کے جائزوں کو غلط ثابت کردیا۔

اٹلی میں نوجوانوں کی ایک جماعت حال ہی میں 32فی صد ووٹ لے کر حکومت بنانے کے قابل ہوئی ہے۔ Five Star Movementاس کا نام ہے۔ اس سے وابستہ لوگ اپنے ہاں کے ٹی وی چینلوں پر رونما ہی نہیں ہوتے تھے۔ ان کا بہت سوچ سمجھ کر خود اعتماد رعونت سے بائیکاٹ کیا۔ سوشل میڈیا پر توجہ دی۔ اٹلی کے جنوب میں موجود خطوں کی غربت اور بدحالی کو کارنرمیٹنگوں سے خطاب کے ذریعے اجاگر کیا۔

آرمینیا میں بھی حال ہی میں ایک نسبتاََ نوجوان سیاست دان نے محض گاندھی مارکہ Street Activismکے ذریعے حکومت کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا ہے۔ وہ جماعت جس نے اسلام آباد کو راولپنڈی سے 22دنوں تک کاٹے رکھا ہمارے مین سٹریم چینلوں پر نظر نہیں آتی تھی۔ اس کا پیغام مگر جوتوں اور سیاہی اُچھالنے سے بڑھ کر اب گولی کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ اٹک کے اس پار سے بھی ایک تحریک اُٹھی ہے۔ مجھ ایسے ذمہ دار صحافی اس کا ذکر نہیں کرتے۔ اپنا وجود مگر وہ منوارہی ہے۔

دورِ حاضر کی سیاست کو اگرPost-TVسیاست کہا جائے تو Electablesکی جوق درجوق تحریک انصاف میں شمولیت اور ہمارے ٹی وی چینلوں کا عمران دوست رویہ اس دعویٰ کی بنیاد نہیں ہونا چاہیے کہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں کپتان کو تقریباََWalk-Overمل جائے گا۔ شاید اسی حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے 5th Generationجنگ کے تقاضوں کو دیدہ ور کی حیثیت میں سمجھنے والے قبلہ زاہد زمان حامد جیسے لوگ اپنے ٹویٹس کے ذریعے مسلسل خبردار کررہے ہیں کہ 2018میں بروقت انتخابات کروا دئیے گئے تو نتائج (میرے منہ میں خاک)1971جیسے بھی ہوسکتے ہیں۔

تحریک انصاف کے اسد عمر کے والد ان دنوں ہماری نظریاتی سرحدوں کے اہم ترین نگہبانوں میں سے ایک تھے۔ ان کے ادارے نے بہت تحقیق کے بعد جنرل یحییٰ کو یقین دلایا تھا کہ انتخابات میں کوئی ایک جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی۔

1970کے انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے جنرل یحییٰ نے ایک لیگل فریم ورک آرڈر(LFO)لاگو کیا تھا۔ اس حکم کے تحت 1970کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسمبلی کے لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے پہلے اجلاس کے دن سے 120دنوں کے اندر اس ملک کو آئین فراہم کرے۔ میجر جنرل عمر کو یقین تھا کہ اس محدود مدت میں اپنی اناﺅں کے اسیر ہوئے سیاستدان آئین تیار نہیںکر پائیں گے۔

اس Contingencyکو ذہن میں رکھتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے ایک بہت ہی معتبر گردانے جج صاحب سے ایک ”آئین“ بھی لکھوالیا گیا تھا۔ وہ جج بذاتِ خود غیر مسلم تھے مگر ان کے تیارشدہ آئین کی ایک کاپی جنرل یحییٰ نے جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل کو ایوانِ صدر مدعو کرکے دکھائی اور میاں صاحب نے اس آئین کے ”عین اسلامی“ ہونے کا اعلان کردیا۔ ہماری بدقسمتی کہ جنرل یحییٰ کو یہ آئین نافذکرنے کی مہلت نہ ملی۔ پاکستان ہی دولخت ہوگیا۔

میری ناقص رائے میں حالات اب 1970جیسے نہیں۔ ہمارے ہاں آئین کی موثر بالادستی قائم ہوچکی ہے۔ اس کے آرٹیکل 62-Fنے حال ہی میں کئی جلوے دکھائے ہیں۔ 184(3)بھی ہے جس نے چیف جسٹس صاحب کو ہسپتالوں اور قید خانوں میں جاکر ذلتوں کے مارے بے وسیلہ افراد کی معاونت کے راستے دکھائے ہیں۔ انتخابات لہذا بروقت کروادینے میں کوئی حرج نہیں۔

عمران خان صاحب دو تہائی اکثریت کے ساتھ بھی وزیر اعظم بن گئے تو کون سی قیامت آجائے گی۔ 1997میں نواز شریف صاحب کو بھی تو ایسی ہی اکثریت ملی تھی۔ ”مل بھی گیا تو پھر کیا ہوگا“ منیرنیازی نے کہا تھا کیونکہ ”لاکھوں ملتے دیکھے ہیں“ اور ”پھول بھی کھلتے دیکھے ہیں“۔ حقیقت تو وہی رہے گی جو صوفی تبسم نے بیان کی تھی:”دُنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی“۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).