انسانی تاریخ کے ابتدائی د ور میں عقید ے کی یہ سختی نہیں تھی


مذہبی انتہا پسندی کا سادہ سا مفہوم ہے کہ عقیدے کی بنیاد پر انسانوں کی برتری اور کمتری کا تعین کرنا اور اسی عقیدے کی رو سے ان سے سلوک کرنا۔ یہ ایک طرح سے انتہا پسندی کی سب سے خطرناک قسم ہے۔ کیونکہ انسانی تاریخ میں لوگ سب سے زیادہ اسی وجہ سے غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنے ہیں۔ یہ تمام انسانوں کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے عقیدے کو برحق سمجھیں لیکن کسی کے عقیدے کو بزور طاقت تبدیل کرنا غلط ہے۔ عقیدے کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق کرنا اور اپنے عقائد کو بزور طاقت دوسروں پر مسلط کرنا مذہبی انتہا پسندی ہے۔

تاریخ میں مذہبی جنونیت اور اپنے عقیدے کی سچائی پر مکمل ایمان معاشروں میں رہا ہے۔ اور اسی وجہ سے مومن و کافر، موحد اور مشرک کے درمیان تقسیم کو جائز قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ایک دفعہ اگر کسی کو اپنے عقیدے کی سچائی پر اندھا یقین آجاتا ہے تو وہ اس صورت میں دوسرے لوگوں کو گمراہ اور فاسق سمجھتا ہے اور انہیں سماجی و ثقافتی طور پر اپنے دائرے سے نکال کر دور کر دیتا ہے۔ اس طرح اس کی نگاہ میں ان لوگوں کا درجہ بحثیت انسان کے بھی گھٹ جاتا ہے۔ اس لیے ایک طرف اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ انہیں تبلیغ کے لیے ذریعے یا تشدد کے ذریعے اپنی سچائی پر ایمان لانے پر مجبور کرے اور اگر وہ اس سے انکار کریں تو اس صورت میں ان پر تشدد اذیت اور سختی کر کے انہیں ذلیل و خوار کرے۔

اسی طرح اگر کو ئی فرد ان کے عقیدے کو تسلیم کرنے کے بعد اس سے انحراف یا اس سے نکل کر دوسرے عقیدے کی سچائی تسلیم کرے تو ایسے شخص کے لیے سخت سزا اس لیے ہوتی ہے کہ اس کے اس عمل کو غداری سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ غداری جماعت کو کمزور کر کے اسے دوسروں کی نظروں میں حقیر کرتی ہے۔

انسانی تاریخ کے ابتدائی د ور میں عقیدہ کی یہ سختی نہیں تھی۔ ہر قبیلے اور جماعت کے اپنے اپنے دیوی اور دیوتا ہوتے تھے اور ان کی تعداد ہمیشہ زیادہ ہوتی تھی۔ لیکن جب یہ بڑی سلطنتیں قائم ہونا شروع ہوئی اور انہوں نے فتوحات کے بعد مختلف قبائل اور اقوام کو اپنے اندر ضم کرنا شروع کر دیاتو سیاسی طور پر اس ضرورت کو محسوس کیا گیا کہ دیوی اور دیوتاؤں کی تعداد محدود کر دی جائے تاکی سلطنت کی تمام رعا یا ایک قسم کے دیوتاؤں کی پرستش کرے اور اسی طرح سیاسی اتحاد کیساتھ ان میں مذہبی اتحا د بھی قائم ہو۔ کیونکہ مذہبی اتحاد کی وجہ سے ان کی وفاداریاں ریاست و حکمران کے ساتھ ہو جائیں گی اور بغاوت کے خطرات کم ہو جائیں گے۔

اسی لیے دنیا میں بڑے بڑے مذاہب کو حکمرانوں اور بڑی سلطنتوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اشوک نے بدھ مذہب کو اختیار کر کے اپنے سیاسی اور سماجی عزائم کو پورا کیا۔ قسطنطین اعظم نے عیسائیت کو اختیار کر کے اور رعایا کو عیسائی بنا کر اپنی ریاست کو مستحکم کیا۔ اسلامی تاریخ میں صفویوں نے ایران کی فتح کے بعد شیعہ مسلک کو زبردستی پھیلایا اور ایران کی سنی آبادی جو اکثریت میں تھی اسے شیعہ بنا کر ازبکوں اور عثمانیوں کے خلاف اپنا دفاع کیا۔

جب ریاست مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے تو وہ ہر تشدد اور سختی کو جائز قرار دیتی ہے اور حکمران اداروں کی مدد سے دوسرے مذاہب کو ختم کر کے لوگوں کو مجبور کرتی ہے کہ ریاستی مذہب کواختیارکیا جائے۔ انڈیا میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے کچھ عہدیداروں نے بھی اس بات کی کوشش کی تھی کہ اہل ہندوستان کو عیسائی بنا لیا جائے تاکہ ان کی وفاداریاں ان کے ساتھ ہو جائیں۔

مغل زوال کے بعد جب انڈیا میں چھوٹی چھوٹی خود مختیار ریاستیں وجود میں آئی تو ان ریاستوں کے ہندوں اور مسلمان حکمرانوں کے درباروں میں چھوٹی ریاستں وجود میں آئیں۔ ان ریاستوں کے ہندوں اور مسلمان حکمرانوں کے دربار میں ہر مذہب کے ماننے والے تھے میسور، بنگال، حیدرآباد، دکن اور اودھ کی ریاستوں کی مثالیں کافی ہیں جن کے اعلی عہدے دار ہندو تھے اور یہ سب اسی وجہ سے ممکن ہوا کہ اس وقت معاشرے میں مذہبی رواداری تھی اور کسی کو اس کے عقیدے کی بنیاد پر نہ تو کم سمجھا جاتا نا ہی اعلی اور نہ اسے عقیدہ بدلنے پر مجبور کیا جاتا۔ ہندوں اور مسلمانوں میں سماجی اور ثقافتی تعلقات کی بنا پر مذہبی رواداری پیدا ہو گئی تھی اگرچے دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ کا پکا کھانا نہیں کھاتے تھے مگر ان باتوں کو مذہبی ضرورت سمجھ کر تسلیم کر لیا گیا تھا۔ اس کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت نہیں کرتے تھے کیونکہ نفرت کی بناء پر سماجی و ثقافت تعلقات متاثر ہوتے اور معاشرے کی ہم آہنگی بر قرار نہیں رہ سکتی تھی اس لیے مذہبی رواداری وقت کی ضرورت بن گئی تھی۔

صورتحال اس وقت بدلی جب پاکستان کی تحریک کو مذہب کے نام پر چلایا گیا۔ اگرچہ اس تحریک کے پیچھے سیاسی اور معاشی مقاصد تھے مگر ان مقاصد کے حصول کے لیے مذہب کو استعمال کیا گیا اور ایک عام مسلمان کو یہ تاثر دیا گیا کہ غیر منقسم ہندوستان میں مسلمان اپنے مذہب اور عقیدے کا تحفظ نہیں کر سکیں گے اور نہ اپنے مذہبی فرائض کو آزادی سے سر انجام دے سکیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان بنا تو عام مسلمان کا یہ خیال تھا کہ یہ صرف مسلمانوں کے لیے بنا ہے یہاں دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے یہی سے مذہبی تعصب اور نفرت کی ابتدا ہوئی۔ مذہبی جماعتیں اپنی نا کامیوں پر پردہ ڈالنے اور خود کو مقبول بنانے کے لیے لوگوں کے مذہبی جذباتوں کو بھڑکاتے رہیں گے اور ان کا نشانہ مذہبی اقلیتیں رہیں گی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں کے ا ن کے اس عمل سے اقلیتوں میں بے چینی پھیل رہی ہے اور وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرہ کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں اور معاشرہ کئی حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ اور ملک میں انتہا پسندی اپنی عروج پر پہنچ چکی ہے

اسلام آباد ہائی کورٹ کا سرکاری ملازمتوں کے لیے مذہبی شناخت کے حلف نامے کو لازمی قرار دینا، پنجاب حکومت کی طرف سے تعلیمی اداروں میں خاص تقریبات پر رقص کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنا، اور ابھی حال ہی میں قائد اعظم یو نیورسٹی کے ایک شعبہ کے نام کے حوالے سے قرارداد کی منظوری، مشال خان کے مبینہ قاتلوں کا والہانہ اسقبال، کوئٹہ میں مسیحی برادری پر بہیمانہ تشدد کے واقعات، مندروں کی بے حرمتی اور سرکاری سر پرستی میں بعض مندروں پر قبضے کی اطلاعات سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی خطر ناک حد تک پہنچ چکی ہے جو کہ پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔

اور یہ ایک حقیقت ہے کہ مذہب کی بنیاد پر ٹوٹا ہوا معاشرہ اس حالت میں نہیں ہوتا کہ وہ اپنا دفاع کرسکے۔ مگر ان تمام باتوں کے با وجود ریاست اور اس کے پر وردہ بعض غیر ریاستی عناصر اقتدار کی بنیادوں کو مذہبی تنگ نظری پر رکھنا چاہتے ہیں ا ور اس کیبجائے سیکولر روایات و اداروں کو قائم کرنا نہیں چاہتے کہ جو مساوی بنیادوں پر تمام شہریوں کو متحد کرکے ان کے سماجی و سیاسی و معاشی رشتوں کو مظبوظ کرتا ہے۔ معاشرے کی اس ہم آہنگی سے ایک مشترک ثقافت پیدا ہوتی ہے جو کسی بھی قوم کی شناخت کے لیے ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).