کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے


جیسے جیسے الیکشن قریب آرہا ہے ملک کی فضا میں ایک ہلچل سی ہے ، عجب بے یقینی کی فضا ہے جانے کب کیا ہوجائے، لیڈران ایسے ایسے بیانات دے رہے ہیں کہ سمجھ میں ہی نہیں آرہا کہ، روؤں عقل کو کہ پیٹوں جگر کو میں۔ صوبہ پنجاب میں جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا خواب دکھا کر ووٹ بٹورنے کا منصوبہ ہے جبکہ سندھ کو صوبوں میں تقسیم پر مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں، بلوچستان کو سی پیک کے نشے میں بھلا دیا گیا ہے، کے پی کے ”کھاپی کے“ صوبہ بنا ہوا ہے، کہیں کوئی جوں نہیں رینگ رہی۔ سارے بھلے کام اعلی عدلیہ کے محترم بڑے جج کررہے ہیں، کونسا ایسا کام ہے جو انھوں نے نہیں نمٹایا۔

فوج ملکی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ملک کو اندرونی خطرات سے بچانے میں لگی ہے۔ سابق وزیراعظم نے نیا پنڈورا بکس کھول دیا ہے، کون کس کو نیچا دکھانا چاہتا ہے کون اپنی ٹانگ اونچی رکھنا چاہتا ہے، ملکی مفاد گیا بھاڑ میں۔

ملک میں مسائل کا انبار لگ رہا ہے، معصوم بچے جو ابھی سال سوا سال کے بھی نہیں ہوئے ان کے والدین بچوں کی ویکسینیشن کے لیے ایم ایم آر، میزلز، ہیپاٹائٹس کی ویکسین ڈھونڈنے میں پاگل ہوئے ہیں جہاں سے ملے خرید کر بچوں کا کورس پورا کرلیں، ویکسین بنانے والی بڑی کمپنیوں نے قیمت بڑھانے کے لیے کام بند کیا ہوا ہے کوئی ہے پوچھنے والا۔

تعلیم کا برا حال ہے، بورڈ کا ہر امتحان چاہے میٹرک ہو یا انٹر میں نقل کا بازار گرم ہے، واٹس ایپ پر پرچے چھپ چھپ کر پہلےہی آجاتے ہیں، کیجئے آرام سے نقل، سارا سال محنت کرنے والے ذہین بچے کہاں جائیں۔

رمضان چند روز بعد آنے والا ہے، ہر چیز کے دام خودبخود بڑھ گئے ہیں کیونکہ مہنگائی اور رمضان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ شاپنگ مالز والوں نے ففٹی پرسنٹ سیل لگا کر جیبیں خالی کرنے کا کھیل رچایا ہوا ہے عوام ہے پاگل ہوئی جارہی ہے، لوگوں کا جم غفیر ، دھکم پیل ہاتھوں مین چھ چھ شاپرز لٹکائے مال سے ایسے نکلتے ہیں جیسے سکندر اعظم نیا ملک فتح کرکے شان سے نکلتا تھا۔ سب کچھ لٹا کر ہوش میں آتے ہیں تو بجٹ آوٹ ہوچکا ہوتا ہے۔ ملک میں تین طبقے ہیں ایک امیر، دوسرا غریب اور تیسرا ہے متوسط سب سے مشکل میں یہی ہے، امیر اپنی دولت میں مگن ہے غریب غربت کا ٹھپہ لگا ہونے کی وجہ سے کسی گنتی میں نہیں، اب متوسط طبقہ ہی ہے جو چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا چاہتا ہے اور اس تگ و دو میں سر ڈھکتا ہے تو پیر کھلتے ہیں پیر ڈھکتا ہے تو سر کھلتا ہے۔ بمشکل اپنی عزت نفس بچا پاتا ہے رزق حلال کی جستجو میں خود حلال ہو جاتا ہے اور ان مسائل اور مصیبتوں کو جھیلتے جھیلتے قبر کی ٹھنڈی زمین کا رزق بن جاتا ہے، اور کبھی تو قبر کی زمین خریدنا مسئلہ بن جاتی ہے۔

اب چونکہ الیکشن کا بازار گرم ہے ایسے ایسے سبز باغ دکھائے جارہے ہیں لگتا ہے الیکشن کے بعد تمام مشکلات سے چھٹکارہ پالیں گے لیکن الیکشن کے فوراً بعد سارے وعدے محبوب کے وعدوں کی طرح جھوٹے نکلتے ہیں بقول شاعر
غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا

مسائل سب وہیں رہتے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے رہتے ہیں، غیریب کے دن پھیرنے کی باتیں ہوا میں تحلیل ہوجاتیں ہیں، پھر نئی حکومت بن جائے گی وہی حال ہوگا کبھی اسمبلی کا کورم پورا نہیں ہوگا، کورم پورا ہو تو الزام تراشیوں اور لڑنے جھگڑنے میں وقت گزر جاتا ہے، تھوڑا بہت کام ہوگا لیکن متوسط طبقہ ایسے ہی پستا رہے گا اور عزت کی زندگی گذارنے کے لیے قربانیاں ہی دیتا رہے گا
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جودل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).