فوج جیت گئی تو عوام ہار جائیں گے


پاکستان کے مستقبل کو جھوٹ اور غیر یقینی حالات سے منسلک کردیا گیا ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 12 مئی کو روزنامہ ڈان کو دئیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں اس دھند کو ہٹانے کی ایک کوشش ضرور کی ہے لیکن اس بیان کو گمراہ کن اور جھوٹ پر مبنی قرار دے کر اس بحث کو ملک کی سلامتی اور فوج کے وقار کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے سب سے اہم قدم خود فوج ہی کی طرف سے اٹھایا گیا اور اس کے مطالبے پر سوموار کی صبح قومی سلامتی کونسل کا ایک اجلاس منعقد ہؤا جس میں وزیر اعظم اور وزیر دفاع کے علاوہ مسلح افواج کے سربراہان شریک ہوئے۔ اجلاس کے بعد نواز شریف کا نام لئے بغیر کہا گیا ہے کہ یہ خبر غلط اور گمراہ کن ہے۔ حیرت ہے کہ صرف اتنا بیان دینے کے لئے قومی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ۔ فوج ایک انٹرویو میں بالواسطہ طور سے بیان کی گئی ایک صورت حال کے بارے میں اس قدر فکر مند اور سنجیدہ ہو گئی کہ اسے ملک کے اعلیٰ ترین پلیٹ فارم سے اس کی تردید کروانے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ اس دوران نواز شریف نے اپنے بیان پر قائم رہنے کا اعلان کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ انہوں نے کون سی غلط بات کی ہے اور واضح کیا ہے کہ وہ سچ بولتے رہیں گے خواہ اس کے کچھ بھی نتائج سامنے آئیں ۔ نواز شریف کے جارحانہ رویہ کے مقابلہ میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ نواز شریف کے بیان کو بھارتی میڈیا میں غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ نواز شریف خود اپنی ہی پارٹی کے صدر اور بھائی کے علاوہ وفادار وزیر اعظم کے مدمقابل کھڑے ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے سوموار کو بونر میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے نہ صرف اپنی بات پر اصرار کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ وہ اس حوالے سے ہر قسم کی تحقیقات کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اس خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ’ ان پر غداری اور ملک دشمنی کے جو الزامات عائد کئے جا رہے ہیں ان کی تحقیقات کے لیے ایک قومی کمیشن بناناچاہئے‘۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نے جذباتی انداز میں کہا ہے کہ ’اگر میری یہ بات ناگوار گزارتی ہے اور اگر میں غدار ہوں اور ملک دشمن ہوں تو آؤ اور ایک قومی کمیشن بناؤ اور پھر اس کا حساب کتاب ہو جائے‘۔

ایک کمیشن بنانے کی بات پشتون تحفظ موومنٹ کے لیڈر منظور پشتین بھی کرتے ہیں۔ کراچی میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ’سچ بتانے اور مصالحت کرنے کا کمیشن‘ قائم کرنے کے مطالبے کو دہرایا ہے۔ منظور پشتین کا مطالبہ سادہ اور قابل فہم ہے۔ وہ سیکورٹی اداروں کی طرف سے غائب کئے جانے والے لوگوں پر ملک کے قانون کے مطابق مقدمے چلانے کی بات کرتے ہیں۔ وہ امن کا پیغام دیتے ہیں لیکن ان کا مطالبہ ہے کہ اچانک غائب کردینے اور مار کر لاشیں پھینک دینے کا سلسلہ بند ہو نا چاہئے۔ سہراب گوٹھ میں اتوار کو منعقد ہونے والے جلسہ میں شرکت کے لئے انہیں لاہور سے براستہ سڑک کراچی پہنچنا پڑا کیوں کہ جس پرائیویٹ ائر لائن پر ان کی نشست بک تھی، اس نے انہیں بورڈنگ کارڈ جاری کرنے یعنی سفر کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔ کراچی میں ان کے حامی تاخیر کے باوجود ان کی آمد تک جلسہ گاہ میں موجود رہے۔ حالانکہ جلسہ گاہ میں روشنی کا انتظام کرنے کے لئے بجلی فراہم نہیں کی گئی تھی۔

منظور پشتین اور ان کی تنظیم پشتون تحفظ تحریک کے خلاف بھی غداری اور دشمنوں کا ایجنٹ ہونے کے الزامات سامنے لائے جارہے ہیں۔ بظاہر ان کا قصور بھی یہ ہے کہ وہ ان سچائیوں کو بیان کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو ملک کے متعدد علاقوں میں ہزاروں گھروں کا المناک تجربہ ہے لیکن اسے بیان دینے اور اس پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ایسا کرنے والے کو غداری اور ملک کے دشمنوں کا ایجنٹ ہونے کا الزام برداشت کرنا پڑتا ہے۔ لیکن منظور پشتین نے ان الزامات کی پرواہ کرنے سے انکار کیا ہے اور وہ لاپتہ لوگوں کی بازیابی کے لئے اپنی جد و جہد جاری رکھنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ نواز شریف اور منظور پشتین اپنے اپنے طور پر کچھ سچ بیان کر رہے ہیں ۔ لیکن ملک کے وہ کون سے عناصر ہیں جنہیں یہ سچ سامنے آنے سے پریشانی لاحق ہوتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ سوال نہیں کیا جا سکتا کہ اگر ممبئی حملوں میں پاکستان کے نان اسٹیٹ ایکٹرز ملوث نہیں تھے تو دنیا پاکستان کا بیانیہ قبول کیوں نہیں کرتی اور پاکستان میں ممبئی حملوں میں ملوث لوگوں کے خلاف مقدمات کا فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ اور کیا وجہ ہے کہ منظور پشتین کی طرف سے لاپتہ لوگوں کو سامنے لانے اور ان کے خلاف ملک کے قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی بات سے ملکی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ تین والدین کو پشاور سے بس میں کراچی کا سفر کرنے سے روک دیا گیا تاکہ وہ سہراب گوٹھ کے جلسہ میں جا کر یہ نہ بتا سکیں کہ ان کے بیٹوں کو کیسے غائب کردیا گیا تھا۔ اسی لئے جلسہ کے منظمین کو اعلان کرنا پڑا کہ اب یہ والدین پیدل کراچی کی طرف آرہے ہیں اور جلسہ کے سامعین کو ’شیم شیم ‘ کے نعروں سے اس اعلان کا استقبال کرنا پڑا۔

نواز شریف اور منظور پشتین دونوں ہی کمیشن بنانے کی بات کر رہے ہیں۔ دونوں سچائی بیان کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر ان کی بات درست ثابت نہ ہو تو انہیں جو سزا چاہے دی جائے۔ نواز شریف نے تو یہ بھی کہا کہ کہ ان کا بیان غلط ثابت ہو جائے تو انہیں پھانسی دے دی جائے۔ ملک میں چھوٹی چھوٹی بات پر مختلف النوع کمیشن بنانے کا رواج عام ہے۔ یہ دونوں معاملات تو قومی اہمیت کے حامل ہیں اور پوری قوم ان معاملات پر اس قدر غیر یقینی رویہ کا شکار ہے کہ اپنی جذباتی اور سیاسی وابستگی کی بنیاد پر واضح طور سے دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ یہ دونوں آرا دو انتہاؤں کی نمائیندگی کرتی ہیں۔ اور غیر جانبدار شخص کے لئے سچائی جاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اگر اپنا اپنا سچ بیان کرنے والے کمیشن بنا کر سچ سامنے لانے کی بات کررہے ہیں تو اس رائے سے اختلاف کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ کیا ابھی تک یہ قوم اتنی باشعور اور بالغ نہیں ہو سکی ہے کہ وہ سچائیوں کا سامنا کرسکے اور خود حالات کو سمجھتے ہوئے سچ اور جھوٹ کو پرکھ سکے؟ عام طور سے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ قوم کو سچ پتہ چل گیا تو قیامت برپا ہوجائے گی ۔ قوم کا مفاد خطرے میں پڑ جائے گا اور ملک کو دشمن ہڑپ کرلےگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان پرفریب نعروں کا سچ بھی عوام کے سامنے لایا جائے۔ اگر نواز شریف اور منظور پشتین کے بنائے ہوئے کمیشن قائم ہو جائیں تو اس تاثر کی حقیقت بھی سامنے آ سکے کہ فوج اور ایٹم بم ہی کیوں اس ملک کی حفاظت کرسکتے ہیں اور امن کے لئے پاکستانی فوج کو ہر وقت کیل کانٹے سے لیس ہو کر سرحدوں کی حفاظت کیوں کرنا پڑتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ جو ایٹم بم پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود اس ملک کی حفاظت کے لئے بنایا گیا تھا، اب پوری قوم کو اس بم کی حفاظت کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے جوہری اثاثوں کے خلاف دشمن اور دنیا کی بڑی طاقتوں کی سازشوں کے قصے زبان زد عام کئے جاتے ہیں۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ اب اس سراب سے باہر نکلا جائے۔ اب اس سچائی کا سامنا کیا جائے کہ پاکستان کی حفاظت اس ملک کی مثبت اور تعمیری پالیسی اور انتہا پسندی کو مسترد کرنے سے ہی ہو سکتی ہے۔ اگر ملک کی حفاظت کے نام پر انتہا پسندی اور خوف کو فروغ دیا جائے گا تو لوگوں میں بے چینی ہی بڑھے گی اور ملک بدستور غیر محفوظ رہے گا۔ عسکری قوت اس کی حفاظت نہیں کرسکے گی۔ اور ایسے سچ بیان کئے جاتے رہیں گے جن کی تردید کے لئے قومی سلامتی کونسل کے اجلاس بلا کر گمراہ کن خبروں کی تردید کا ڈھونگ رچایا جاتا رہے گا۔

فوج ایک بار پھر ملک کے قومی انتخابات میں جیتنے کے لئے بساط بچھا چکی ہے۔ مستقبل میں ایسی پارلیمنٹ سامنے لانے کی تیاریاں مکمل ہیں جس کے ارکان چھوٹے چھوٹے گروہوں اور پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہوں اور ان ارکان کی حمایت سے منتخب ہونے والا وزیر اعظم جی ایچ کیو کی منشا کے مطابق راضی بہ رضا رہنے پر مجبور ہو۔ سوال تو صرف یہ ہے کہ بحران کا شکار اس ملک کو مضبوط اور واضح اکثریت والا لیڈر چاہئے یا کمزور اور ہر وقت اپنے اقتدار کی حفاظت کی فکر میں پریشان وزیر اعظم اس ملک کے مسائل کا حل ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ معلق پارلیمنٹ، آزاد ارکان کی اکثریت والے ایوان، مقبول لیڈر کو سیاست سے باہر کرنے والا انتخاب ہی ملک و قوم کے لئے بہترین حل تجویز کیا جارہا ہے او یہ علاج مسلط کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ کیا فوج نہیں چاہتی کہ ملک کے عوام کثرت رائے سے ایک ایسے لیڈر کو منتخب کریں جو ملک کے بہترین مفاد میں پارلیمنٹ کی طاقت کے ساتھ دنیا کی سپر پاور کے علاوہ ہمسایہ ملکوں کے ساتھ معاملات طے کرسکے۔ اس عمل میں فوج کو اہم کردار اپنے پاس رکھنے پر ہی کیوں اصرار ہے۔ کیوں کنگز پارٹی کے ذریعے انتخابات کو ’کنٹرول‘ کرنے اور حسب توقع نتائج کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ اس صورت حال میں کیا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس بار اگر فوج کا کھیل کامیاب ہو گیا تو اس ملک کے 21 کروڑ عوام ایک بار پھر ہار جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali