جذباتی ماحول میں نوازشریف او ر کرنل جوزف کا تذکرہ


ماحول بہت جذباتی ہوچکا ہے۔ منطقی انداز میں تجزیے کی گنجائش موجود نہیں۔ وہ فقرہ جو ٹیلی وژن سکرینوں پر دھواں دھار تقاریرکا باعث ہوا کچھ اس طرح تھا۔ “How Can We Allow…”(ہم کیسے اجازت دے سکتے ہیں)وغیرہ وغیرہ۔ فرض کیا کہ Allowکے بجائے Letکا استعمال ہوتا اور بات کچھ یوں ہوتی کہ چینی اور روسی صدور پاکستان کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل قرار پائے وزیر اعظم سے اپنی ملاقاتوں میں تواتر کے ساتھ 2008کے ممبئی والے واقعے کا ذکر کرتے رہے ہیں تو شاید وہ شور سننے کو نہ ملتا جو فی الوقت برپا ہے۔

مجھے ہرگز خبر نہیں کہ Allowکا استعمال دانستہ ہوا یا اس کا اظہار بے ساختہ تھا۔ عواقب اس لفظ کے استعمال کے البتہ بہت سنگین ہوں گے۔نون کے لاحقے والی پاکستان مسلم لیگ سے ابھی تک کسی نہ کسی بہانے وابستہ ہوئے Electablesکو اب 31مئی کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ ”وطن سے محبت“ سے بڑا اور کوئی جواز ہوہی نہیں سکتا اور شہباز شریف کی Damage Controlوالی صلاحیتیں بہت محدود ہیں۔ میڈیا کے لئے بیانیہ تراشنا ان کے بس کی بات نہیں۔ میگا پراجیکٹس پر توجہ دیتے ہیں اور دنیا کو اپنی ”پنجاب سپیڈ“ سے متاثر کرنے کی کوششوں میں مصروف ۔ نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے آشیانے سے اُڑے پرندوں کو اگر تحریک انصاف میں جگہ نہ ملی تو انہیں چودھری نثار علی خان کی فراست سے رجوع کرنا ہوگا۔ PMLاس وجہ سے ”شین“ نہیں بن پائے گی۔”نون“ ہی رہے گی۔

میں خود کو ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا سے ہفتے کے آخری تین دنوں میں محفوظ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔ اتوار کا دن لہذا پرندوں، بھینسوں اور بکریوں سے گفتگو میں گزارا۔ حال ہی میں ہوئی بارشوں نے اسلام آباد کے درختوں اور پودوں کو بہت رونق بخشی ہے۔ اس سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ ربّ کریم کی کونسی کونسی نعمتوں کو جھٹلاﺅگے والا سوال ذہن میں گونجتا رہا۔

فکر البتہ میرے اندر موجود رپورٹر کو Allowکے بارے میں ہرگز نہیں ہوئی۔ سوال صحافی کے ذہن میں اُٹھا تو فقط اتنا کہ ٹرمپ کے امریکہ نے کس برتے پر اپنا ایک جہاز راولپنڈی کے نور خان ایئربیس بھیج دیا تھا۔اس یقین کے ساتھ کہ وہ اس کے ذریعے عدالتی عمل کی بدولت ایک قتل میں نامزد ہوئے اس کے کرنل جوزف کو وطن واپس لے جائے گا۔پانچ گھنٹے کے انتظار کے بعد یہ جہاز کرنل جوزف کے بغیر گیا۔ حکومتِ پاکستان نے اسے NOCدینے سے انکار کردیا۔

پیر کی صبح اپنے فون پر موجود سوشل میڈیا کو Activateکرنے کے بعد میں نے یہ جاننے کی بہت کوشش کی کہ امریکی جہاز کی پاکستان سے پانچ گھنٹے انتظار کے بعد کرنل جوزف کے بغیر پرواز کوٹرمپ انتظامیہ نے کس انداز میں لیا ہے۔ مجھے اس ضمن میں مکمل خاموشی اختیار ہوئی محسوس ہوئی۔ شاید اس خاموشی کی وجہWeekendتھا اور وہ تماشہ جو امریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اس شہر میں اپنے سفارت خانے کے باقاعدہ افتتاح کے ذریعے رچایا۔

2008کے واقعہ سے کہیں زیادہ تشویش مجھے اس حقیقت کے بارے میں لاحق ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے آنے کے بعدسے پاکستان کے فی الوقت دنیا کی واحد سپرطاقت شمار ہوتے ملک کے ساتھ تعلقات دن بدن مخاصمانہ ہورہے ہیں۔

آج سے تقریباََ ایک ماہ قبل مجھے انتہائی قابل اعتماد ذرائع سے خبر ملی تھی کہ واشنگٹن پاکستانی سفارت خانے سے وابستہ افراد پر آزادانہ سفر کے حوالے سے کچھ ایسی پابندیاں عائد کرنے کی سوچ رہا ہے جو عموماََ امریکہ کے ”دشمن“ تصور ہوتے ممالک کے سفارت کاروں پر عائد ہوتی ہے۔

روزمرہّ رپورٹنگ سے عرصہ ہوا میں ریٹائر ہوچکا ہوں۔ بڑی خبر مل جائے تو اسے دئیے بغیر مگر چین نہیں آتا۔ مذکورہ خبر ملی تو اسے بیان کردیا۔ کوئی صحافی ”خبر“ دے تو بہت دوستوں کی خواہش اس کی تصدیق نہیں تردید حاصل کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اس ضمن میں ضرورت سے زیادہ مہربان ہیں۔ انہوں نے مناسب ڈھٹائی اور افسرانہ رعونت سے اعلان کردیا کہ ان تک ایسی کوئی خبر نہیں پہنچی ہے۔ مجھے لیکن اپنی خبر کی صداقت کا یقین تھا۔ ڈٹا رہا۔ بالآخر 11مئی 2018سے امریکہ میں موجود پاکستانی سفارت کاروں کی نقل وحرکت پر چند محدودات کا اطلاق ہوگیا ہے۔ پاکستان اس کے جواب میں تفصیلی ردعمل دکھانے پر مجبور ہوا۔ TITکے ساتھ TATہوگیا۔

پاکستان اور امریکہ کی جانب سے ایک دوسرے کے سفارت کاروں کی نقل وحرکت پر عائد محدودات کے تناظر میں کرنل جوزف والا معاملہ سنگین تر ہوگیا ہے۔ کرنل جوزف ریمنڈ ڈیوس نہیں ہے۔ وہ لاہور میں امریکہ کے لئے جاسوسی اور سکیورٹی پر مامورمحض ایک کارندہ تھا جو کسی ادارے کا باقاعدہ ملازم بھی نہیں تھا۔ ٹھیکے داروں کے ذریعے لئے ہوئے ریمنڈ کو صدر اوبامہ نے مگر انتہائی ڈھٹائی سے اپنا ”سفارت کار“ کہتے ہوئے جنیوا کنونشن والی سہولتیں طلب کرلیں۔

پاکستان آمادہ نہ ہوا تو جان کیری نے قصاص اور دیت کا سہارا لیا۔ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی ہوگئی لیکن میری ناقص رائے میں اس رہائی نے ایک Precedentبھی Setکردیا۔

امریکی سفارت کار اب پاکستان میں کسی شخص کی حادثاتی موت کا ارتکاب کرنے کے بعد محض جنیوا کنونشن کا حوالہ دیتے ہوئے خود کو عدالتی کارروائی سے محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ ہماری عدلیہ سے لوگوں کی توقعات بہت زیادہ ہوچکی ہیں۔ان توقعات نے بہت سے معاملات کے بارے میں حکومت کو تقریباََ مفلوج بنادیا ہے۔ متحرک عدلیہ کے علاوہ پاکستانی حکومت کو عوام میں موجود امریکہ دشمن جذبات کو بھی ذہن میں رکھنا ہوتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ مگر معاملات کو محض بلیک اینڈ وائٹ کی صورت دیکھتی ہے اور کرنل جوزف امریکی فوج کا باقاعدہ ملازم ہے جو اسلام آباد میں ڈیفنس اتاشی کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔

پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات دوستانہ نہ سہی صرف معمول کے مطابق بھی ہوتے تو انتہائی خاموشی اور سفارت کارانہ مہارت سے کرنل جوزف کی جان ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے استعمال ہوئے فارمولے کو دہرا کر چھڑائی جاسکتی تھی۔ امریکہ نے مگر ایسا کوئی تردد کئے بغیر کرنل جوزف کو لینے اپنا جہاز بھیج دیا۔ ہمارے انکار کو ٹرمپ شاید ہضم نہیں کر پائے گا۔ سچی بات ہے مجھے اس حوالے سے اس کے رعونت بھرے ٹویٹ کا انتظار رہا۔ پیر کی صبح تک ایسا ٹویٹ نہیں آیا۔ امریکہ سے ردعمل لیکن ضرور آئے گا۔

میری خواہش تھی کہ ہمیں پل پل کی خبر دینے والے صحافی اور ٹی وی سکرینوں پر سفارت کاری اور قومی سلامتی کے امور کی گتھیاں سلجھانے والے ”ماہرین“ اس ضمن میں ہماری رہ نمائی فرماتے۔ ان کی سوئی مگر فی الوقت Allowپر اٹکی ہوئی ہے۔ اس کا حساب ہوجانے کے بعد ہی کرنل جوزف کے معاملے پر توجہ دی جاسکتی ہے۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).