سہ بارہ شکریہ راحیل شریف


\"farnood\"چھبیس جنوری کو ’’ہم سب‘‘ پہ شائع ہونے والے اپنے کالم ’’تشکر بسیار راحیل شریف‘‘ کا پہلا پیراگراف قارئین کی نذر کرتا ہوں۔

\”جنرل راحیل شریف ان جرنیلوں میں سے ہوئے جو اپنا بخت سلامت رکھ سکے۔ ذہین کون نہیں ہوتا، اپنی ذہانت کو دانشمندی سے ہم آہنگ کرنا در اصل اعصاب کی آزمائش ہوتی ہے۔ یہ کہہ کر چھڑی جنرل راحیل شریف کو تھمائی گئی تھی کہ وہ ایک پیشہ ور اور دیانت دار سپاہی ہیں۔ پیشہ ور شخص اپنے ادارے کا احترام جانتا ہے اور وہ دیانت دار ہو تو دوسرے اداروں کے احترام پہ یقین رکھتا ہے۔ اپنی ذمہ داری وہ چھوڑتا نہیں دوسروں کی ذمہ داریوں کو وہ چھیڑتا نہیں۔ یوں بھی اپنا احترام وہی کروا سکتا ہے جو دوسروں کو احترام بخشنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ عزت مند انسان کی پہچان ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ عزت دینا جانتا ہے۔ پیشہ ورانہ سنجیدگی کی نسبت اگر ایک سپاہی کی طرف کی جائے تو ہم ایسے ستائے ہوئے لوگ اس سے مراد یہی لے سکتے ہیں کہ کم از کم سیا ست میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔ آج جب وہ چھڑی دست بدست آگے بڑھانے کا وقت آیا ہے تو دلِ مضطر جنرل راحیل شریف کی ذہانت اور دانشمندی کی گواہی دینے پہ آمادگی ظاہر کررہا ہے‘‘

اسی کالم کے آخری پیراگراف کا پہلا نصف بھی گوارا کر لیجیئے

\”فوج کا ادارہ ایک باوقار ادارہ ہے۔ اس ادارے کا وقار بار بار مجروح کیا گیا جس کا سہرا خود فوجی سربراہوں کے سوا کسی کے سر نہیں جاتا۔ جرنیلوں کا شاید اس بات پہ کامل ایمان ہوتا ہے کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں، اسی لیئے عوام کے حقِ حکمرانی پہ ڈاکہ ڈالتے وقت بھی ان کا ضمیر مطمئن رہتا ہے۔ دہائیوں پہ پھیلے ہوئے داغ دھبے دھونے میں جنرل راحیل شریف کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے اگلے محاذوں پہ موجود سپاہیوں کے ساتھ خوشی کے لمحات کاٹ کر جوانوں کا حوصلہ بلند کیا۔ قومی قیادت نے ان پر جو اعتماد کیا اس کی لاج رکھ کر ادارے کے احترام میں اضافہ کیا۔ سیاسی قوتوں، بھاڑے کے دانشوروں اور مایوس قلم کاروں کی طرف سے اٹھتی ہوئی العطش کی صداوں کو نظر انداز کر کے پارلیمنٹ کو تو قیر بخشی۔ دفاعی پالیسیوں پہ حرف گیر تجزیہ کاروں کی تنقید کو گوارا کر کے انہوں نے اصلاح کے امکان پہ پڑی گرد پہ پھونک ماری\”۔۔۔

ہم جیسوں کے دل و نگاہ میں جنرل صاحب کی عزت اور بھی بڑھ گئی کہ احتساب کا دیا انہوں نے ناک کے نیچے جلا کے رکھ دیا ہے۔ درجن بھر افسران کے تمغے نوچ کر انہوں نے گھر کی راہ دکھا دی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوا اور بالکل بجا طور پہ پیدا ہوا کہ افسران کو گھر ہی کی راہ کیوں دکھائی؟ کیا آج تک اس طرح کے مجرموں کی راہ گھر کی طرف ہی نکلا کرتی تھی؟ محتسب کے ہاتھ اگر اسی جرم میں سیاست دان لگا ہوتا تو کیا اسے گھر ہی بھیجتا؟ وہ سر عام کوڑے لگانے والی روایت کیا ہوئی؟ ہماری یہ قطعا خواہش نہیں ہے کہ کسی لائق احترام بریگیڈئیر یا میجر کو سر عام رسوا کیا جائے، مگر یہ ضرور یاد دلانا چاہیں گے کہ ایک جمہوری ریاست میں منتخب عوامی نمائندے کو کسی بھی بندوقچی پہ برتری حاصل ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کی توقیر کسی بھی اسلحہ ڈپو سے کہیں زیادہ ہے۔ پھر ریاست کا منتخب سربراہ؟ پھر قوموں کے لیے عزت کے وہ بلند مینار؟ خان عبدالغفار کے نصیب میں تو محتسب نے سلاخیں لکھی تھیں۔ ان کی اولاد کے نام کے کوڑوں کو تو محتسب ہرصبح تیل دیا کرتا تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی باری آئی تو محتسب نے ایک جھٹکے میں گردن ناپی اور دوسرے جھٹکے میں دار پہ کھینچ ڈالا۔ پھانسی سے ایک رات پہلے محتسب موجود تھا جب بے نظیر بھٹو نے انڈیا کی قید سے آزاد کروائے گئے نوے ہزار فوجیوں کا واسطہ دے کر کہا تھا کہ سلاخوں کو بیچ سے اٹھا دیجیئے آخری بار بابا کے گلے لگنا چاہتی ہوں، محتسب نے مگر کیا برتاؤ کیا؟ یاد تو ہوگا وہ منظر کہ جب روتی بلکتی بے نظیر کو محتسب نے بازو سے پکڑ کے جیل کے احاطے سے باہر نکال دیا تھا۔ بے نظیر کا احتساب بھی پھر ایک دنیا نے دیکھا۔ اسی محتسب کے ہاتھوں مسلسل در بدر رہیں یا پھرملک بدر۔ میاں محمد نواز شریف کو چھٹے منٹ میں مسافر کی کسی گھٹڑی کی طرح ایک ایسے زندان میں پابند سلاسل کردیا کہ جہاں میرا دوست کیپٹن اسد اپنا جرمن شیفرڈ بھی رکھنا گوارا نہ کرے۔ اسی نواز شریف کو دمِ رخصت محتسب نے یہ عزت دی کہ جہاز کی سیٹ سے دونوں ہاتھ باندھنے کا حکم جاری کیا۔ جاوید ہاشمی کا لرزتا وجود، مفلوج بازو، متاثر دماغ، لڑکھڑاتی زبان اور پھسلتے الفاظ کس احتساب کا بیان ہے؟ آج کا محتسب کبھی برف کی ڈلی پانچ منٹ مٹھی میں دبائے رکھے، پھر وہ وقت یاد کرے جب نقطہ انجماد کو چھوتی ہوئی سرد راتوں میں جاوید ہاشمی کو برف کی سل پہ بے لباس لٹا دیا جاتا۔ یہ محتسب ہی تو تھا جو خون میں لت پت پرویز رشید کو نیم برہنہ حالت میں جواں بیٹیوں کے سامنے لا بٹھاتا۔ ملتان کے یوسف رضا کا احتساب بھی تو گھر میں ہو سکتا تھا، مگر محتسب نے ضروری جانا کہ انہیں ایک تاریک کنویں میں رکھ کر حساب بے باق کئے جائیں۔ محتسب نے بخشش دی ایک چوہدری نثار کو؟ صرف اس لئے کہ چوہدری صاحب محتسب کو بھی پلانے پہ یقین رکھتے ہیں؟ جنرل مشرف کی ماں دبئی میں بیمار ہوجئے تو محستب کا رنگ زرد پڑجاتا ہے، جلاوطن نواز شریف کا معزز باپ چل بسے تو فرق نہیں پڑتا؟ احتساب کا یہ کیسا کوڑا ہے کہ جو قیس پر پڑے تو نشان تک نہیں آتا، فیض پر پڑے تو خون آلود زبان ہر حلقہِ زنجیر میں رکھنی پڑجاتی ہے؟ محتسب میرا احتساب کرے تو گھر جانے نہیں دیتا، آپ کا کرے تو گھر بھیجتا ہے۔ کمال ہے نا صاحب۔؟ مایوسی اور بدگمانی سے ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔ کسی طور بھی سہی، ہم خوش ہیں کہ احتساب کا آغاز ہوا۔ دردِ دل سے کسی کو یہ گمان نہ ہو کہ احتساب سے بالاتر ادارے میں احتساب کی نومولود روایت کو ہم شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مدعا یہ ہر گز نہیں کہ جن جرنیلوں کی مشکیں کسی گئیں انہیں سیاست دانوں کی طرح تاریک زندانوں میں پھینک دیا جائے، بس التجا یہ ہے کہ سیاست دان کے لیے وہی احترام روا رکھا جائے جو بدعنوان جرنیل کے لیے روا رکھا جاتا ہے۔

دو طرح کے دانشور اس لمحے روبرو ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جن کی کوپڑیاں کسی بانجھ بکری کا پیٹ بنی ہوئی ہیں۔ مرگلہ کی پہاڑیوں کو اگر ان کے مایوس لفظوں کی دھونی دیدی جائے تو پھول مہکنا اور کویل چہکنا چھوڑ دیں۔ دوسری طرف امید کے کسی نامعلوم مقام پر بیٹھے وہ دماغ ہیں جو بیٹھے بٹھائے ایک کڑوی ڈکار آنے پر امید سے ہونے کا احساس طاری کر لیتے ہیں۔ پہلی قسم نے طے کرلیا ہے کہ اس جمہوری ریاست میں ایک ان کی گفتگو کے سوا کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے، سو وہ خود احتسابی کی اس پہلی بوند سے بھی مایوس ہیں۔ دوسری قسم نے خوابوں سے سجی آنکھیں مری روڈ پہ تعینات کر رکھی ہیں کہ کب کماں بدست لشکری آئیں کہ گلقند کا کاروبار چلے۔ عسکری قیادت نے اندرخانہ احتساب شروع کیا ہے تو یہ فوجی ہیڈ کوارٹر کی فصیل پہ چڑھ کے پکار اٹھے ہیں کہ آیئے پارلیمنٹ کا احتساب بھی کیجیئے۔ کچھ دیر کے لیے نیچے اتریں تو ضرور سوچیں کہ یہ سپہ سالار کے خیر خواہ ہیں کہ بد خواہ۔ جنرل راحیل شریف اپنے ادارے کا وہ وقار بحال کرنے نکلے ہیں جسے جنرل ضیا اور جرنل مشرف کے بوٹوں نے پامال کردیا تھا۔ مت بھولیے کہ جنرل مشرف اس وقت تک اٹھارہ کروڑ انسانوں کیلئے لائق تکریم تھے جب وہ آنکھوں پہ ہاتھ کا سائبان بنائے سرحد پہ کھڑے تھے۔ ان کا تماشا تب ہوا جب بندوق رکھ کر بیچ شہر میں بھنگڑے ڈالنے لگے۔ آج اگر جنرل راحیل شریف کی تحسین ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ بیرک میں کھڑے ہیں۔ آپ کیوں چاہتے ہیں کہ جنرل راحیل کو تاریخ جنرل مشرف جنرل ضیا اور جنرل نیازی ایسے مذموم کرداروں کے ساتھ کھڑا کرے؟ آپ مورخ کو موقع کیوں نہیں دینا چاہتے کہ وہ تاریخ کے کسی چوراہے پہ جنرل راحیل کا ایک مجسمہ تعمیر کرے جو ہر آنے والے جرنیل کو اس کا فرض منصبی یاد دلاتا رہے۔

مایوس دانشور کس بات سے مایوس ہے؟ کرپشن سے؟ لاقانونیت سے؟ اسے فکر ہے کہ عدل گاہوں میں قلم دان بک رہے ہیں؟ سیاست دان خزانے پہ ہاتھ صاف کر رہے ہیں؟ یہی کچھ ہے؟ ٹھیک ہے، مگر یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ پارلیمنٹ پہ شب خون مارنے والا جرنیل سیاست دانوں سے بڑھ کر ان جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔ سیاست دانوں سے بڑھ کر اس لیے کہ وہ عوام کو جوابدہ نہیں ہوتا۔ اپنی وردی پہ جمہوریت کا غازہ ملنے کیلئے اسے سیاست دانوں کی ایک پورا ہجوم درکار ہوتا ہے۔ ایک آواز پر غاصب کے دربار میں با ادب باملاحظہ کھڑے ہونے والے یہ سیاست دان کیا یونہی رضاکارانہ چلے آتے ہیں؟ قاضی کا قلم جو ہر دم اطاعت گزاری پہ مامور ہوتا ہے، اسے کیا نام دیجیئے گا؟ آج بھی اگر پارلیمنٹ کو گھیر لیا جائے، تو برسر اقتدار مسلم لیگ کا تو احتساب ہوجائے گا، مگر حروف تہجی میں سے ایک حرف اٹھا کر جو نئی مسلم لیگ کھڑی کی جائے گی اس کے احتساب کیلئے کس کو پکاریں گے؟ اپنے غم بڑھانے کے لئے اپنے ہی غمگساروں کو بلانا کج فہمی کی ایک دانشورانہ قسم ہی سہی، مگر ہے تو کج فہمی ہی نا صاحب۔

خیر کی یہاں دو باتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جنرل راحیل شریف نے سماج میں جاری سیاسی و سماجی مکالموں کے نتیجے میں تشکیل پانے والی رائے عامہ کو احترام بخشتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ میرے صحافی دوست عظمت رانا پہ پہلی بار یہ انکشاف ہوا کہ عسکری شخصیات بھی کرپٹ ہوتی ہیں۔ مایوس دانشور مگر اس سے بھی مطمئن نہیں۔ وہ بضد ہے کہ اس سے بڑھ کر احتساب کا کوئی قدم اٹھایا جائے تو میں مانوں۔ بات یہ ہے کہ ہزار میل کا سفر شروع پہلے قدم سے ہی شروع ہوتا ہے۔ برسوں کو محیط خشک سالی کا تناؤ بارش کی پہلی بوند سے ٹوٹ جاتا ہے۔ جو روایت موجود ہی نہ ہو اس کی بنیاد کیلئے پہلی آواز اہم ہوتی ہے۔ آواز اٹھی، ٹوٹی، پھر اٹھی، آواز میں پھر آوازیں شامل ہوئیں۔ زور اس قیامت کا پڑا کہ پہلا قدم بھی اٹھ گیا۔ پہلے قدم کا انتظار تھا، وہ جنرل راحیل شریف نے اٹھا دیا۔ آپ کی میری ہم سب کی ذمہ داری پہلے سے بڑھ گئی کہ بر وقت نشاندہی اور غیر متعصب رائے کی روایت جاری رکھیں۔ پھول تو چمن میں کھل ہی جاتے ہیں، یہ کھلے ہی رہیں یہ ہنر کا امتحان ہے۔ سپہ سالار عزت و احترام کے اسی گراف کے ساتھ رخصت نہ ہوسکے تو یہ ہم سب کے لیے ایک دیر پا ندامت و شرمندگی کا سامان ہوگا۔ آخر کب تک ازسر نو سفر شروع کرنے کی مشقیں کرتے رہیں گے؟ کب تک ایک کے بعد ایک دریا عبور کریں گے۔ اک ذرا حوصلہ کہ آخری دریا پار ہونے کو ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments