رمضان کی آمد، غریب کا روزہ اور منافع خوروں کی موجیں


کئی لوگ مجھ سے اختلاف کرتے ہییں۔ کہ اپ یورپ کے حق میں لکھتی ہیں۔ اور پاکستان کے حق میں نہیں کیا کروں۔ جو یہاں آکر دیکھا وہ لکھتی ہُوں اور تعریف خود بخود بن جاتی ہے۔ اور دل دکھتا ہے کہ پاکستان میں ایسا نظام کیوں نہیں آیا۔ ادھر ان کا تہوار کرسمس ہوتا ہے۔ یہ لوگ ہر چیز کے دام کم کر دیتے ہیں تاکہ ہر بندہ خرید سکے۔ اور عام دنوں میں چاکلیٹ اور بچوں کی چیزیں مہنگی ہوتی ہیں کرسمس پہ پچھتر فی صد کم ہو جاتی ہیں۔

عام بندہ انتظار کرتا ہے کہ کرسمس آئے گی تو پاکستان والوں کو بھی گفٹ اور اپنی بھی شا پنگ کریں گے۔ باقاعدہ چیک کیا جاتا ہے۔ جن کی آمدنی کم ہو تو ان کو کرسمس کی شاپنگ کے لئے بونس دیا جاتا ہے۔ جو آپ کی تنخواہ جتنا ہوتا ہے۔ اور ایسے چیزیں عام اور سستی ہو جاتی ہیں۔ جیسے فری میں ہوں ہر بندے کے گھر شاپنگ کے ڈھیر ہوتے ہیں۔ ہر بندہ برینڈ ڈ کپڑے جُوتے گھر کا سامان ہر چیز لے سکتا ہے۔ عید ان کی ہوتی ہے موجیں ہماری لگتی ہیں۔ اس معمالے میں خیر عرب بھی تعریف کے حق دار ہیں۔ عربوں میں بھی روزوں میں ہر روڈ کے ساتھ ہر قسم کی افطاری کا اور سحری کا اہتمام ہوتا ہے۔ جو ملازمت پیشہ لوگ ہیں ان کو ایک مہینہ کی چھٹی مل جاتی ہے کہ گھر میں جو خود جاکر پکانا پڑتا تھا۔ وہ نہں کرتے۔

اب آتے ہیں پاکستان کی طرف تو اپ خود جانتے ہیں۔ منافع خور ہر چیز کی قیمتوں میں اضافہ کر دیں گے تاکہ عام بندے کی پہنچ سے دُور ہو جائیں۔ لیکن پھر وہی بات آجاتی ہے۔ کوئی آواز ہی نہیں اٹھاتا کیونکہ امیر کو ضرورت نہیں ہے۔ اور غریب کی کوئی سُنتا نہیں ہے۔ مرغی، بیسن، فروٹ آسمان سے باتیں کرنے لگیں گے۔ جو کسر رہ جاتی ہے عید پہ پوری کر لیں گے۔ اور جب بات آتی ہے کسی انصاف کی تو غداری کا لیبل لگ جاتا ہے۔ کہ پاکستان کے خلاف لکھتے ہو۔

یہ نظام پچھلے چالیس سالوں سے چلتا آرہا ہے ووٹ لینے کے لئے پر بار جھوٹ پہ مبنی ایک نیا نعرہ لایا جاتا ہے۔ جس سے اعوام کو کوئی فائدہ نہں ہوتا بس سب سیاسی ایک دوسرے پر الزام دے کر ووٹ لے لیتے ہیں۔ اور فائدہ اپنی نسلوں کا کرتے ہیں۔ رمضان کی اس مہنگائی کو روکنا ہم سب کا فرض ہے اس پہ ”می ٹو“ کیوں نہیں تاکہ عام بندہ بھی رمضان کے مہینے میں وہ سب کچھ خرید سکےجو امیر روز خریدتے ہیں۔ ہر مسلمان ملک رمضان میں کوشش کرتا ہے کہ ہر چیز عام آدمی تک باآسانی پہنچ سکے۔ مگر پاکستان میں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ روزوں میں افطاری پہنچ سے باہر ہوتی ہے۔ عید پہ اور کسر نکل جاتی ہے۔ جبکہ قربانی کے تو کیا کہنے عام لوگوں نےتو کرنی چھوڑ دی ہے۔ اگر مرغی کی جائز ہوتی تو شاید ہر بندہ کر سکتا ہوتا۔

الیکشن کی پھر رام کہانی شروع ہو جائے گی اور ہر جماعت اپنی ناکامی دوسری کے کھاتے ڈالنے کی کوشش کرے گی۔ اجکل تو یہ بھی ہوا چل رہی ہے جو سچی بات کرے وہ یا تو سازش کرہا ہے۔ یا پھر مغرب کے ایجنڈے پہ کام کررہا ہے۔ اتنا کہ کے اس کو خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ ایک گروپ مولوی اور ایک لبرل بن گئے لیکن عوام کے مسائل پہ نہ آواز اٹھاتے ہیں نہ پاکستان کی سالمیت پر بس ہر کسی کو اپنی سیاست چمکانی ہے۔ اپنے بندوں کو گولی مار کے غازی بن جاتے ہیں۔ وہ تو آسان ہوتا ہے ہاہر جاکر غازی بن کر جس دن آئیں گے تو غازی ہوں گے۔

ادھر لبرل پارٹی ہے جو نماز کی بات کرے اس کو اولڈ فیشن کہتے ہیں اور مجھے تو ویسے ہی بہن جی کہتے ہییں۔ اپنے دائرے میں رہ کر بانو قدسیہ جیسے لوگ بھی نام کما کے گئے ہیں۔ غریب بندے کو تو نیند نہیں آتی ہوگی جب سے مرغی کی قیمت سُنی ہوگی۔ ووٹ لینے والے خاموش ہیں کہ روزوں کے بعد الیکشن کے ٹائم پہ اس ایشو کو اٹھائیں گے۔ اللہ جنت دے دادا جی کا محاورہ یاد آگیا، پُترا اے ووٹاں آلے تے نوٹاں آلے کسے دے نہیں بنڑ دے۔ پر عوام نوں کملا ضرور بنڑا لیند ے نے (بیٹے یہ ووٹوں والے اور نوٹوں والے کسی کے نہیں بنتے مگر عوام کو ضرور پاگل بنا دیتے ہیں)۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).