بے وقت کے شعورنے دانائی چھین لی


احمد لقمان

\"luqman\"

میری یہ گزارشات کسی خاص واقعہ کے لئے نہیں بلکہ یہ اس سوچ کے لئے ہیں جس کی وجہ سے BNU جیسےواقعات رونما ہو تے ہیں۔

بظاہر عوامی شعور کو بیدار کرنے کی خاطر BNU والوں کا عورتوں کے استعمال کی ‘‘مخصوص اشیاء’’ کا لٹکانا ہی تھا کہ بعض مرد حضرات کا اپنی نوخیز عمر کی ’’کلف لگی شلوار’’ کو بھی آوایزاں کرنے کا دل مچلنے لگا۔ اس واقعہ کو سوشل میڈیا پر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا اور سوشل میڈیا کی سابق روایت کو بر قرار رکھا گیا۔ اگر ایک طرف سے ناشائستگی کا مظاہرہ کر کے انتہاء کی گئی تو دوسری طرف بھی اس کی مذمّت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گیا۔ معاشرہ کی یہ دونوں انتہائیں جزو لا ینفک بن چکی ہیں اور اعتدال اور میانہ روی کو یکسر چھوڑ دیا گیا ہے۔

 سوشل میڈیا کا یہ رجحان ہو چکا ہے کہ اختلاف رائے کی تمام حدود پار کر دی جائیں اور جب بھی اپنی مرضی کے خلاف کوئی بات سامنے آتی ہے تو گفتار کے غازی اور قوت عملیہ سے عاری افراد اسے کفر و اسلام کا آخری معرکہ خیال کرتے ہیں اور بازاری ،لچر اور نہایت نامناسب الفاظ کے ساتھ میدان کارزار میں اترتے ہیں اور اپنے حریف پر زبان کی توپ کے ساتھ بازاری لفّاظی کے گولے داغنا شروع کر دیتے ہیں۔ نئی نسل کو اپنے اندر تحمل اور برداشت جیسی صفات کو پیدا کرنا ہو گا اور اپنے مخالف کی رائے پر سنجیدگی سے غورکرنے کو اپنی عادت بنانا چاہیئے کہ یہی ایک حسین معاشرہ کا لازمی جزو ہے۔

BNU والوں نے اپنے انوکھے احتجاج میں جو سوالات اٹھائے ان میں سے بعض سوالات ایسے ہیں کہ ان پر سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے۔ فطری مسائل سے آگہی کا فقدان ہمارے معاشرے کا ایک اہم مسئلہ ہے اور اس صورت حال کی وجہ سےنوخیز عمر والوں کو کافی مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اور بعض اوقات یہ مسئلہ احساس محرومی پر جا کر منتج ہو تا ہے۔ اس مسئلے یا احسا س محرومی کی وجہ بعض گھروں کا وہ خاص ماحول ہوتا ہے جس میں بعض والدین اپنے بچوں کے مسائل پر گفتگو تو درکنار غور کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ بچوں کو جب گھر سے اپنےمسائل کا حل نہیں ملتا تو انہیں مجبوراً معاشرے کا رخ کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کے بہکنے کے خطرات زیادہ ہو جاتے ہیں. ایسے والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے گھروں میں دوستانہ ماحول رکھیں اور وہ اپنے بچوں کے اوّلین رازدار ہوں تا کہ بچے اپنے ہر طرح کے مسائل کا اظہار بلا خوف و خطر ان کے ساتھ کر سکیں۔ ماں کی جہاں ذمہ داری ہے کہ وہ فطری مسائل کے بارے میں اپنی بیٹیوں کو آگاہ کریں وہاں باپ کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کو ان کے مسائل سے آگاہ کریں۔

بچوں کی مناسب تربیت کے حوالہ سے موجودہ دور کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ والدین جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ والدین اور بچوں میں جنریشن گیپ ایک خطرناک صورتحال اختیار کر گیا ہے۔ دور حاضر کی تہذیب نے ایک نیا روپ دھار لیا ہے اور وہ زمانے گئے کہ جب ہر علاقہ کی ایک الگ اپنی تہذیب ہوا کرتی تھی۔ اب دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے اور ہزاروں کوس دور بیٹھا شخص سوشل میڈیا اور اسی طرح دیگر ایجادات کے ذریعہ اپنی عادات اور اطوار کے ساتھ اثر انداز ہو رہا ہے۔ والدین کو اپنے بچوں کی بہتر تربیت کے لئے موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو نا پڑے گا اور انہیں سادگی کے لبادوں سے باہر آنا ہوگا کہ دور حاضر کا تلاطم خیز طوفان ان کی اولاد کو کہیں بہا کر ہی نہ لے جائے۔ جدید ایجادات کے بے محابا استعمال اور میڈیا کے ذریعہ نوخیز نسل میں بے وقت کا شعور بیدار ہو چکا ہے جس میں حکمت اور دانائی عنقا ہوتی ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

پہلے تو بے مکان کیا انگڑائی چھین لی

پھر روشنیوں کے شہر نے میری بینائی چھین لی

بچے میرے عہد کے وحشت گزیدہ ہیں

بے وقت کے شعور نے دانائی چھین لی

ان حالات میں والدین کا اولین فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کے شعور کو دانائی بخشیں اور ہر قسم کے مسائل میں ان کی کونسلنگ کریں۔

بعض افراد کا یہ خیال ہے کہ فطری مسائل کے بارے میں حیا اور شرم کے پہلو سے ماورا ہو کر کھلم کھلا اظہار کرنا چاہئے کیونکہ ان مسائل کا سامنا ہر کس و ناکس کو کرنا پڑتا ہے اس لئے حمام میں سب ننگے کی مثال کے تحت ان مسائل کی تشہیر میں اخفاء کیسا؟ ایسے افراد کی خدمت میں گزارش ہے ایک ذی شعور انسان حمام کی چار دیواری میں ہی جا کر ننگا ہوتا ہے اور تخلیہ میں ہی اپنا ننگ ظاہر کرتا ہے۔ انسانی زندگی کے کئی ایسے امور ہیں کہ جو حکمت اور حجاب کے ساتھ ہی انجام پذیر ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کا یہ کہنا کہ مذہب نے فطری مسائل کے اظہار میں کسی شرم و حیا کو روا نہیں رکھا اور کھلم کھلا ان کا اظہار کیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مذہب نے اپنے پیروکاروں کو فطری مسائل کے حوالہ سے رہنمائی کی ہے مگر حکمت اور دانائی کے پہلو کو غالب رکھا ہے۔ قرآن کریم نے ان مسائل کو حکمت اور دانائی کے پردوں میں بیان کیا ہے۔ قرآن کریم ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ لہٰذا جہاں بھی ان مسائل کا اظہار مقصود ہو حکمت اور دانائی کے پہلو کو کسی صورت بھی ترک نہ کیا جائے کیونکہ یہ بات معاشرتی اقدار کی حفاظت کے لئے از حد ضروری ہے۔

فطری مسائل کی وجہ سے عورتوں سے نارواں اور ہتک آمیز سلوک کا کوئی بھی جواز ہمارا مذہب ہمیں فراہم کرتا ہے اور نہ ہی ہماری معاشرتی اقدار ایسے کسی سلوک کی اجازت ہمیں دیتی ہیں۔

ایسے افراد کہ جو کسی ‘‘مخصوص حالت ’’کی وجہ سے عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے قائل ہیں تو انہیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ احسن الخالقین نے اسی ’’مخصوص حالت’’ کے ذریعہ ہی اشرف المخلوقات کو پیدا کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments