عدالتی کمیشن ۔۔۔ کیا دھول بیٹھ جائے گی
وزیر اعظم نے پاکستان تحریک انصاف اور اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں کے اس مطالبے کو مان لینے کا فیصلہ کیا ہے کہ پاناما پیپرز میں سامنے آنے والی معلومات کی روشنی میں کمیشن قائم کرنے کے لئے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا جائے ۔ تاہم یہ بات غیر واضح ہے کہ اس کے بعد کیا اس سوال پر اٹھنے والی سیاسی دھول بیٹھ جائے گی۔
اگرچہ سپریم کورٹ یہ کہہ چکی ہے کہ اس قسم کی تحقیقات کرنا اس کے لئے ممکن نہیں ہے۔ اس عذر کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ سپریم کورٹ کے جج قانونی معاملات کے ماہر ہوتے ہیں اور وہ مالی پیچیدگیوں اور آف شور کمپنیوں کے ذریعے سرمایہ کاری کرنے اور اس سے متعلق طریقہ کار اور قانونی الجھنوں سے زیادہ آگاہی نہیں رکھتے اور سپریم کورٹ کے کسی بھی جج کو اس سلسلہ میں متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے پاس کام کا بوجھ زیادہ ہے۔ مقدمات کی سماعت میں برس ہا برس بیت جاتے ہیں، اس لئے یہ بات درست اورجائز ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس اپنا اصل کام چھوڑ کر ہر تیسرے روز ایک نئے معاملہ کی تحقیقات کا فرض ادا کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ تاہم حکومت کی طرف سے باقاعدہ درخواست موصول ہونے پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اس پر کمیشن مقرر کرنا ہوگا۔
اس کمیشن کی ٹرمز آف ریفرنس حکومت طے کرے گی۔ بلکہ گزشتہ چند روز کے دوران حکومت نے اس پر کام بھی کیا ہے اور اطلاعات کے مطابق یہ قواعد مرتب کر لئے گئے ہیں۔ لیکن ملک میں سیاسی تصادم اور بد اعتمادی کی موجودہ صورت حال میں اپوزیشن کی طرف سے ان ٹرمز آف ریفرنس پر بھی اعترااضات سامنے آئیں گے۔ کمیشن وجود میں آنے کے بعد اپوزیشن کی کوشش ہوگی کہ یہ صرف وزیر اعظم کے بیٹوں اور صاحبزادی کے معاملات پر کام کرے جبکہ حکومت چاہے گی کہ یہ کمیشن دو سو سے زائد ان سب پاکستانیوں کی مالی حیثیت ، اثاثوں اور ممکنہ بدعنوانی یا قانون شکنی کے بارے میں تحقیقات کرے جن کا نام پاناما پیپرز کے ذریعے سامنے آیا ہے۔ کمیشن قائم ہونے کے بعد ایک نیا ہنگامہ اور الزام تراشی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ جن لوگوں کی سیاست صرف الزام لگانے اور ہنگامہ برپا کرنے پر استوار ہے اور میڈیا کے جو عناصر صرف اسکینڈلز پر قیاس آرائیوں کے ذریعے ریٹنگ بڑھانے کے عادی ہو چکے ہیں، ان کی ہر ممکن کوشش ہوگی کہ ملک میں سنسنی پھیلی رہے اور سیاسی بحران کی کیفیت برقرار رہے۔
وزیر اعظم نے اگرچہ اپوزیشن کا مطالبہ مان کر احسن اقدام کیا ہے لیکن اسے ماننے میں دو ہفتے صرف کرکے، حکومت نے خود اپنی مشکلوں میں اضافہ کیا ہے۔ شک کی فضا گہری ہو چکی ہے اور کمیشن کی کارروائی پر ان شکوک و شبہات کے سائے موجود رہیں گے۔ دریں اثنا پاکستان کے عام شہری کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس معاملہ میں قانونی پہلوؤں کی بات کم اور سیاسی فائدہ نقصان کا عنصر زیادہ موجودہے۔ اس لئے نہ تو کمیشن کے لئے کام کرنا آسان ہو گا اور نہ ہی اس کی رپورٹ سے ہر فریق کی تشفی ہوگی۔
- عدلیہ کی آزادی اور ججوں کی سیاسی آرا - 28/03/2024
- عدلیہ کو زیادہ نقصان کون پہنچا رہا ہے؟ - 28/03/2024
- شہریوں کو فوجی عدالتوں کے حوالے نہ کیا جائے - 26/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).