انعام، جو ہم نے کھو دیا


رقص تخلیق کا اوج ہے ۔

رقص، جس کی بلند ترین سطح پر عمل اور عامل ایک ہوجاتے ہیں، رقص اور رقاص کی تفریق مٹ جاتی ہے۔ تخلیق اور تخلیق کار میں دوئی نہیں رہتی۔

یہی عمل ہمیں ہر تخلیقی صنف میں دکھائی دیتا ہے۔ ہم مائیکل اینجیلو کو ’’ڈیوڈ‘‘ میں ، ڈی ونچی کو ’’مونا لیزا‘‘ میں دیکھ سکتے ہیں۔ ’’تکبر و تعصب‘‘ میں ہمیں جین آسٹن دکھائی دیتی ہے، ’’تنہائی کے سو سال‘‘ میں مارکیز اور ’’سرخ میرا نام‘‘ میں اورحان پامک۔ ’’دل سے‘‘ میں ہم منی رتنم کو، اور’’ ڈنکرک‘‘ میں کرسٹفر نولن کودیکھتے ہیں ۔ یہ سب ہوتا کیسے ہے؟ کیسے فن پارہ اور فن کار ایک ہوجاتے ہیں؟ یہ مجھے انعام راجا نے سمجھایا تھا۔

وہ ایک عام سی عمارت کی دوسری منزل تھی۔ ایک آرٹسٹ کا کمرہ، جہاں بیٹھنے کی جگہ بنانے کے لیے کبھی کسی کینوس کو ہٹایا جاتا، کبھی رنگ کے ڈبے اور برش کھسکائے جاتے۔ کمرہ، جس سے ایک نابغہ روزگار آرٹسٹ کی زندگی کا بکھراؤ اور اس بکھراؤ میں سانس لیتی ترتیب جھلکتی تھی۔

اس کے فن پارے دیواروں سے ٹیک لگائے ہمیں دیکھ رہے تھے ۔ بیش تر کا محور عورت ، بیش تر نیوڈ ، بیش تر اپنی مثال آپ۔ انعام جیسا کوئی نہیں تھا۔ وہ لکیر، جو اس کے ہاں دکھائی دیتی، عورت کے جسمانی خدوخال کو منظر کرنے کی قابلیت اور اس شکستگی کے باوجود جو اُس کے فن پاروں کا جزو تھی، امیج کے نشیب و فراز کی پراسراریت قائم رکھنا۔۔۔یہ تھا اس کا کمال۔ ’’سب رنگ‘‘ کے لیے بنائے گئے، اُس کے سیکڑوں اسکیچز، سانس لیتے، زندہ اسکیچز، وہ پین اینڈ انک میں رنگ پیدا کر دینا، یہ تھا اس کا کمال ۔

تو یہ انعام راجا تھا، جسے مرحوم کہتے ہوئے دکھ سے قبل حیرت ہوتی ہے، جس نے مجھے بتایا کہ ایک سطح پر پہنچ کر پینٹنگ آرٹسٹ کو پینٹ کرنے لگتی ہے۔ ایک سطح پر کہانی، فکشن نگار کو لکھنے لگتی ہے، ایک سطح پر سنگ، سنگ تراش کو تراشنے لگتا ہے۔

خلیل جبران نے کہا تھا ’’ سچا کلاکار کبھی بھیڑ کے ساتھ نہیں چلتا‘‘ انعام بھی ڈگر سے ہٹ کر چلنے والوں میں سے تھا۔ گوشہ نشین۔ اوقات کار بھی انوکھے۔ جب سب آرام کرتے، وہ کام میں مصروف ہوتا اور جب پنچھی جاگتے، وہ خاموشی سے بستر میں چلا جاتا۔ زندگی چھوڑنے کے لیے بھی اُسی نے ایسا ہی وقت چنا۔

بٹھل اور بابر زمان

انعام دو عشروں تک ’’سب رنگ‘‘ کو اپنے اسکیچز سے سجاتا رہا۔ رنگوں کی دنیا میں فطری حسن کے دل دادہ اس مصور نے اپنے من پسند موضوع، یعنی عورت کو فطری حالت میں پینٹ کیا اور عورت کے ساتھ ایک بھینسا۔ طاقت اور جبر کی علامت۔ اس کا فن پارہ ہشت پہلو ہوتا۔ دیوار پر آویزاں ہونے کے بعد دیوار نہ بنتا۔ پیاز کے چھلکوں کی طرح معنی کی ایک کے بعد ایک پرت کھلتی جاتی۔ سچ تو یہ ہے کہ انعام راجا کے فن پارے آرٹسٹ کے دستخط کے محتاج نہ تھے ۔ فن پارہ خود مصور کا پتا دیتا ۔یہ بڑا المیہ ہے کہ اس کا فن ایگزیبیشنز کی صورت سامنے نہیں آیا، اگر انٹرنیٹ نہ ہوتا، فیس بک نامی بین الاقوامی گیلری نہ ہوتی، توشاید ہم اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گم کر چکے ہوتے۔

انعام کا پورا نام انعام الحق صدیقی تھا۔ خاندان نے دہلی سے ہجرت کی، تو کراچی میں ڈیرا ڈالا۔ یہیں 20جولائی 1956 کو اس نے آنکھ کھولی۔ 71ء کا سانحہ پہلا تلخ تجربہ تھا، جس نے گہرا اثر چھوڑا۔ اوائل عمری میں کتابیں اٹھا لیں۔ میٹرک تک کرشن چندر، منٹو اور رام لال کو پڑھ ڈالا۔ ’’آگ کا دریا‘‘ بھی نمٹا لیا، پھر ابن صفی نے گرویدہ بنایا۔ مطالعے نے یاروں کو کہانیاں سْنانے پر اکسایا۔ گریجویشن کے زمانے میں والد کے انتقال کا کرب سہا۔ جامعہ کراچی میں ڈاکٹر جمیل اختر خان، ڈاکٹر ابوالخیرکشفی اور پروفیسر سحر انصاری جیسے اساتذہ میسر آئے، مگر ماسٹرز کی بیل منڈھے نہ چڑھی۔

تیسری جماعت میں پہلی بار ڈرائنگ کا سودا سر میں سمایا۔ اگلے برس تک کلاس روم کی دیواریں انعام کی ڈرائنگ اور اسکیچز سے سج چکی تھیں۔ آٹھویں میں تھا، جب اسکول کی ایک نمایش میں پہلا انعام اپنے نام کیا۔ راہ زیست کا تعین ہوچکا تھا۔ جلد وہ رنگوں کو، رنگ اسے سمجھنے لگے۔

انٹرکے زمانے میں ہمارا انعام ’عوامی ڈائجسٹ‘ سے بہ طور آرٹسٹ ڈیڑھ سو روپے ماہوار پر وابستہ ہوگیا۔ ایک برس بعد سہام مرزا کے پرچے ’’سورج‘‘ کا رخ کیا۔ ’دوشیزہ‘ کے لیے بھی کام کیا۔ سرور سکھیرا کی پیش کش پر ’’دھنک‘‘ کا حصہ بنا۔ اگلی منزل ’سب رنگ‘ ڈائجسٹ، جہاں کھل کر کام کیا۔ ’سب رنگ‘ ہی میں پہلی بار انعام راجا کے نام سے فن پاروں پر دست خط کیے۔ نیا افق اور حریت کے لیے بھی جم کر کام کیا۔

شناخت کمرشل آرٹ میں بنائی، مگر اصل نام اس کام میں کمایا، جو اپنی ذات کے لیے کیا۔ نیوڈ آرٹ کو اپنے منفرد اسلوب کے ساتھ کینوس پر اتارنا شروع کیا، تو لوگ چونک اٹھے اور آس پاس کے لوگوں کو چونکانے کا یہ سلسلہ انعام راجا نے 30 اپریل 2018 کی صبح تک جاری رکھا۔ آخری بار ہم انعام کی موت کی خبر سن کر چونکے۔

انعام کو خبر تھی کہ ادھر کاروباری مزاج رکھنے والا ہی کامیاب ہے، مگر اس کا مزاج ایسا نہ تھا۔ آرٹ گیلریز کے مالکان سے ڈھیروں شکایات تھیں۔ کہا کرتا تھا، عہد ضیاء نے فنون لطیفہ کو نگل لیا۔ ناقدین کی زیادہ پروا نہیں تھی۔ بہ قول اس کے، ’بیوروکریٹس، جن کی انگریزی اچھی ہے، ہمارے ہاں آرٹ کریٹک بن گئے۔ اگر ہمارے ادھر حقیقی آرٹ کریٹک ہوتے، تو پاکستانی فن کاروں کو بین الاقوامی سطح پر پہچانا جاتا۔‘‘

آرٹ اس کے نزدیک زندگی کو خوبصورت بنانے کا نام تھا۔ اس کا فن Expressionism (اظہاریت) کے نزدیک تھا۔ تجریدی اور علامتی آہنگ ملتا تھا۔گو سفر کا آغاز ’’رئیل ازم‘‘ سے کیا تھا۔ کہا کرتا تھا،’’پہلے آپ آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ پھر دل میں محسوس کرتے ہیں۔ اس کے بعد آپ اس احساس کو اپنے ہاتھوں سے کینوس پر منتقل کرتے ہیں۔ یہ پینٹنگ اس منظر سے مختلف ہوتی ہے، جو آپ نے دیکھا ہوتا ہے، اگر آپ ایک فوٹو گراف کو بھی کینوس پر منتقل کر رہے ہیں، تب بھی وہ آپ میں سے گزر کر آتا ہے۔‘‘ یہ بات میں ایک فکشن نگار کے طور پرسمجھ سکتا ہوں کہ جو کچھ ہم لکھتے ہیں، وہ، ہماری تمام تر خواہش کے باوجود، وہ حقیقت نہیں ہوتی، جو ہم نے جی ہوتی ہے، بلکہ یہ اس سے مماثل حقیقت ہوتی ہے۔

انعام کو مصوری کے ساتھ فوٹو گرافی کا بھی شوق رہا۔ ایک ملاقات میں، اپنے فلیٹ کی سیڑھوں پر، کھڑکی کے سامنے اس نے مجھے بھی’’ شوٹ‘‘ کیا۔ انعام کا چھوٹا بھائی عمران زیب بھی زبردست آرٹسٹ ہے۔ اب عمران تنہا ہے، اپنے استاد، اپنے بھائی کے بنا۔ اور میں اس کے فیس بک اسٹیٹس پڑھ کر اداسی کو خود میں گہرا اترتا محسوس کرتا ہوں کہ وہ جو مدھو بالا اور دلیپ کمار کا معترف تھا، جو ہارمونیم کی ٹریننگ لے چکا تھا، جس کے دل کے تار برسات میں بجنے لگتے، جو غالب ، منٹو اور کرشن چندر کا دل دادہ تھا۔ پکاسو اور چغتائی کو سراہتا تھا، چلا گیا۔۔۔بہت دور چلا گیا ہے۔

انعام کا کام میوزیم میں آویزاں ہونے کی شے ہے کہ وہ برسوں پر محیط ہے ، بیش قیمت ہے اور جتنا بیش قیمت ہے، اتنا اس کے ضایع ہونے کا خدشہ ہے۔

اور یہ بات مجھے پریشان رکھتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).