اسلامی نظریاتی کونسل اور ماروی میمن


\"shozabپاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں زچگی کے وقت شرح اموات بہت زیادہ ہے۔ وطن عزیز میں جنم لینے والے ہر ایک ہزار بچے میں چالیس بچے وفات پا جاتے ہیں اورا سی طرح جنم دیتے ہوئے ماو¿ں کی شرح اموات بھی بہت زیادہ ہے۔ جہاں اس انسانی المیے کی وجہ صحت کی ناقص صورتحال اور حکومتی عدم توجہی ہے وہیں بچیوں کی کم عمری کی شادی بھی اس مسئلے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

عموماََ پاکستانی عوام ثقافتی طور پر برصغیر کی اس روایت کے پیرو ہیں کہ جہاں بچوں کی جلد شادیاں خصوصا بیٹیوں کی جلد شادیاں کردینا باعث عزت سمجھا جاتا ہے کیونکہ سماجی طور پر آج بھی بہت سے علاقوں اور گھرانوں میں بیٹیاں باعث شرم سمجھی جاتی ہیں لہذا ایسی جہالت کے خلاف آواز بلند کرنے پر بہت سی قدغن لگا دیں جاتی ہیں۔ نام نہاد علاقائی روایات اور خاندانی رواج کے ساتھ ساتھ اس رویے کی قبولیت اور اس سے وابستہ مصنوعی عظمت کی جڑیں مذہب میں بھی پیوست کر دی گئی ہیں اور اس طرح سے یہ فعل بجائے برائی ہونے کے اچھائی بن چکا ہے۔ اب ہر وہ آواز جو بہتر سماجی تشکیل اور مثبت معاشرتی ترتیب کے لئے اس رویے کی حوصلہ شکنی کے لئے بلند ہوتی ہے اسے خلاف مذہب و شریعت قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ جس کی تازہ ترین مثال قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی خاتون رکن اسمبلی ماروی میمن کی جانب سے جمع کرائی جانے والی اس ترامیمی قرارداد کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کی جانب سے مخالفت ہے کہ جس میں کہا گیا تھا کہ 1929 میں بنائے گئے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ میں کہ جس کے مطابق کم عمری کی شادی جرم ہے اور مجرم کے لئے اس پر ایک مہینہ سزائے قید او رایک ہزار روپے جرمانہ ہے۔ اس جرم کے سزا و جرمانے میں اضافہ کرکے قید کی سزا کو دو سال تک بڑھایا جائے اور جرمانے کو ایک لاکھ روپے تک کر دیا جائے اور اس پر عملدرآمد میں سختی لائی جائے تاکہ کم عمری کی شادیوں کو روکاجا سکے جو زچگی کے دوران شرح اموات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور میں شامل اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین نے اس قرارداد کو یہ کہتے ہوئے غیر اسلامی قرار دیا ہے کہ اسلام میں بچیوں کی شادی کے لئے عمر کی کوئی قید مقرر نہیں کی گئی اور یہ کہ 1929 کا ایکٹ بھی غیر اسلامی ہے اور ہم تو اس کو بھی کالعدم قراردیا جانا چاہتے ہیں چہ جائیکہ اس جرم کی سزا کو سخت بنایا جائے کیونکہ اس قانون کے مطابق لڑکی کے لئے شادی کی کم ازکم عمر 16 سال اور لڑکے کے لئے شادی عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے۔

علمائے کرام کی طرف سے یہ اعتراض لگایا گیا کہ چونکہ بچیوں کی کم عمری کی شادی کی مثالیں عہد نبوی میں موجود ہیں اور اس پر آپ ﷺ نے کبھی اعتراض نہیں فرمایا۔ اور اسلام میں شادی کے لئے بلوغت کی شرط پہلے سے ہی موجود ہے لہذا کسی ایسے قانون کو لانا جس میں شادی کے لئے بلوغت کے علاوہ کسی اور امر شرط قرار دیا گیا ہو یہ ناصرف غیر اسلامی ہوگا بلکہ اس سے توہین رسالت کا پہلو ظاہر ہوگا۔

اس اعتراض پر رکن اسمبلی ماروی میمن خاموش ہوگئیں اور انہوں نے اپنی قرارد اد یہ کہتے ہوئے واپس لے لی کہ توہین رسالت جیسے نازک معاملے کے سامنے آجانے کے بعد اب اس مسئلے پہ بات کرنا بے معنی ہوگیا ہے۔ یہ سب صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ موجودہ پاکستانی معاشرے اور ریاست کو پیش آنے والے مسائل کی مد میں جو ادارہ براہ راست عوامی نمائندگی کے ساتھ قانون سازی کا ذمہ دار ہے اور جس کی موجودگی سے جمہور کی فلاح وابستہ ہے وہ علمائے کرام کے ایسے گروہ کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے جو بجائے جدید زمانے میں پیش آنے والے انسانی مسائل کے حل کے لئے شریعت میں اجتہادی فکر سے رہنمائی لیتے ہوئے کوئی تجاویز سامنے لے کر آنے کے ، ابھی تک چودہ سو سال پرانے عرب کے معاشرتی نظام کی ایسی روایات کو بھی گلے لگائے رکھنے پر مصر ہیں جو واضح طور پر انسانی صحت اور اس کی بقا کے لئے مضر ہیں۔ موجودہ جدید زمانے میں علم و حکمت کی ترقی کے بعد ایسی ہزاروں ایجادات اور آسائشیں وجود پا چکی ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں موجود نہیں تھیں۔ بہت سے قوانین آپﷺ کے بعد وضع کئے گئے ہیں کیونکہ وہ آپﷺ کی حیات مبارک کے بعد پیش آنے والے مسائل کے حل کے لئے تھے۔

میرے ناقص فہم کے مطابق دین میں ایسی سختی کی کوئی گنجائش نہیں جہاں ایک معصوم انسانی جان کے بچانے کے لئے کوئی قانون وضع کرنا ہو تو اس سے خدانخواستہ توہین رسالت کا معاملہ سامنے آ جائے۔ یہ سراسر دین میں جبر لاتے ہوئے اپنے اس اجتہادی فریضے سے فرار ہے جس کے لئے ریاست نے ان علمائے کرام کو مقرر کیا ہے ۔ ان کا فریضہ ہے کہ یہ دین فہمی کے سبب عوامی نمائندوں کی معاونت کر سکیں یہ نہیں کہ شریعت کی تلوار ہاتھ میں تھامے ہوئے یہ لوگ جس بھی حساس مسئلے کو چاہیں اسے متنازع بنا دیں۔

(پس نوشت۔ حجرہ شاہ مقیم میں پیش آنے والے واقعے کہ جس میں ایک مولوی صاحب کی غیر ضروری جذباتیت کی زد میں بہہ کر ایک بچے نے اپنا ایک ہاتھ کاٹ لیا کیونکہ مولوی صاحب کی دانست میں اس بچے کا ایک ہاتھ توہین رسالت کا مرتکب ہوا تھا، سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ توہین رسالت کس قدر نازک معاملہ ہے اور اس معاملے پر کیا نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ مگر اب قانون حرکت میں آیا ہے اور وہ مولوی صاحب نقص امن اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت گرفتار ہوئے ہیں۔ اب اسی کہانی کے کرداروں میں اس قدر تبدیلی کیجئے کہ ان مولوی صاحب کی جگہ پر نظریاتی کونسل کے علمائے کرام کو رکھ لیجئے اور اس بچے کی جگہ پر رکن قومی اسمبلی ماروی میمن صاحبہ کو۔ جو بھی نتیجہ آپ کے ضمیر کے سامنے آئے وہی آپ کے لئے حق ہے ۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments