دِلی کے لکھاری مالک اُشتر کے نام !


ہم سب کے پڑھنے والوں کے لیے ہمارے ہندوستانی بھائی مالک اُشتر کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ اکثر و بیشتر مسلمانوں کی علمی و فکری پستی پر کڑھتے رہتے ہیں جس سے اتفاق کیے بنا چارہ نہیں۔ ان کا طنزیہ اسلوب ہم جیسے مزاج رکھنے والے بندے کے چہرے پر مسکراہٹ اور ذہن میں سوچ ضرور پیدا کرتا رہتا ہے۔

اب آتے ہیں برادرم مالک اُشتر کے مضامین کی طرف تو مالک بھائی اُمید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ آپ کے مضامین پڑھنے کا اکثر اتفاق ہوتا رہتا ہے ، باقی آپ کی تصویر بھی اس قدر پُرکشش ہے کہ کہ چہرے سے ہی آپ کا ذوق بیان ہوجاتا ہے۔ میں چونکہ کسی مدرسے کا پڑھا لکھا نہیں ہوں دوسرے انگریزی اداروں میں طالب علم رہا ہوں، اس لیے آسان اُردو لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں اُمید ہے آپ بھی آسانی سے سمجھیں گے ویسے بھی مشکل اُردو ہمارے اپنے بس میں بھی نہیں رہی۔

آپ کے مضامین میں مسلمانوں کی فکری پستی پر مُجھے بھی اتفاق ہوتا ہے اور باقیوں کو بھی ہوتا ہوگا شاید۔ باقی مُجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو مسلمانوں کی فِکر کم ہی ہوتی ہے جبکہ پاکستانی مسلمانوں کی فِکر بہت ہی زیادہ لاحق ہے۔ یہ اچھا لگتا ہے کہ ہمسایہ ملک کے حالات پر اتنا ہی فکر مند رہتے ہیں جتنا ہمارے ہاں کے لوگ بالی ووڈ مووی کی ریلز کا انتطار کرتے ہیں۔

مالک اُشتر بھائی کتنا ہی اچھا ہوتا کہ آپ جتنی فکر اور غم ہمسایہ ملک کے مسلمانوں بارے رکھتے ہیں اتنا بھارت اور بھارت کے زیرانتطام کشمیر کے مسلمانوں کی جان ، مال اور عزت کی بھی رکھتے تو کتنا اچھا ہوتا۔

آپ کا اہم موضوع پاکستانی قوم، مولوی اور مدرسے کے ارد گرد ہی گھومتا رہتا ہے، کبھی کبھار موضوع سے ہٹنے کی کوشش تو کرتے ہین لیکن سوئی 90 کے زاویے کے بعد وہیں پہنچتی ہے۔

میشا شفیع اور علی ظفر کے ایک فضول سے ایشو پر تو آپ نے مضمون لکھ دیا مگر کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر سکوت اختیار کیے رکھا۔

پاکستانی شہر قصور میں معصوم زینب والے واقعے پر آپ نے اس درندے مجرم کے مذہب کو ڈسکس کیا مگر حال ہی میں اس سے بڑا واقعہ کشمیر کی معصوم آصفہ کے ساتھ ہوا نہ تو آپ نے مذمتی مضمون لکھا نہ ان درندوں کے مذہب کو ڈسکس کیا۔

3 جنوری 2018 کو بھارت کی مشرقی ریاست جھارکھنڈ میں ایک نوجوان مسلمان وسیم انصاری کو اس لیے بے دردی سے مار ڈالا فقط اس نے موسیقی کی آواز کم کرنے کا کہا لیکن آپ نے ہندوستان کے مولویوں کے بارے میں ایک فضول قسم کا مضمون لکھ دیا۔۔۔

16 جنوری کو بی بی سی نے نازیہ ارم کی ریسرچ رپورٹ شئیر کی کہ بھارت کے بڑے سکولوں میں مسلمان بچوں کو دہشت گرد کہہ کر تعصب سے تنگ کیا جاتا ہے لیکن آپ کا موضوع تب بھی پاکستان رہا یا مولوی۔

پاکستان میں مسلکی اختلافات تو آپ کی نظر سے گزر جاتے ہیں مگر بھارت کے مسلمانوں کو کبھی پاکستانی کہا جاتا ہے ،کبھی زود کوب کیا جاتا ہے ، اُس بارے بالکل لکھنے میں وقت نہیں نکالا آپ نے۔۔۔۔۔۔

ہم نے تو ویڈیوز دیکھیں۔ بی بی سی نے خبر دی کہ بھارت میں مسلمانوں کے مارنے کے لیے ہندو انتہاپسند رقم اکٹھی کرتے نظر آئے لیکن آپ سوتے رہے۔

اب بھی بی بی سی نے خبر دی ہے کہ مسلمانوں کو نہ تو مسجد بنانے کی اجازت ملتی ہے اور نہ اُنہیں کھلے مقام پر نماز ادا کرنے کی لیکن فی الحال آپ کا قلم قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ فزکس کے نام پر اٹکا ہوا ہے۔۔۔۔

مالک اُشتر بھائی مولوی اور مدرسے سے آپ کا لگاؤ اپنی جگہ لیکن اپنے قلم سے انصاف کریں ، اپنے ‘دیش’ میں رہنے والی ‘مسلمان جنتا’ کے بارے بھی اپنے قلم کی جنبش کو استعمال میں لائیں اور کشمیر کے انسانوں پر ہونے والے ظلم پر بھی لکھیں تو کچھ حق ادا ہوگا۔ یقین مانیں پاکستان میں رہنے والے لوگ چھوٹے چھوٹے مسائل کے علاوہ بالکل ٹھیک ہیں اور آپ نے رپورٹ بھی پڑھی ہوگی کہ ایشیاء میں خوش رہنے والی قوموں میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے۔۔۔۔اُمید ہے حالات مزید بہتر ہوں گے۔۔۔۔۔سلامت رہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).