کاش یہ قوم ماں کا تحفظ کرنا سیکھ جائے


جب میں چھوٹی سی بچی تھی تو ہمیشہ بزرگوں ایک نصیحت کیا کرتے تھے، بزرگوں کی وہ نصیحت اس وقت سمجھ میں نہیں آتی، ان کی نصیحت پر مسکرادیا کرتی تھی، بڑے بزرگ کہا کرتے تھے کہ ماں کو ہر روز ایک بار محبت سے لبریز نگاہ سے دیکھ لینا چاہیے، اس سے ایک حج کے برابر ثواب ملتا ہے۔ آج جب سوچتی ہوں تو دماغ میں ایک خیال سا آتا ہے کہ بزرگوں کی نصیحت کتنی اہم ہے۔ اس خوبصورت کائنات کے تخلیقی خالق نے انسان کو اس زمین پر بہت سارے خوبصورت رشتوں سے نواز ہے، انسان کو عطا کیا گیا ہر رشتہ خوبصورت، معصوم اور دلکش ہے۔ باپ کا رشتہ اس قدر خوبصورتی سے مزین ہے کہ جب باپ مسکراہٹ سے بیٹی یا بیٹے کی طرف نگاہ کرتا ہے تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔

انسانیت کے لئے اس زمین پر سب سے خوبصورت رشتہ ماں کا ہے، وہ ماں جو انسان کی تخلیق کا سبب ہے۔ انسان کے لئے اس زمین پر سب سے خوبصورت، حسین اور عظیم رشتہ ماں کا ہے، وہ ماں جو نو ماہ تک بچے کو اپنی کوکھ میں رکھتی ہے، بچے نے اس دنیا کو نہیں دیکھا ہوتا، لیکن ماں کی محبت کے معصوم احساس کی وجہ سے بچہ دنیا سے اپنا ایک لاشعوری تعلق پیدا کر لیتا ہے، ماں نو ماہ تک بچے کے بارے میں سوچتی رہتی ہے کہ وہ کیسا ہوگا، وہ کس قدر حسین اور دلکش ہوگا، وہ کتنا معصوم ہوگا، وہ کھلتے گلاب جیسا ہوگا، ماں اس گلاب کی خوشبو سے معطر رہتی ہے، اسی دوران وہ گھر کے کام بھی کرتی رہتی ہے، وہ آفس بھی جاتی ہے، وہ دنیاوی مشکلات بھی برداشت کرتی ہے، وہ اپنا بھی صرف اس لئے خیال رکھتی ہے کہ کہیں اس کے بچے کو تکلیف نہ ہو، وہ حمل کے دوران موٹی اور بھدی ہوجاتی ہے، مگر اسے اس بات کی بھی فکر نہیں ہوتی، اس کی سوچ کا محور وہ حسین پھول ہوتا ہے جو ابھی اس کے پیٹ میں ہے اور تخلیق کے مراحل سے گزر رہا ہے۔

بچہ ماں کی کوکھ میں ہے، اس مرحلے کے دوران وہ شوہر کے حقوق کا خیال بھی رکھ رہی ہوتی ہے، چاہے شوہر کو اس کی تکلیف کا اندازہ ہو یا نہ ہو، وہ درد سہتی ہے، یہ درد اسے حسین تحفے جیسا محسوس ہوتا ہے، ان نو ماہ کے دوران اس میں بہت ساری جسمانی تبدیلیاں آتی ہیں، بچے کی پیدائش کے آخری دنوں میں اس میں چڑچڑا پن آجاتا ہے، اس کے باوجود وہ یہ خیال رکھتی ہے کہ کہیں اس کے اس رویئے اور پریشانی سے بچہ کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے، ان تمام تکالیف کے بعد وہ اس حسین زمین پر ایک نئے اور دلفریب پھول کو جنم دیتی ہے۔ یہ لمحہ ماں کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہے، لیکن یہی وہ لمحہ ہے جب بچہ پیدا ہوجاتا ہے تو اس کی خوشی اور مسرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا، وہ اپنا سار درد اور تکلیف بھول جاتی ہے، بچے کی پیدائش کے بعد جب وہ پہلی نظر اس پر ڈالتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خدا انسان کے بچے کو دیکھ کر خوش ہورہا ہو، بچہ بھی ماں کی پہلی نظر کا منتظر ہوتا ہے، ماں کو دیکھتے ہی وہ دنیا کی سب سے خوبصورت مسکراہٹ بکھیرتا ہے اور ساری کائنات کھکھلا اٹھتی ہے۔

ماں بچے کی پیدائش کے بعد جو احساس محسوس کرتی ہے، وہ احساس اس دنیا کی زندگی ہے، بچے کے ساتھ ماں کی شرارتیں، اس کا مسکرانا اور ماں کا کھلکھلانا، اس کا رونا اور ماں کا اسے فوری دودھ سے نوازنا، معصوم سے بچے کی آنکھوں، کانوں، ٹانگوں اور ہونٹوں کو جب ماں چومتی ہے، تو پہلی دفعہ وہ عورت ہونے پر فخر کرتی ہے، وہ کہتی ہے دیکھو میں نے کیسی زندگی تخلیق کی ہے، اس کی یہ ادا دنیا کے لئے یہ پیغام ہوتی ہے کہ وہ ایک حقیقی تخلیق کار ہے۔ ماں اپنی تخلیق سے دنیا کو جنت بنا دیتی ہے، اس لئے تو کہتے ہیں کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ بچے اور ماں کا رشتہ اس کائنات کا حقیقی حسن ہے، لیکن اگر اسی دوران بچہ یاماں میں سے کوئی ایک زندگی موت میں بدل جائے تو پھر یہ جنت جیسی دنیا دوزخ کا منظر پیش کرنے لگتی ہے۔

کچھ روز پہلے ماں کا عالمی دن منایا گیا، ہم میں سے لاکھوں انسانوں نے سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ کی شکل میں ماں کو خراج تحسین پیش کیا، بہت سارے انسانوں نے ماؤں کی تصاویر فیس بک، ٹوئیٹر اور انسٹاگرام پر شئیر کی، خوبصورت سٹیٹس ڈالے گئے، کسی نے کہا ماں تجھے سلام، کسی نے کہا ماں آپ نہ ہوتی تو یہ زندگی کتنی بدشکل ہوتی، ماں میں تیرے سبب اس کائنات کا حصہ بنا، اس لئے آپ میری زندگی ہو۔ تمام نیوز چینلز پر ماں کے حوالے سے نیوز پیکجز چلائے گئے، تمام اخبارت میں مضامین شائع کیے گئے۔ پھر یہ ہوا کہ ماں کا عالمی دن ختم ہو گیا، ہیش ٹیگ بدل گئے، صورتحال تبدیل ہو گئی اور ہم انسان ماں کو بھول کر کسی اور طرف نکل گئے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ زچگی کے دوران اس ملک میں کتنے بچے ماؤں کے لمس سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان نومولود بچوں کی اموات کی فہرست میں دنیا میں سب سے زیادہ خطرناک ملک ہے۔ اس فہرست میں شامل دس بدترین ممالک میں سے دو جنوبی ایشیا اور آٹھ افریقی ملک ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق دنیا میں پاکستان، افغانستان اور سنٹرل افریقہ ریپبلک وہ تین ممالک ہیں جہاں نوزائیدہ بچوں کے زندہ رہنے کے امکانات سب سے کم ہوتے ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر ایک ہزار میں سے 46 بچے پیدائش کے ایک ماہ کے اندر ہی ہلاک ہوجاتے ہیں۔ 2016 میں پاکستان میں ایک برس کے دوران دو لاکھ 48 ہزار نومولود بچے موت کی وادی میں چلے گئے۔ 2017 کی رپورٹ کے مطابق سالانہ 19 ہزار مائیں اور 52 فیصد بچے موت کا شکار ہوتے ہیں 2018 کو رپورٹ کی بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر 22 میں سے ایک نوزائیدہ بچہ مختلف وجوہات کی بنا پر مر جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں روزانہ 7 ہزار اور ہر سال 26 لاکھ نومولود بچے ایک ماہ کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی موت کی وادی میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں طبی سہولیات میں بہتری کی کوششیں ہورہی ہیں لیکن اس کے باوجود بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان نومولود بچوں کی شرح اموات میں سر فہرست ہے۔

دنیا بھر اور خاص کر کے پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی مختلف وجوہات ہیں، جن میں اسپتالوں میں آلات کی کمی، ناقص انتظامات، تجربہ کار طبی عملے کا نہ ہونا، ناقص خوراک کا استعمال، اور ان سب سے بڑھ کر حاملہ عورتوں پر شدید ذہنی دباؤ کا پیدا ہونا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ حمل کے دوران ایک خاتون کتنی خطرناک پیچیدگیوں سے گزرتی ہے، اس کے باوجود اس سماج میں حاملہ خاتون کو جان بوجھ کر درد اور تکلیف دی جاتی ہے، جس سماج کا ہم حصہ ہیں، وہاں تو ایسی جاہلانہ روایات ہیں کہ خدا کی پناہ، حمل کے دوران ہی اسے کہا جاتا ہے کہ بیٹا پیدا نہ ہوا تو تمہارے لئے برا ہوگا، اسے خوف میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ کم از کم مغربی معاشرت میں خواتین اس طرح کی تکالیف سے تو نہیں گزرتی، انہیں معلوم ہوتا ہے کہ بچہ پیدا ہو یا بچی، اچھے انداز میں اس کا استقبال ہوگا، یہاں تو ایسے سماج بھی ہیں جہاں بیٹی پیدا ہو تو سوگ کی کیفیت کا سماں ہوتا ہے۔

یہ ساری باتیں کرنے کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں آگاہی پروگرام ترتیب دیے جائیں، ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ طبی امدادی سہولیات میں اضافہ کریں تاکہ زچگی کے مرحلے کے دوران ماؤں کی اموات کم سے کم ہو۔ سرکاری اسپتالوں میں حاملہ خواتین کے لئے خصوصی انتظامات کیے جائیں تاکہ وہ کم سے کم تکلیف کا شکار ہوں۔ ڈاکٹروں کو اپنا رویہ حاملہ خواتین سے بہتر کرنے کی ضروت ہے، ڈاکٹروں کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ بھی کسی نہ کسی کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں۔ یہ کیا معاشرہ ہے جہاں مائیں وی وی آئی پی پروٹوکول کی وجہ سے رکشوں میں بچوں کو جن دیتی ہیں، یہ کیا معاشرہ ہے جہاں ایمرجنسی کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے مائیں اور بچے سڑکوں پر دم توڑ دیتے ہیں۔

صحت مند معاشرہ تب پیدا ہوگا جب ماں تندرست و توانا ہو گی، اس کا خیال رکھا جائے گا، اس سے محبت کی جائے گی۔ وہ ماں جو زندگی کی تخلیق کا سبب ہے، وہ ہمارے معاشرے میں تکلیف دہ موت سے دوچار ہورہی ہے، لیکن کیا کبھی ہمارے معاشرے اور سماج میں اس حوالے سے سنجیدہ پالیسی ترتیب دی گئی، کیا کبھی اس ایشو پر ٹی وی ٹاک شوز ہوتے ہیں، کیا نیوز چینلز میں اس حوالے سے اشتہار چلتے ہیں۔ ایک ماں جب زچگی کے دوران سماج کی فرسودہ روایات یا طبی امداد بروقت نہ پہنچنے کی وجہ سے مر جاتی ہے تو اس کے ساتھ وہ بچہ بھی موت کی وادی میں پہنچ جاتا ہے جس نے ابھی دنیا دیکھنی تھی۔ جن معاشروں میں خواتین کا تحفظ ہوتا ہے، اس طرح کی صورتحال میں ان کا خیال رکھا جاتا ہے، وہ معاشرہ حقیقی انسانی معاشرہ ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس حقیقی انسانی معاشرے کا حصہ ہیں؟ ماں، کیا تعریف کروں میں اس لفظ کی، شاید ایسے الفاظ ہی نہیں ‌بنے جو اس لفظ کی اہمیت کو بیان کر سکے دُنیا کو اگر کبھی تولنا ہو تو اُس کے مقابلے میں ماں ‌کو دوسری طرف رکھ دو۔

ماں جنت کو جاننے، ماننے اور حاصل کرنے کا ایک حقیقی اور سچا راستہ ہے۔ ماں، جس کا احساس انسان کی آخری سانس تک چلتا رہتا ہے۔ ماں، ایک ایسا پھول ہے جس کی مہک کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ماں، ایک سمندر ہے جس کا پانی اپنی سطح سے بڑھ تو سکتا ہے مگر کبھی کم نہین ہو سکتا۔ ماں، ایک ایسی دولت جس کو پانے کے بعد انسان مغرور ہو جاتا ہے۔ ماں، ایک ایسی دوست جو کبھی بیوفائی نہیں کرتی۔ ماں، ایک ایسا وعدہ جو کبھی ٹوٹتا نہیں۔ ماں، ایک ایسا خواب جو ایک تعبیر بن کر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ ماں، ایک ایسی محبت جو کبھی کم نہیں ہوتی بلکہ وقت وقت کے ساتھ ساتھ یہ اور بڑھتی رہتی ہے۔ ماں، ایک ایسی پرچھائیں جو ہر مصیبت سے ہمیں‌ بچانے کے لیے ہمارے ساتھ رہتی ہے۔ ماں، ایک ایسی محافظ جو ہمیں ہر ٹھوکر لگنے سے بچاتی ہے۔ ماں ایک دُعا جو ہر کسی کی لب پر ہر وقت رہتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ

رکھ کر خود کو بھوکا بھرا ہے جس نے پیٹ میرا
کیسے کروں بیاں کہ کیا ہے میرے لیے ماں میری

میری پاکستان کے تمام انسانوں سے ایک مودبانہ گزارش اور اپیل ہے کہ وہ اپنی ماؤں سے محبت کریں، ان کا احساس کریں، انہیں تکالیف اور درد سے بچائیں بلکل ایسے جیسے انہوں نے نو ماہ تک ان کی حفاظت کی۔ ہمارے معاشرے کا یہ اندوہناک المیہ ہے کہ یہاں شوہر غیرت کے نام پر اپنی بیویوں کا قتل کردیتے ہیں، جہاں بیٹے ماؤں کو سرعام گولی مار دیتے ہیں، جہاں بھائی بہن جیسے رشتے کو قتل کردیتے ہیں۔ بیٹی اٹلی سے وآپس آتی ہے تو باپ زہر دے کر ماردیتا ہے، کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہم نے اس دھرتی کی ماں کے ساتھ کس طرح کا سلوک روا رکھا ہوا ہے؟ کاش یہ قوم ماں کا تحفظ کرنا سیکھ جائے، اس پر ذرا سوچیے گا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).