بیٹی کا غیر مشروط ساتھ  نواز شریف کے لیئے سب سے زیادہ حوصلہ افزا بات ہے


آج مسلم لیگ ( ن) کے قائد میاں نواز شریف سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا شہباز شریف آپ کے  ساتھ ہیں؟ میاں صاحب نے صحافی کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا اور آگے بڑھ گئے مگر پیچھے سے ایک زنانہ آواز میں پر اعتماد لہجے کے ساتھ صحافی کو جواب ملا۔ جی ہاں  ساتھ ہیں۔

مجھے میاں نواز شریف کے بیانیہ سے کوئی سروکار نہیں، نہ ئی  ان کے روزانہ کے بیانات میرا آج کا موضوع ہے۔ میں تو اس بات کا پکا قائل ہوں کہ میاں نواز شریف نے اقتدار ملنے کے بعد سندھ کو بطور وزیر اعظم مکمل طور پر نظر انداز کر کے بہت بڑی سیاسی غلطی کی اور زرداری صاحب سے کیے گئے مک مکا، کے نتیجے میں اپنی سندھ مسلم لیگ کو ہی تباہ کر دیا۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی الہی بخش سومرو، سابق وزراءِ اعلٰی غوث علی شاہ، لیاقت جتوئی، ڈاکٹر ارباب رحیم، ممتاز بھٹو، سابق وزیر اعظم غلام مصطفٰی جتوئی کا خاندان، تھر کے ارباب، ٹھٹہ کے شیرازی، جیکب آباد کے ابڑو، سب مسلم لیگ میں نواز شریف کے ساتھ تھے، سب کو سیاسی یتیم کر دیا، وزیر اعظم بننے کے بعد ایک مرتبہ بھی ان کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا اور ان سب کو زرداری کی سندھ میں حکومت کے رحم و کرم پڑ چھوڑ دیا۔ مگر، میرا آج کا  موضوع  یہ بھی نہیں۔

میرا آج کا  موضوع  یہ ہے کہ ایک بیٹی اپنے باپ کے ساتھ کمال کی ثابت قدمی کے ساتھ کھڑی ہے۔ سیاست کیا ہے؟ کیسز کونسے ہیں؟ کون ساتھ چھوڑ رہا ہے کون نہیں، کوئی جا رہا ہے یا کوئی آ رہا ہے، سزا ملتی ہے یا جزا، مشکل وقت جاری رہتا ہے یا ختم ہو تا ہے  ہر مقام پر قدم بہ قدم مریم نواز جس طرح اپنے والد کے ساتھ استحقام کے ساتھ کھڑی ہے وہ قابل تعریف اور میاں نواز شریف کے لئے انتہائی حوصلہ افزا ہے۔

سیاسی جلسہ ہو یا کوئی میٹنگ، کوئی بیان دینا ہے یا کوئی انٹرویو، عدالت کی ہر شنوائی پر، ہر کیس میں اور ہر شنوائی کے بعد  اسی دن لمبے سفر کے بعد رات گئے بڑے سیاسی جلسوں کو خطاب  اس پورے معاملے میں اگر کوئی سب سے زیادہ بہادری کے ساتھ آنکھیں بند کر کے میاں  نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہے تو وہ ان کی بیٹی مریم نواز ہیں۔

حیرت ہے کہ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد حالات کا سارا بوجھ ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو کے کندھوں پر ہی پڑا تھا جس کو انہوں نے بہ خوبی نبھایا۔ میاں  نواز شریف کے موجودہ حالات اور بھٹو صاحب  کے بعد کے حالات میں  زمین آسمان کا فرق ہے مگر پھر بھی میاں نواز شریف کے لئے مشکل ترین وقت ہے  اور یہاں بات ہو رہی ہے کہ ایسے حالات میں بیٹی اپنے باپ کے ساتھ کندھا کندھے میں ملاکر جس حوصلے کے ساتھ کھڑی ہیں وہ قابل تعریف ہے۔

میں نے کچھ ماہ قبل ہم سب پر ہی لکھا تھا کہ ملک میں مسلم لیگ کے لئے ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں کہ  مریم نواز کو ان  کرائیسز میں ابھر کے آنے کا موقعہ ملا اور ایک زیرک سیاسی ورکر کی طرح انھوں نے موقعے سے بھرپور فائدہ  یوں اٹھایا کہ بڑے بڑے سینئر لیڈر ان کو اپنی راہنما ماننے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ سیاست میں خاموش رہنے سے بہتر ہے فیصلے کرنا  اور مریم  نے کافی فیصلے کیے ہیں۔ ہاں غلط یا صحیح یہ جدا بحث ہے۔   فیصلے غلط بھی ہو جاتے ہیں، پھر ان کو ٹھیک کرنا بھی لیڈر کی ذمے داری ہوتی ہے۔

بحرحال مسلم لیگ نواز کا پاکستان میں سیاسی مستقبل کیا ہوتا ہے یس سے قطع نظر یہ جماعت پنجاب میں مقبول ترین جماعت ہے  اور مریم نواز اپنے خیالات، بیانات، انٹرویوز  اور باڈی لینگویج سے سے یہ ثابت کر رہی ہیں کہ وہ انتہائی ثابت قدمی کے  اپنے والد کے ساتھ آخری دم تک ساتھ دین گی۔ کچھ معاملات میں تو مریم نواز، میاں نواز شریف سے بھی آگے جاتی ہوئی معلوم ہوتیں ہیں جیسا کہ ان کا کل ایک صحافی کے اس سوال کا جواب دینا تھا کہ  ڈان لیک والا معاملہ درست تھا تو پھر پرویز رشید کو وزارت سے نکالنا کیا غلط نہیں تھا؟ مریم نے کہا، بلکل غلط تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).