گوجرنوالہ کے باسیوں کو پہلوانی کی کچھ عادت سی ہے


گوجرنوالہ کا پہلوانی کے ساتھ تعلق کچھ عجیب سا ہے۔ یہ تعلق محض ایک کھیل یا روایت تک محدود نہیں، یہ تعلق کچھ تاریخی نوعیت کا ہے اور اس کی نوعیت کچھ روحانی بھی ہے۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ضلع گوجرانوالہ ایک صنعتی مرکز ہے اور زرعی علاقہ بھی۔ یہاں کی زمین پر پنجاب کے مشہور سکھ حکمراں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے آنکھ کھولی اور ’اج آکھاں وارث شاہ‘ جیسی شہرہ آفاق نظم کی تخلیق کار پنجابی مصنفہ امرتا پریتم کا جنم بھی اس دھرتی پر ہوا۔

لیکن پہلوانی نے اس شہر کو جو شناخت بخشی وہ ایک الگ ہی داستان ہے۔ حال ہی میں دولتِ مشترکہ کھیلوں میں پاکستان کے لیے تمغے جیتنے والے بیشتر پہلوانوں کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔

فصیل شہر میں داخل ہوں توں یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ شہر نہیں ایک وسیع اکھاڑا ہے۔ راہ چلتے لوگ، باغیچیوں میں سستاتے بزرگ، دیواروں پر سیاسی بینرز، چائے خانوں کی رونقیں اور کھانے پینے کی دکانیں، چہار جانب آپ کو پہلوانی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

میں جب گوجرانوالہ کے شہر قدیم پہنچا تو ایک مٹھائی کی دکان پر ایک نوجوان سے پہلی ملاقات ہوئی۔ دیکھنے میں دھان پان سا لڑکا تھا، عمر 14 برس سے زیادہ نہیں ہوگی، دکان کی پچھلی دیواروں پر بھاری بھرکم افراد کی تصاویر سجی تھی اور یہ نوعمر اپنی موبائل میں ایک ویڈیو دکھا رہا تھا کہ اس نے آج 114 کلو وزن کیسے اٹھایا۔ یہی ہے گوجرانوالہ اور کچھ ایسا ہی مزاج ہے اس شہر کا۔

یوں کہیں کہ گوجرانوالہ کے باسیوں کو فن پہلوانی کی کچھ عادت سی ہے تو بےجا نہ ہوگا۔

گوجرانوالہ میں پہوانوں کے لگ بھگ 25 چھوٹے بڑے اکھاڑے ہیں آپ کو چار سال کی عمر کے بچے سے لے کر باریش بزرگ زور آزمائی کرتے دکھائی دیں گے۔

اس شہر کو اپنے سپوتوں پر ناز ہے

اندرون شہر کی گلیوں میں پہلوانی کی تاریخ بکھری پڑی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا محلہ ہو جہاں کے بچوں نے اکھاڑے کی مٹی نہ چکھی ہو۔ شہر کے سڑکوں اور بازاروں پر سجے بینرز عالمی سٹیج پر شہر کے پہلوانوں کی جانب سے ملک کا نام روشن کرنے کی کہانی بیان کرتے ہیں۔

گوجرانوالہ کے باسیوں کا اس بات پر ناز ہے کہ بڑے بڑے سورماؤں کو چت کرنے والا مشہور رستم ہند گاما پہلوان یہاں کے پہلوان رحیم بخش سلطانی والا کو زیر کرنے میں ناکام رہا۔ روایت ہے کہ وہ چار بار مدمقابل آئے اور چاروں بار یہ دنگل ایک گھنٹے سے زائد وقت گزرنے کے باوجود برابری پر ختم ہوا۔

اس کے علاوہ شیر پاکستان اچھا پہلوان، گوگا پہلوان، جھارا پہلوان، ستارۂ پاکستان یونس پہلوان، رستم پاکستان شاہد آٹے والا پہلوان اور نذیر ٹھیلا پہلوان وہ نامی گرامی نام ہیں جنھیں اس شہر کے باسی سر آنکھوں پر بٹھاتے رہے ہیں۔

’ڈاکٹر انجینئر کیا بننا، بیٹا پہلوانی میں نام کرنا‘

گوجرانوالہ کے پہلوان کہتے ہیں کہ یہ کھیل صدیوں سے ان کی زندگیوں کا حصہ ہے۔ نسل در نسل پہلوانی ایک ایسی روایت بن چکی ہے کہ ہر گھر کا بچہ اکھاڑے ضرور جاتا ہے۔ کچھ ایسے خاندان بھی ہیں جنھوں نے پہلوانی سے کنارہ کشی اختیار کر لی لیکن ایسے بھی بیشتر خاندان ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اپنے بچوں کو ڈاکٹر یا انجیئر کیا بنانا، ان کا بیٹا پہلوانی میں ہی نام پیدا کرے گا۔

70 سالہ پرویز بٹ جوانی میں پہلوانی کے شوقین رہے ہیں۔ کالج اور ڈسٹرکٹ کی سطح پر کشتی کے مقابلوں میں حصہ بھی لیتے رہے۔

پرویز بٹ کہتے ہیں کہ انھوں نے 50 سال پہلے پہلوانی شروع کی۔ ’وقت بدل رہا ہے، فن پہلوانی کے فروغ کے لیے حکومتی سطح پر تو کچھ خاص نہیں کیا گیا لیکن نہیں کم ہوا تو پہلوانی کا وہ شوق جو آج بھی ہر نوجوان کو اکھاڑے میں کھینچے لاتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’گوجرانوالہ کے نوجوان کا تعلق کھاتے پیتے گھرانے سے ہو یا پھر غریب متوسط طبقے سے اس کی پہلی ترجیح ڈاکٹر، انجینئر کی بجائے پہلوانی کرنا یا پھر کم از کم جم جا کر خوبصورت اور فربہ جسم بنانا ضرور ہوتی ہے گوجرانوالہ کے بارے مشہور ہے کہ یہاں ہر بندہ اپنے جسم کو اکھاڑے کی مٹی ضرور لگاتا ہے۔‘

رستم پاک ہند عمر بٹ پہلوان کا بھی ایسا ہی کچھ ماننا ہے کہ ‘یہ دنیا کا واحد کھیل ہے جس کا کوئی نقصان نہیں۔ ورزش کرنے سے کیا نقصان ہوسکتا ہے؟’

پہلوان

گوجرانوالہ میں پہوانوں کے لگ بھگ 25 چھوٹے بڑے اکھاڑے ہیں

لیکن گوجرانوالہ میں آج کے نوجوان پہلوان سمجھتے ہیں کہ پہلوانی کا شوق اور پروفیشل پہلوان بننا تو ٹھیک ہے لیکن پڑھائی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

عمر امان فرسٹ ایئر کے طالبعلم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلوانی ان کا شوق ہے، صبح وہ کالج جاتے ہیں اور شام کو اکھاڑے میں پہلوانی کے گر سیکھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کے والد اور دادا پہلوان تھے اور گھر سے ہی انھیں پہلوانی کی ترغیب ملی تھی۔ وہ پرامید ہیں کہ مستقبل میں بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔

سیکنڈ ایئر کے طالب علم غلام احمد کا تعلق بھی پہلوان خاندان سے ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ دو سال سے پہلوانی کر رہے ہیں اور ان کا ارادہ بھی پہلوانی کو بطور پیشہ اختیار کرنا اور ملک کی نمائندگی کرنا ہے۔

پہلوان

نوجوان پہلوان سمجھتے ہیں کہ پہلوانی کا شوق اور پروفیشل پہلوان بننا تو ٹھیک ہے لیکن پڑھائی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا

آخر ایسی کیا بات ہے کہ پہلوانی زندہ ہے؟

گوجرانوالہ میں پہلوانی کی دنیا مختلف دفوں میں بٹی ہوئی ہے یعنی ہر اکھاڑہ کسی نہ کسی دف کے ساتھ منسلک ہوتا ہے جو اپنے اپنے پہلوانوں کو تیار کرتے ہیں اور ان کی دف کا پہلوان فتح یاب ہو۔

ایسا بھی ہے کہ ایک ہی گلی محلے یا ایک ہی خاندان کے افراد مختلف دفوں یا پہلوانوں کے ان گروہوں کا حصہ ہیں۔

پہلوانی کی ان دفوں کو سمجھے بغیر شہر میں پہلوانی کی روایت کو سمجھا نہیں جا سکتا۔ بالآخر ایسا بھی کیا ہے اگر شہر کے ایک پہلوان نے اگر سونے کا تمغہ جیتا ہے تو شہر کے کچھ لوگ اس بات پر افسردہ ہیں کہ ان کی دف کے پہلوان نے سونے کا تمغہ کیوں نہیں جیتا۔

پہلوانوں میں یہ انتہائی نازک مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی عالمی اعزاز جیت جائے تو شہر بھر کو مٹھائی کھلائی جائے گی، شہر میں مبارکبادوں کی لائن لگ جائے گی لیکن مخالف دف سے تعلق رکھنے والوں کو تھوڑا فاصلے پر ہی رکھا جائے گا۔

سنہ 2018 میں دولت مشترکہ کھیلوں میں دوسری بار سونے کا تمغہ جیتنے والے انعام بٹ پہلوان کے والد لالہ صفدر بٹ بھی اپنے زمانے میں پہلوانی کرتے رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ دفوں کی یہ روایت شاید عام آدمی کے لیے کوئی معنی نہ رکھے لیکن یہ پورا شہر اور یہاں کے اکھاڑے وفوں میں بٹے ہوئے ہیں۔

لالہ صفدر بٹ کہتے ہیں کہ دفوں کے درمیان یہی رقابت نوجوان پہلوانوں کو بہتر سے بہتر کارکردگی دکھانے کی تحریک پیدا کرتی اور شروع سے ہی مقابلے کی فضا پیدا کرتی ہے۔

عمر بٹ پہلوان کا بھی یہی کہنا ہے کہ اگر پہلوانی میں دفیں ختم کر دی جائیں تو شاید پہلوانی کی روایت ہی دم توڑ دے۔ ان کا کہنا ہے کہ نسل در نسل جو چیز پہلوانی کو زندہ رکھے ہوئے وہ یہی رقابت اور شہر کے اکھاڑوں کے درمیان مقابلے کا رجحان ہے۔

’اگر یہ دفوں کے درمیان یہ مقابلے کا رجحان ختم ہوجائے تو مقابلے کا جواز ہی ختم ہوجائے گا۔‘

پہلوان

دفوں کی یہ روایت شاید عام آدمی کے لیے کوئی معنی نہ رکھے لیکن یہ پورا شہر اور یہاں کے اکھاڑے وفوں میں بٹے ہوئے ہیں

’پہلوان بننا تو شرم کیسی؟‘

گوجرانوالہ کے نوجوان صرف پیشہ ور پہلوانی کے شوقین نہیں وہ سمجھتے ہیں یہ ایک کھیل ہے، ایک ایسا کام ہے جو انھیں ایک صحت مند زندگی دے سکتا ہے۔

ان کے سامنے اپنے آباؤ اجداد اور بزرگوں کی مثالیں ہیں لیکن ایک نوعمر لڑکے کے لیے لنگوٹ پہن کر پہلی بار مجمعے کے سامنے اکھاڑے میں اترنے کا تجربہ کیسا رہتا ہے؟

اس کے لیے تیاری بھی پہلے سے کی جاتی ہے۔ لالہ صفدر بٹ بتاتے ہیں کہ وہ روزانہ صبح اپنے بیٹوں کو گلی میں لنگوٹ بندھوا کر دوڑ لگواتے تھے۔

شروع شروع میں وہ شرماتے تھے اور کچھ لوگ دیکھ کر حیران بھی ہوتے تھے لیکن اگر وہ گلی میں شرمائے گا تو اکھاڑے میں کیسے لڑے گا؟

لالہ صفدر بٹ کہتے ہیں کہ پہلوانی صرف ایک شوق یا کھیل نہیں، یہ ایک طرز زندگی ہے جو آپ کو اپنانا ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب ایک نوعمر پہلوان کو مقابلے کے لیے تیار کیا جاتا ہے تو اس کی حفاظت اور دیکھ بھال ایسے ہی کی جاتی ہے جیسے مرغی اپنی چوزوں کو پروں تلے دبا کر حفاظت کرتی ہے۔

لالہ صفدر بٹ کے مطابق ایسے پہلوانوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، انھیں اکیلے اکھاڑے جانے یا اکھاڑے سے گھر آنے کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی کیونکہ ذرا سے لاپرواہی پہلوان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے اور وہ مقابلے میں شرکت سے محروم ہوسکتا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ جب انعام بٹ نے سنہ 2010 میں دہلی میں منعقدہ دولت مشترکہ کھیلوں میں سونے کا تمغہ کا جیتا تو میں گھر کے قریب اس دوکان پر گیا جہاں اخبار آتا تھا، یہ دکان یہاں مقامی رہائشی کی نہیں تھی۔

انھوں نے بتایا کہ ’میں اس سے اخبار مانگ کر دیکھنے لگا تو اس نے پوچھا کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟ میرے بتانے پر کہ میرے بیٹے نے گولڈ میڈل جیتا ہے تو وہ انعام کی تصویر دیکھتے ہوئے حیران ہوا کہ اب میں نے آپ کو پہچانا ہے، آپ وہی ہیں جن کا لڑکا گلی میں لنگوٹ باندھ کر آپ کے آگے آگے بھاگا کرتا تھا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp