اجارہ داری کی چپقلش اور کرپشن کا جعلی بیانیہ۔۔۔۔


\"sajjad پانامہ لیکس نے ایک طرف نواز شریف خاندان کی خودساختہ پارسائی کو تار تار کر دیا ہے تو دوسری طرف ہماری کمزور جمہوریت میں بھی ایک بڑا شگاف ڈال دیا ہے!

جی ایچ کیو کی طاقت پہلے ہی بے پایاں تھی اب اس میں مزید اضافہ ہوا ہے…. بہت سے اختیارات میاں نواز شریف نے بذریعہ چودھری نثار پہلے ہی پنڈی والوں کے حوالے کر رکھے تھے…. رہی سہی سیاسی طاقت اب خود ہی لڑھک کر پنڈی کے آنگن میں جا گری ہے….

نواز شریف کو اپنے پیروں سے پہلی بار زمین سرکتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ اُدھر پنڈی کی خوشامد میں سب سے آگے اور ایک اچھا موقع ہاتھ لگنے پر کپتان کی باچھیں کھلی ہوئی ہیں اور اُن کی پھرتیاں کسی بھی صورت طاہر القادری سے کم دکھائی نہیں دے رہیں!

اجارہ داری کی اس چپقلش میں حتمی جیت کے بعد چیف آف آرمی سٹاف نے سیاستدانوں کو پہلی ایڈوائزری تب دی جب وہ گزشتہ سے پیوستہ ہفتے بلوچستان گئے…. انہوں نے پانامہ لیکس پر شور مچانے والوں کو تنبیہہ کی کہ ملک کے کسی حصّے میں انتشار برداشت نہیں کیا جائے گا…. لہٰذا محاذ آرائی کی بجائے باہمی تعاون کی پالیسی اپنائی جائے…. کیونکہ ان کے نزدیک انتشار کے نتیجے میں پاک چائنہ راہ داری کے منصوبے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یار لوگوں کا خیال تھا کہ اس بیان سے انہوں نے میاں نواز شریف کے لیے واضح حمایت ظاہر کر دی ہے تاہم جس رات وزیر اعظم اپنے پراسرار دورہ برطانیہ سے واپس آ رہے تھے اُسی دن انہوں نے سنگلز ریجمنٹ کوہاٹ میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کو اس انداز میں سلامی پیش کی کہ سب حیران رہ گئے اور یوں اگلے کئی دنوں تک سیاسی مباحثوں کا موضوع بنے رہے! آرمی چیف کا یہ بیان سیاستدانوں کے لیے ایک نئی ایڈوائزری تھی جس میں انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف پوری قوم کی حمایت سے لڑی جانے والی جنگ اُس وقت تک پائیدار امن اور استحکام نہیں لا سکتی جب تک کرپشن کی لعنت کا خاتمہ نہ کیا جائے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سا لمیت اور خوشحالی کے لیے سب کا احتساب ضروری ہے۔ مسلّح افواج اس سلسلہ میں کی جانے والی ہر بامقصد کوشش کی حمایت کرے گی جس کے نتیجے میں ہم آئندہ نسلوں کے لیے ایک بہتر، پرامن اور خوشحال پاکستان تعمیر کر سکیں!

آرمی چیف کا یہ بیان دراصل اسٹیبلشمنٹ کا 90 کی دہائی کے آغاز سے ترتیب دیا گیا وہی گھسا پٹا پرانا بیانیہ ہے جس کے تحت نت نئے الزامات کے تحت اور کرپشن کا راگ الاپ کر ملک کی سیاسی کلاس کو بدنام کیا جاتا تھا…. مجھے یاد ہے 1988 میں عوام کی بے پناہ طاقت سے وزیر اعظم بننے والی بے نظیر بھٹو کو ڈیڑھ سال کے اندر ہی گھر بیٹھنے کے لیے ریاست نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر جس دولت کا انبار لگا دیا تھا اور ارکان کی وفاداری کروڑوں میں خریدنے کے لیے خفیہ والوں کے حاضر سروس عہدیدار سیاستدانوں سے ملاقاتیں کر رہے تھے…. شاید اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک یہ پیسہ تو کرپشن کی لعنت میں شمار نہیں کیا جا سکتا….! کہ وہ تو حب الوطنی کے نام پر صنعت کاروں اور بینکاروں سے رضاکارانہ انداز میں اکٹھا کیا گیا تھا…. اس سے پہلے آئی جے آئی بنانے کے لیے بھی جو فنڈز درکار تھے وہ بھی یقیناً شفاف سرمایہ ہی ہو گا…. اس وقت میاں نواز شریف بھی اللہ کا شکر ادا کرتے تھے اور بخوشی اعلان کیا کرتے تھے…. کہ اللہ کی مہربانی سے وہ یعنی نواز شریف پیشہ ور سیاستدان نہیں ہیں۔ شاید اسی لیے وہ کرپٹ نہیں ہیں۔ وہ پرانے سیاستدانوں کو ملک دشمن، چور اور لٹیرے کہا کرتے تھے…. بالکل آج کے عمران خان کی طرح…. لیکن جب انہیں ایوان اقتدار سے اٹھا کر باہر پھینکا گیا تو ٹھیک ایک سال میں انہوں نے ملینز آف ڈالرز کسی نہ کسی خفیہ ہاتھ کے ذریعے لندن بھجوائے اور اپنے کمسن بچوں کے نام کئی آف شور کمپنیاں قائم کیں…. بھلا ہوا پانامہ لیک والوں کا ورنہ میاں نواز شریف کو تو 2012 تک صرف آصف علی زرداری کا بیرون ملک پڑا پیسہ ہی دکھائی دیتا تھا…. جسے وہ وطن واپس لانے کے لیے بے تاب دکھائی دیتے تھے…. شاید آج کل اُن کی شرمندہ شرمندہ نظر آنے کی وجہ یہی پرانی نعرہ بازی ہی ہے….

آج کا میاں نواز شریف بھی ایک بالکل مختلف انسان ہے۔ لندن میں اپنے قیمتی فلیٹ کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہہ رہے تھے …. ہم نے تو 90 کی سیاست دفن کی ہے لیکن عمران جیسے ناپختہ کھلاڑی پرانا گند ڈال رہے ہیں۔ اگر نواز شریف 2008 کے بعد 90 کی سیاست دفن کر دیتے تو شاید اُنہیں آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے….!!

اب ایک بار پھر وزیر اعظم اسٹیبلشمنٹ کی بدلتی ہوئی نظروں میں جھانکنے کی بجائے پارلیمنٹ کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں…. انہیں ایک بار پھر پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی، جے یو آئی اور دیگر جمہوری سیاسی جماعتوں کی مدد کی ضرورت ہے تاکہ وہ عمران خان کی ظاہری اور یار لوگوں کی خفیہ جنگ کا سامنا کر سکیں…. یقیناً اگر یہ معرکہ ہوا تو ایک بار پھر پارلیمنٹ ہی جیتے گی لیکن اس دوران پھر سیاسی کلاس کو گندا کرنے کے لیے ایک بہت بڑی مقدار میں سیاسی غلاظت فضا میں اچھالی جائے گی اور اس مہم جوئی کی بنیاد وہی جعلی بیانیہ ہو گا کہ اس ملک میں سب سے زیادہ کرپٹ صرف سیاستدان ہیں۔ آئیں ذرا اِس کھوکھلے بیانیے کو آج کی سیاسی، معاشی اور سماجی حقیقتوں کے پیمانے میں پرکھ کر دیکھتے ہیں۔ جب آرمی چیف یہ کہتے ہیں کہ کرپشن کے خاتمے کے بغیر دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے اور نہ ہی استحکام آ سکتا ہے تو ان سے پوچھنا چاہیے کہ کیا امریکہ، یورپ، بھارت، روس، چین اور جاپان میں کرپشن پاکستان سے زیادہ ہے یا کم۔ اگر پاکستان سے زیادہ ہے تو اِن ممالک میں دہشت گردی کیوں نہیں اور وہاں پر استحکام کیوں ہے؟ یقیناً اس کی یہ وجہ ہے کہ ان ممالک کی اسٹیبلشمنٹس نے کبھی بھی اپنے اپنے ممالک میں مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی اور فرقہ واریت میں کبھی سرمایہ کاری نہیں کی۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں تو طالبان ہوں یا لشکر طیبہ، سپاہ صحابہ ہو یا سنی تحریک، تحریک جعفریہ ہو یا جیش محمد، لشکر جھنگوی ہو یا دعوة الارشاد۔ ان سب تنظیموں کو ریاست نے کسی نہ کسی طرح بالواسطہ یا بلاواسطہ پالا پوسا ہے۔ اور اِنہیں وقت پڑنے پر ملک کے اندر سیاسی کلاس، سول سوسائٹی اور روشن خیال طبقات کے خلاف استعمال بھی کیا ہے۔ اِن شدت پسند جماعتوں سے ہمدردی رکھنے والے کئی سرکاری اہلکار ہمارے ریاستی اداروں میں براجمان ہیں اور کئی ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔ لہٰذا اِنتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنرل راحیل کی قیادت میں ضرب عضب کے نام پر جو جنگ لڑی جا رہی ہے اُس کے ذریعے صرف انتہا پسندی اور دہشت گردی کی شاخیں تو کٹ رہی ہیں لیکن درخت اور اُن کے تنے ابھی تک محفوظ ہیں۔ شمالی وزیرستان سے جنوبی وزیرستان تک اور خیبر ایجنسی سے کوہستان تک شدت پسندوں کو پیدا کرنے والے تمام مدرسے اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اکوڑہ خٹک کا مدرسہ جہاں سے ملک بھر کی طالبان قیادت نے تعلیم و تربیت حاصل کی تھی پوری تمکنت سے اپنا پرانا کام جاری رکھے ہوئے ہے اور مدرسہ کا مہتمم سرعام کہتا پھر رہا ہے کہ ضرب عضب سے کچھ فرق نہیں پڑنے والا اور طالبان کے ختم کر دیے جانے کی باتیں غیر حقیقی ہیں۔ مولانا سمیع الحق سے اس ملک میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ نہ ہی ان پردہشتگردوں کو سہولت مہیا کرنے پر کسی نے کبھی پوچھا ہے ۔جماعت اسلامی کے ارکان کے گھروں سے دہشت گرد پکڑے گئے لیکن ان پر کبھی کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا۔

نہ جانے آرمی چیف کس زعم میں صرف کرپشن ختم کر کے ملک میں جاری دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ اسی طرح جب آرمی چیف کہتے ہیں کہ ملک میں سب کا احستاب ہونا چاہیے تو وہ جنرل مشرف کی آف شور کمپنیوں، جنرل کیانی کی پراپرٹی پالیٹکس اور اُن کے بھائیوں کی بدعنوانیوں سے صرفِ نظر کیوں کرتے ہیں؟ این ایل سی کا کیس کیوں دبا دیا گیا ہے؟ ضیاالحق اور جنرل اختر عبدالرحمن کی اولاد سے لے کر ضرار عظیم تک اربوں روپے کمانے والے جرنیلوں سے حساب لینے کی بات کیوں نہیں کی جاتی۔ جنرل حمید گل کے بچوں سے ٹیرر فنانسنگ جیسے معاملات پر سوالات کیوں نہیں کیے جاتے۔ جنرل بیگ سے سیاسی شخصیات میں پیسے تقسیم کرنے پر کیوں مقدمہ نہیں چلایا جا رہا۔ اور جنرل مشرف کو کس کے کہنے پر سنگین غداری کے مقدمے سے فرار کروایا گیا ؟ اِن سوالات کو پس پشت ڈال کر اگر کوئی کرپشن ختم کرنے کی بات کرتا ہے تو پھر اِسے کون سنجیدہ لے گا۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان میں سول ڈھانچہ بہت کمزور ہے۔ جمہوریت لاغر ہے اور سیاستدان اپنے خلاف الزامات کا دفاع کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ لیکن یہ سب خامیاں اس لیے ہیں کہ اجارہ داری اور سیاسی کنٹرول کی کشمکش میں اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ حاوی رہی ہے۔ تب تک سول ڈھانچہ کبھی بھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا جب تک اُسے غیر مستحکم کرنے کا عمل ختم نہیں ہو جاتا۔ فوج پاکستان کے دفاع کی ضامن ہے۔ اِسی لیے اِن کی قربانیوں کی تمام ملک قدر کرتا ہے۔ لیکن جس ملک میں بھی دفاعی پالیسی فوج خود ترتیب دیتی ہے وہاں کبھی بھی استحکام نہیں آ سکتا۔ سیاسی قیادت ہی وہ مدبرانہ فیصلے کر سکتی ہے جس سے ملک خوشحالی، امن اور استحکام کے راستے پر گامزن ہو سکتاہے۔ لہٰذا کسی بھی ادارے کو شیشے کے محل میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر پھینکنے کی بجائے قومی بحران کا حقیقی انداز میں تجزیہ کرنا چاہیے اور اس ضمن میں اگر کسی کو دو قدم پیچھے بھی ہٹنا پڑے تو حب الوطنی کے نام پر یہ کوئی مہنگا سودا نہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments