امریکی اور ہماری حادثاتی قوم پرستی


ملک کی حکمران اشرافیہ اور آبادی کے کچھ دھڑے اس پر انتہائی مشتعل ہیں کہ واشنگٹن نے ہمارے سفارت کاروں کی حرکات و سکنات محدود کردی ہیں۔ یہ پابندیاں اُن کی معمول کی سماجی اور سرکاری سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ان دھڑوں کے نزدیک اسلام آباد کو بھی واشنگٹن کو انہی سکوں میں جواب دیتے ہوئے امریکی سفارتی عملے کو حاصل بہت سی مراعات واپس لے لینی چاہئیں۔ ان کے نزدیک قومی غیرت ایسے اقدامات کا ہی تقاضا کرتی ہے۔

امریکہ کے ساتھ یہی کچھ ہونا چاہیے۔ واشنگٹن کا اس خطے کے لئے رویہ ہمیشہ سے ہی جارحانہ رہا ہے۔ اس نے ہمیشہ ہی سفارتی، اخلاقی اور عوامی احساسات کو نظر انداز کیا ہے۔ جب ایک پاکستانی شہری ایک امریکی سفارتی افسر کی گاڑی سے ٹکرا کر ہلاک ہوگیا تو یہ تناؤ مزید گہرا ہوگیا۔ حادثے کے بعد کی جانے والی قانونی کارروائی کے مطابق امریکی سفارت کار، جو ڈیفنس اینڈ ایئر اتاشی ہے، کا نام اسلام آباد ہائی کورٹ نے ای سی ایل میں ڈال دیا۔ بحران بڑھتا گیا، یہاں تک کہ مفاہمت کی گنجائش دم توڑنے لگی۔ امریکہ نے اسلام آباد کو ڈرانا دھمکانا چاہا لیکن اسلام آباد کے ردعمل نے امریکہ پر واضح کیا کہ وہ مرعوب ہونے کے لئے تیار نہیں تاہم اب امریکی کرنل کو واپس بھیج دیا گیا۔

خیر اس بات میں کوئی معقولیت دکھائی نہیں دیتی کہ امریکہ کے جارحانہ رویے پر ہم قومی عظمت اور وقار کے جذبات کو ہوا دینے لگیں۔ ہم نے ”مساوی سلوک ‘، ”جیسا کروگے ویسابھرو گے ‘‘ اور ”ادلے کا بدلہ ‘‘ جیسے محاورے تازہ ہوتے دیکھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بحران، اورو اشنگٹن کے حوالے سے دیگر کئی ایک بحران ہمیں آئینہ دکھاتے ہیں، اور اس میں دکھائی دینے والی شکل بہت اچھی نہیں ہے۔

واشنگٹن کو دی جانے والی سہولتوں کا شمار کیا جائے تو انتہائی شرمناک اور توہین آمیز صورت ِحال سامنے آتی ہے۔ بائیومیٹرک تصدیق کے بغیر موبائل نمبر حاصل کرنے سے لے کر پراپرٹی کرائے پر لینے اور ”محفوظ مراکز ‘‘، جن میں ریڈیو کمیونی کیشن سسٹم نصب ہوتے ہیں، چلانے تک امریکی سفارتی عملہ اس طمطراق سے رہتا ہے کہ برطانوی نوآبادیاتی دور کے افسران بھی اس پر رشک کریں۔ وہ جعلی نمبر پلیٹ اور گہرے شیشوں والی گاڑیوں میں گھومتے ہیں، اوراُن کے سامان کی تلاشی بھی نہیں لی جاسکتی۔ ایسا لگتا ہے جیسے اُنھوں نے پاکستان کو ایک طرح کا ڈیگو گارشیا سمجھ لیا ہے۔ اُنہیں جو سہولتیں حاصل ہیں، وہ اس دھرتی رہنے والے دیگر افراد، جن میں ہم، پاکستانی شہری بھی شامل ہیں، کوبھی حاصل نہیں۔

یہ تمام مراعات کسی ویانا قواعد وضوابط کے تحت نہیں د ی گئی ہیں، اور نہ ہی یہ دو طرفہ ہیں۔ پاکستانی سفارتی عملہ ایسی سہولتوں کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کوئی پاکستانی افسر امریکہ میں اس طرح کمیونی کیشن سے آراستہ محفوظ مراکز قائم کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک نجی دورے پر وزیر ِاعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ کیا ہوا۔ کیا چیکنگ کے بغیر کوئی سامان امریکہ لے جانے کا تصور موجود ہے؟ لیکن امریکیوں کویہاں سب مراعات حاصل ہیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ بہت کچھ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُنہیں یہ سہولتیں کس نے دی ہیں؟ وہ کون سی حکومتیں اور ریاستی ادارے تھے جنہوں نے امریکہ کے لئے اس طرح کے دروازے کھولے؟ آپ کیا سوچتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کیا کارگو لے کر آتے ہوں گے؟ بسکٹ یا جوس کے پیکٹ یا چھری کانٹے؟ یقیناً نہیں۔ وہ جاسوسی کا جدید ترین نظام چلانے والے آلات لاتے ہیں، اور حاصل کیے گئے محفوظ مراکز میں یہ نظام چلایا جارہا ہے۔ اور اُنہیں پاکستان کی جاسوسی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا وہ کافی رومز میں صحافیوں کی باتیں سننے کی جستجو میں ہوتے ہیں؟ یا دیکھنا چاہتے ہیں کہ پاکستان چاول کیسے کاشت کرتاہے؟ نہیں، اُنہیں کچھ دیگر چیزوں کے علاوہ ہمارے جوہری اعدادوشمار اور اثاثوں میں دلچسپی ہے۔

خیر یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں۔ تمام ممالک دیگر ممالک کی صلاحیتوں پر نظر رکھتے ہیں، لیکن امریکی ایسا دوسروں سے زیادہ کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں اُن کا کردار اس امرکا متقاضی ہے کہ وہ دنیا، خاص طورپر پریشان کن ممالک پر نظر رکھیں۔ چنانچہ امریکیوں کی پاکستان میں فعالیت کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ امریکیوں کو ایسا کرنے کے لئے اسلام آباد نے سرکاری طور پر اجازت دے رکھی ہے۔ ہم نے اُن کا خیر مقدم کیا، اُنہیں اس سرزمین میں جڑیں مضبوط کرنے میں مدد دی، اُنھوں نے ہماری نظروں کے سامنے نیٹ ورک، جیسا کہ بلیک واٹر پورے ملک میں پھیلادیا۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے ہم نے انتہائی منافقت کا مظاہرہ بھی کیا۔ اور یہ اصل کہانی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم امریکہ یہ سہولتیں سفارت کاری کی آڑ میں استعمال کرتا ہے۔

موجودہ تناؤ کا پریشان کن پہلو یہ ہے کہ ہم نے ماضی کے تجربا ت سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ہم ہر واقعہ پر قوم پرستی کے جذبات بھڑکا دیتے ہیں۔ کچھ دیر تک فضا جذباتیت کے نعروں سے بھڑکی رہتی ہے، لیکن پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔ حالات پھر معمول پر آجاتے ہیں۔ سلالہ، انگور اڈا، بن لادن آپریشن اور ریمنڈ ڈیوس کے واقعات پر قوم پرستی کے بند ٹوٹ گئے لیکن پھر کیا ہوا؟ کچھ نہیں، ”مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے؟ ‘‘۔ ہم نے ہر مرتبہ سنا کہ تم ایسا نہیں کرسکتے، لیکن پھر غیر روایتی معاہدے اپنا کام دکھا گئے، اور قوم دیکھتی رہ گئی۔

ماضی میں ایوب خان نے سرد جنگ کے اہداف حاصل کرنے میں واشنگٹن کی مدد کی۔ اس کے بعد جنرل ضیا الحق نے بھی اسی راہ کا انتخاب کیا، لیکن اپنے کیرئیر کے اختتام کے قریب کچھ ”توازن ‘‘پیدا کرنے کی کوشش کی۔ پرویز مشرف البتہ مختلف ثابت ہوئے۔ وہ شروع سے لے کر آخر تک امریکہ کے دوست رہے، اور یہ دوستی ابھی تک پروان چڑھ رہی ہے۔ بے نظیر بھٹو نے قومی سیاست میں دوبارہ واپسی کے لئے امریکہ میں لابنگ کی، اور نواز شریف بھی کبھی کارگل اور کبھی داخلی دباؤ کی وجہ سے واشنگٹن کی طرف دوڑ لگاتے دکھائی دیے۔ آصف علی زرداری امریکیوں کو مفت مشورہ دینے کا مشغلہ رکھتے تھے۔

شوکت عزیز سے لے کر معین قریشی تک ہمارے بہت سے وزرائے خزانہ ادھر سے ہی پاکستان آئے تھے۔ اُن کا خاندان اور بزنس امریکہ میں تھے، او ر وہ پاکستان پر حکومت کررہے تھے۔ اُن کے خواب امریکہ کے ساتھ تھے، اُن کی خدمات کا محور بھی اسی کی خوشنودی تھی، اور اُنھوں نے اس سرزمین کو امریکیوں کی آپریشن گاہ بنا دیا۔ اس کے بعد پتہ نہیں کیا ہوا، ملک میں یکا یک قومی وقار اور غیرت کی نغمگی چھڑ گئی۔ خیر بہت سی باتوں کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر امریکیوں کو یہاں بے انتہامراعات حاصل ہیں تو اس میں کس کا قصور ہے؟ ہم اُنہیں مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ اس میں ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ اس سچائی کو جاننے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہونے والے جرم کی ڈور بندھی ہوئی ہے۔ لیکن شاید کسی کو حقیقی جرم کا معمہ حل کرنے میں دلچسپی نہیں۔
بشکریہ جنگ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).