کیا میں روزہ رکھتا ہوں؟


پچھلے رمضان میں ایک دوست کے گیس میٹر لگنے تھے۔ درخواست مدت سے دی ہوئی تھی۔ عین وقت پر ارباب اختیار نے مژدہ سنایا کہ  ابھی تین ماہ اور لگیں گے۔ سحر اور افطار میں دقت تھی۔ کسی نے ایک دفتری اہلکار کا پتہ بتایا۔ رابطہ کیا تو صاحب نے تیس ہزار رشوت طلب کی۔ دوست مان گئے۔ جس دن تبادلہ رقم ہونا تھا تو بعد از مغرب وقت طے ہوا۔ یہ گھر سے نکلے تو ٹریفک میں پھنس گئے۔ کچھ دیر گزری تو فون آ گیا کہ بھیا آدھ گھنٹہ سے زیادہ نہیں ہے آپ کے پاس کیونکہ اس کے بعد نماز عشاء اور تراویح پڑھنے جانا ہے اور اس میں کوتاہی کفر ہے لہذا رشوت کی رقم اس سے پہلے پہلے پہنچا دی جائے۔ دوست نے قصہ مزے لے کر سنایا اور روزہ داروں کے اخلاقی دیوالیہ پن پر بہت سے تبصرے کیے۔ چونکہ دوستی عزیز تھی اور ہم خود بھی ڈھلمل سے ہی ہیں ان معاملات میں، تو راشی اور مرتشی کے بارے میں سنے ہوئے فرمودات دہرانے سے پرہیز کیا اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔

ایک ڈاکٹر صاحب ملے۔ روزے کے نقصانات کی ایک لمبی فہرست پاس رکھی تھی۔ کہنے لگے کہ ذیابیطس، گردے اور جگر کے لیے روزہ زہر قاتل ہے اور ہمارے یہاں ہر دوسرا شخص ان میں سے کسی نہ کسی حوالے سے یا تو سرحد پر کھڑا ہے یا پھر پہلے سے شکار ہے۔ روزے کے ضمنی اثرات میں سر درد، بدہضمی، معدے کی تیزابیت، دہن میں بیکٹیریاز کی افزائش، نظام انہضام کی سستی، دل کی دھڑکن میں بے قاعدگی اور ہارمونز کا عدم توازن بھی انہوں نے گنوا دیے۔ اس کے ساتھ ساتھ نفسیاتی اثرات میں چڑچڑا پن، سستی، ذہنی تھکن اور ڈپریشن الگ ہیں۔ ہم نے کہا کہ یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ روزے کے خلاف ہیں۔ مسکرائے ۔ کہنے لگے پچھلے بیس سال میں ایک روزہ بھی نہیں چھوڑا۔ پوچھا پھر یہ چارج شیٹ کس حساب میں تو کہنے لگے یہ بتانے کے لیے کہ روزہ ایک آزمائش اور امتحان ہے جس میں بہت سی سختیاں ہیں اور ان میں سے بہت سی سختیاں طبی حوالے سے بھی ہیں۔ جیسے نماز ایک عبادت ہے، یوگا کی مشق نہیں ہے کہ اس سے گھٹنوں کے مرض ٹھیک ہو جائیں اسی طرح روزہ بھی ایک عبادت ہے، بیماریوں کی دوا نہیں ہے۔ قدیم زمانے سے عبادت گزاری کا ایک مظہر یہ بھی رہا ہے کہ عابد اپنی جان پر سختی کرتا ہے، یہ سمجھنے کے لیے کہ یہ تکلیف وہ کسی دنیاوی آرام کے لیے نہیں صرف معبود کی خوشنودی کے لیے  برداشت کر رہا ہے اور وہ یہ کر سکتا ہے۔ وہ جسمانی اور مادی فائدوں سے بے نیاز صرف اپنے معبود کے لیے ایسا عمل کرنے کو تیار ہے جس کا اجر بھی صرف معبود کے پاس ہے۔ اختیاری فاقہ کشی بھی ایسا ہی ایک مظہر تھی جو رفتہ رفتہ روزوں کی شکل اختیار کر گئی۔ آج کے دور میں پر اتنی سادہ تعریف سے لوگوں کا دل نہیں  بھرتا تو وہ نماز میں ورزش کے فوائد نکال لاتے ہیں اور روزے میں جسمانی تطہیر اور ڈی ٹوکسیکیشن جیسا فلسفہ ڈال دیتے ہیں اور پھر اس کی سائنسی توجیہات بنانے میں لگ جاتے ہیں۔ کوئی پوچھے روزہ خدا کی خوشنودی کے لیے ہے تو پھر اس میں وزن کم ہو جانے کا لاحقہ لگانے کی کیا تک ہے۔ بات کام کی تھی، سمجھ آگئی پر بہت سوں کو نہیں آتی۔

یہ بھی ہمارے سامنے کا ہی قصہ ہے کہ غیر مسلموں، بوڑھوں، بچوں، مریضوں اور کسی بھی وجہ سے روزہ نہ رکھنے والوں کے لیے کھانے پینے کی ہر پابندی سخت کر دی گئی۔ اب بے شک آپ رمضان میں چلچلاتی گرمی میں پتھر توڑ رہے ہیں یا شوگر کی کمی کی وجہ سے قریب المرگ ہیں ،آپ پانی کا ایک گھونٹ بھی کھلے عام نہیں لے سکتے کہ روزہ داروں کے انتہائی نازک جذبات کرچی کرچی ہو جاتے ہیں۔ جہاں  اہل ایمان کا بس چلے گا وہ سڑک پر ہی آپ کو دھنک کر رکھ دیں گے نہیں تو تین ماہ کی قید اور پانسو جرمانہ تو ہے ہی۔ خدا نے مقرب فرشتوں کو احترام رمضان کروانے کی ذمہ داری نہیں دی تھی پر مقننہ نے یہ ذمہ داری ایس ایچ او صاحبان کو ضرور تفویض کر دی ہے۔

روزہ آپ کی ذاتی عبادت ہے۔ اور ہر مذہبی فلسفے کے تحت یہ آپ کے اور آپ کے خدا کے بیچ کا معاملہ ہے۔ نہ آپ کو اس کا اشتہار لگانے کی ضرورت ہے نہ اس کے مادی فوائد تلاش کرنے کی۔ اور کسی اور کی ذاتی عبادت میں مداخلت یا استفسار کا آپ کے پاس کوئی جواز تو ہرگز نہیں ہے۔ کیا اس سے طبی فائدے ہوتے ہیں؟ میرا نہیں خیال۔ کیا اس سے کوئی اخلاقی اصلاح ہوتی ہے؟ معاشرہ بھی آپ کے سامنے ہے اور روزہ داروں کا اخلاقی معیار بھی۔ کیا ایک ماہ کی روزہ داری سے باقی سال کی اصلاح احوال ہو جاتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ایک لمبی چپ بھی ہے اور تیز ہوا کا شور بھی ۔ تو بھائی مشورہ یہ ہے کہ خدا اور اپنے معاملے کے بیچ طبی تحقیقات، اخلاقی فلسفے اور معاشرتی نظام کو مت لائیے۔ عبادت کو عبادت رہنے دیجیے۔ اور رہا آپ کا یہ سوال کہ میں روزہ رکھتا ہوں یا نہیں تو یہ دیکھیے یہ کیا ہے، ارے یہ تو آپکی ناک ہے۔ یہ تو آپ کے چہرے پر ہونی چاہیے، یہ میرے گھر کی دہلیز میں دروازے کی درز سے آدھی اندر کیوں گھسی ہوئی ہے؟

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad