انقلاب نہیں، صحافی اور دانشور دو نمبر ہیں


جھوٹے حقائق اور جھوٹی تاریخ قوم کو رٹوانے کے چکر میں ہم نے بیسویں صدی کا نصف حصہ گنوایا اور نتیجتا ایک ایسا سماج تشکیل دے دیا جہاں نفرتوں کے تعفن کو خوشبو اور اندھی اطاعت کے نابینا پن کو بینائی تسلیم کیا جاتا ہے۔ اکیسویں صدی چونکہ ” ٹیکنالوجی اور نالج ” کی صدی کہلاتی ہے اس لئیے حقائق کو تروڑ مروڑ کر گلے سڑے بیانیوں کے ذریعے زومبیز نما افراد پیدا کرنے کا تصور بے اثر اور ناپید ہو چکا ہے۔ گو ہمارے ہاں آج بھی اسٹیس اور اجارہ داری برقرار رکھنے کے لئے ہر ممکن حربہ آزمایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اب عوام میں سے ہی ایک اچھی خاصی تعداد روایتی بیانیوں سے متنفر ہوتے ہوئے کسی بھی شخص یا ادارے کو “مقدس گائے” کا درجہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ سیاستدانوں کو روز اول سے ہی آسان ہدف شمار کر کے تمام تر برائیوں کا ماخذ قرار دینے والا بیانیہ بھی اب ناکام ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اب گلی محلے میں بیٹھا ایک عام شخص اس حقیقت کو سمجھتا بھی ہے اور بلا ٹوک اظہار بھی کرتا ہے کہ وطن عزیز کے امور حکومت سیاستدانوں کے پاس نہیں ہیں بلکہ اصل اختیارات دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کے پاس ہیں۔ یہ بذات خوف ایک بہت بڑی تبدیلی ہے کیونکہ نوے کی دہائی اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تک کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس ملک میں ایک دن دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کے سیاسی کردار اور اس کی غلط پالیسیوں پر کھلے عام نہ صرف تنقید ہو گی بلکہ اسے آئینی ختیار سے تجاوز کرنے اور پس پشت سازشوں کے دم پر منتخب حکومتوں کو نکال باہر پھینکنے کی وجہ سے ایک مخالف بیانیے کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔

اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ فاٹا کے نوجوان جو سوال چند ماہ سے پوچھ رہے تھے اسی سے ملتے جلتے سوالات پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک مرکزی رہنما اور اس کے ووٹروں نے بھی پوچھنے شروع کر دئیے ہیں۔ ان سوالات کو اٹھانے والے منظور پشتین اور نواز شریف کی نیت پر بھلے ہی جتنا مرضی شک کیا جائے اور یہ مان بھی لیا جائے کہ منظور ہشتین بیرونی قوروں کا آلہ کار ہے اور نواز شریف محض اپنی سیاسی بقا کی جنگ کی خاطر یہ سوالات اٹھا رہا ہے، لیکن ان سوالات کو غلط نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اگر فاٹا کا نوجوان اور پنجاب کا نوجوان ایک جیسا سوال اٹھانے لگ گیا ہے کہ آئین کی رو سے حق حکمرانی منتخب نمائندوں کا ہے تو پھر یہ اختیار ان کے پاس کیوں نہیں ہے؟ یا گڈ طالبان بیڈ طالبان کی پالیسی کو ختم کیوں نہیں کیا جاتا؟ تو اسے دراصل سماجی و سیاسی ڈھانچے کی ہیئت میں تبدیلی کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس تبدیلی کو روکنے کیلئے اور سٹیٹس کو برقرار رکھنے کیلئے ہراول دستے کا کردار وہ صحافی اور دانشور ادا کر رہے ہیں جو ہمیشہ سے ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی صحافت اور دانشورانہ فلاسفی کا رخ متعین کرتے ہیں۔ یا پھر “ڈنڈے” کو پیر مانتے ہوئے قصیدہ گوئی کا علم تھامے اسٹیٹس کو کے علم برداروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دراصل انہیں معلوم ہے کہ اگر اس تبدیلی کو نہ روکا گیا اور پابندیوں کی آڑ میں حقائق اور معلومات تک رسائی کے سلسلے کو ختم نہ کیا گیا تو ان کی صحافتی اور دانشوارانہ دوکانیں بند ہو جائیں گی۔

جی ہاں ایک صحافی کا کام خبر نکالنا ہوتا ہے، یہ اس کا بنیادی فرض بھی ہوتا ہے کہ خبر دیتے وقت وہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش نہ کرے۔ لیکن اگر صحافی یہ تہیہ کر لے کہ صرف کمزور سیاستدانوں اور سابقہ وردی والوں کے خلاف خبریں نکالنا ہی اس کا فرض ہے، سیاستدانوں کے سوا اسے ہر دوسرا ادارہ یا قوت اچھی لگے اور اس کی خبروں کا زیادہ تر محور اور مرکز محض وہ شخصیات اور جماعتیں ہوں جنہیں دفاعی اسٹیبلیشمنٹ کی جانب سے “ناپسندیدگی” کی سند مل چکی ہو تو اس کو ایک نمبر صحافت نہیں بلکہ “دو نمبر صحافت” کہا جاتا ہے۔ صحافی یا دانشور کا کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ عوام کے ساتھ کھڑا ہو یا ان کے جذبات کی ترجمانی کرے، یہ کام سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کے سرگرم افراد کا ہوا کرتا ہے۔ صحافی کا کام حقائق تک عوام کی رسائی اور سچ کی ترجمانی کرنا ہوتا ہے پھر چاہے وہ سچ سب کو کڑوا ہی کیوں نہ لگے۔ حب الوطنی اور غداری کی اسناد بانٹنا کسی صحافی یا دانشور کا حق یا فرض نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی صحافی یا دانشور ایک گھنٹے کے ٹی وی شو کو عدالت کا روپ دیکر خود ہی مدعی اور منصف بنتے ہوئے کسی کو غدار یا بے ایمان ہونے کی سند جاری کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

صحافی اور دانشور کو یہ بھی زیب نہیں دیتا کہ سیاستدانوں کی عیاشیوں کی کہانیاں سناتے یا ان کے بٹووں کا ذکر کرتے ہوئے وہ یہ بات بھول جائے کہ جس غریب عوام کے وسائل کو سیاستدانوں کی عیاشیوں کے ہاتھوں ضائع ہونے کی دہائیاں وہ صبح شام دیتا ہے، خود وہ انہی سیاستدانوں کے ساتھ اسی عوام کے وسائل پر سرکاری خرچ پر بیرونی دورے بھی کرتا ہے اور پلاٹ بھی انہی ” بے ایمان” سیاستدانوں کے ادوار میں حاصل کرتا ہے۔ اگر صحافی یا دانشور سچ بول نہ سکے تو کم سے کم اسے حقاِق کو مسخ کرنے میں “اسٹیٹس کو” کی روایتی قوتوں کا ساتھ بھی نہیں دینا چائیے۔ صحافی یا دانشور کا کام طاقتور ترین قوتوں کے ساتھ مل کر عوام کو پراپیگینڈا کے تابع رکھنا نہیں ہوا کرتا ہے۔ اگر ایک صحافی یا دانشور اپنے سماج میں رونما ہونے والی اہم تبدیلیوں اور ان کے محرکات کو سمجھنے سے قاصر ہے تو وہ ایک اچھا پبلک ریلییشن آفیسر یا کسی کا ترجمان تو ہو سکتا ہے لیکن صحافی یا دانشور نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ انقلاب لانے والے تو دو نمبر ہو سکتے ہیں لیکن انقلاب بذات خود دو نمبر نہیں ہوا کرتا کہ انقلاب تبدیلی کا باعث بنتا ہے اور تبدیلی نشونما کی بنیاد ہوتی ہے۔ تبدیلی و نشونما قانون فطرت ہے اور زندگی کے رواں دواں رہنے کا استعارا بھی ہے جبکہ جمود کو موت کا دوسرا نام قرار دیا جاتا ہے۔ صحافت بھی انقلاب کی مانند دو نمبر نہیں ہوا کرتی لیکن ہمارے ہاں اکثر و بیشتر یہ دو نمبر صحافیوں اور دانشوروں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے۔

 اگر کسی کو سماج میں ہونے والی ارتقائی تبدیلیاں محض کسی سے ذاتی بغض و عناد کی وجہ سے دو نمبر لگتی ہیں تو اسے فورا سے بیشتر حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے پچھلی دہائی کی گلی سڑی حقائق کے منفی صحافتی اور دانشورانہ اقداروں کی پٹی آنکھوں سے ہٹا کر اس حقیقت کا ادراک کرنا ہو گا کہ اب وہ زمانے بیت گئے جب محض اپنے نام کی بدولت کچھ بھی لکھ یا بول کر عوام سے من و عن نہ صرف اسے قبول کروا لیا جاتا تھا بلکہ “داد” بھی وصول کی جاتی تھی۔ یہ علم کی صدی ہے اب لکھے اور بولے گئے ایک ایک لفظ کی تصدیق کی جاتی ہے اسے حقائق کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے۔ ایک عام آدمی کی انٹرنیٹ کی وجہ سے معلومات کے ذخیرے تک رسائی حاصل ہے۔ یہ وہ دور نہیں ہے جب معلومات تک رسائی صرف صحافی یا بااثر دانشوروں کی ہوا کرتی تھی۔ سماجی تبدیلیوں کو سمجھنے کیلئے محض تنقید نہیں بلکہ ایک شعوری کوشش اور جرات تحقیق کی ضرورت ہوا کرتی ہے اور اگر کوئی اس نعمت سے محروم ہے تو وہ خود دو نمبر صحافی یا دانشور تو ہو سکتا ہے لیکن اس کے انکار کے باعث نہ تو یہ ارتقائی تبدیلیاں رکنے پاتی ہیں اور نہ ہی وہ پراپیگینڈے کے دم پر انہیں دو نمبر قرار دیکر حقائق کو مسخ کرنے کی استطاعت رکھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).