میرے چند پچھتاوے


میری زندگی کا اک بہت دلچسپ مرحلہ مارچ 2015 سے شروع ہوا اور فروری 2017 پر ختم ہوا۔ اس مرحلے کے دوران چند اک بہت کلیدی سبق سیکھے اور ان تمام میں سے سب سے عمدہ سبق یہ پڑھا کہ اب ساری عمر بات جو بھی ہو، جیسی بھی ہو، کسی قسم کی جھجھک کے بغیر نرمگی سے مگر سیدھے سیدھے انداز میں کر دیا کرنا ہے، اس کے ساتھ فیصلہ کیا کہ میری زندگی، میری زندگی ہے۔ کسی اور کی نہیں، اور اس میں پیش آنے والے حادثات و واقعات بھی میری یادوں کا اثاثہ ہیں، لہذا، ان پر خاہموخواہی پردہ پوشی اور اک دو چہروی رویہ مناسب نہیں۔ تو لہذا، زندگی کو ”اب جو ہے، وہی ہے“ کے نظریات پر گزارنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کبھی کبھار رومانویت کا شکار بھی ہو جاتا ہوں، مگر بس کبھی کبھار ہی!

زندگی کے چند پچھتاوے، آپ کی نذر۔

1۔ مشترکہ خاندانی نظام کی ”فیوض و برکات“ کی بدولت، ملکوال میں اپنے آبائی مکان سے جب گھر نکالا ملا تو میری عمر آٹھ برس تھی، اور مجھے یاد ہے کہ میں اپنی والدہ کا ہاتھ تھامے گلی امرتسریاں سے نکل کر ملکوال کے دوسرے کونے میں موجود، محلہ کوٹلی (کوٹ ولی کی بگڑی ہوئی ترکیب) کی جانب پیدل رواں دواں تھا۔ وہاں میرے والد صاحب نے ڈیڑھ سو روپے ماہانہ پر اک کچی چھت والا مکان کرائے پر لیا تھا جس میں بارش کے دنوں میں گندا پانی بھی گھس آتا تھا۔ ہمارے اس گھر کے داخلی دروازے کی دائیں جانب باہر کی سمت اک ستون تھا جس کے اوپری کونے میں چڑیوں نے اپنا آلنہ (گھونسلہ) بنایا ہوا تھا۔ بہار کے آخری دنوں میں اس میں چڑیوں کے بوٹ (بچے) بولا کرتے تھے اور مجھے بہت اشتیاق ہوتا تھا کہ میں ان کو دیکھوں اور اپنے ہاتھ سے فضا میں چھوڑوں، جہاں وہ اڑتے ہوئے کہیں دور جا نکلیں۔

اپنے اسی شوق کے ہاتھوں اک دن سٹُول رکھ کر اس آلنے میں سے چڑیا کا اک بچہ نکالا جس کے پر آ چکے تھے اور اس اپنے ہاتھوں میں بہت پیار سے تھامے اپنے گھر کی کچی چھت پر چلا گیا۔ آٹھ نو برس کی عمر میں مجھے معلوم نہ تھا کہ ابھی اس کے پر پورے نہیں نکلے، تو میں نے اپنے پوری طاقت سے اس بوٹ کو ہوا میں اچھالا۔ وہ بےچارہ پہلے ہی سہما ہوا تھا، اور اوپر سے نیچے کی طرف آتے اس نے اپنی جبلت کے تحت اپنے پر پھڑپھڑائے بھی، مگر اک زور دار طریقے سے چھت پر آن گرا، اور مر گیا۔ میں اس کی موت کو اپنے شعور میں نہ سمو سکا، اور حیرت و پریشانی میں کچھ دیر کھڑا ہونے کے بعد اسے اپنے ہاتھوں میں تھاما اور جا کر کچھ آگے رُوڑی (کوڑے کا ڈھیر) پر پھینک آیا۔ کچھ تیرہ برس بعد جب ساڑھے بیس سال کی عمر میں، میں اپنے گھر سے روزگار کے لیے بےگھر ہوا تو میرے بھی پر پورے نہیں نکلے ہوئے تھے۔ اس بات کی سمجھ تب ہی آئی کہ پروں کے بغیر زمانے کی ہوا کے تھپیڑوں، بلکہ تھپڑوں کا مسلسل پڑنا کیسا محسوس ہوتا ہے۔ مجھے وہ چڑیا کا بوٹ، آج تک نہیں بھولا، اور میں اس حرکت پر ابھی بھی افسردہ ہو جاتا ہوں۔

2۔ قصباتی پنجاب کی گلیوں میں بچوں، بالخصوص لڑکوں کی کوئی مثبت نفسیاتی و معاشرتی تربیت نہیں ہوتی۔ اندازہ ہے کہ وطن عزیز کے باقی قصبوں میں بھی حال کچھ ایسا ہی ہو گا۔ شخصیت کا اک بحران ہوتا ہے، جو مسلسل ہوتا ہے اور زندگی کے ابھرتے ہوئے برسوں میں نہ فہم ہوتا ہے، نہ شعور اور گھر میں بتائی گئی ”اچھی اچھی باتیں“ باہر معاشرے کی حقیقتوں کے سامنے بھُبھل (ٹالکم ڈسٹ) سے بھی کم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ذات کے اندرونی جھگڑے، باہر کے دباؤ کے ساتھ مل کر اک عجب سا کڑمس بنا دیتے ہیں جس میں شناختی بحران سے لے کر، اپنی ذات کی موجودگی کو ثابت کرنے کے لیے انسان فٹ بال کر طرح اک مسلسل ٹرانزیشن میں رہتا ہے۔

اسی قسم کی اک ٹرانزیشن میں، اک بار میرا ہاتھ اپنے سے چھوٹے اور پھر اک بار اور، سب سے چھوٹے بھائی پر اٹھ گیا تھا۔ پہلی بار جھگڑا اک کرکٹ کلب کی ممکنہ توڑ پھوڑ کے حوالے سے تھا، دوسری بار معاملہ پنجابی کلچر میں نام نہاد برادری کے اک صاحب کے اشتعال دلانے کا نتیجہ تھا۔ اب جب بال سفید ہونے کو آئے تو لڑکپن میں اپنے شعور کی اس ناپختگی کا احساس ہوتا ہے تو خیال یہ بھی آتا ہے کہ مجھ سے چھوٹوں کا شعور تو مجھ سے بھی زیادہ کچا ہوتا ہو گا۔ مگر یہ خیال اب کا ہے، تب کا نہیں تھا۔ مجھے اپنی اس حرکت پر کبھی کبھار بہت شدت کا افسوس ہو جاتا ہے۔ اس لیے بھی کہ وہ دونوں میرے چھوٹے بھائی ہیں، اور اس لیے بھی کہ کیا ہی جاہلیت تھی۔

مگر یہ شاید اس گلیاتی ثقافت کا اک عکس تھا جس کا ہم سب حصہ تھے، اور یہ ثقافت کوئی عمدہ ثقافت نہ تھی، نہ ہے، اور نہ ہی ہوگی۔ اک منافقانہ پردہ ہے پارسائی کا، جس کے تلے معاشرتی پیپ میں کیڑے کلبلاتے ہیں اور ان کیڑوں پر جب بھی بات یا گفتگو کی جائے تو روایات، مذہب، معاشرت وغیرہ کے پلتے لگا کر ان کو اپنے تئیں گویا ٹھیک کر دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیپ اور کیڑے بڑھتے رہتے ہیں۔

3۔ سنہ 2001 میں، جب عمر عزیز 29 برس تھی تو اسلام آباد میں اس وقت کے اک قریبی دوست، معین قریشی کو صرف چودہ ہزار روپے کے فائدہ کے لیے اک دھوکہ دیا۔ ایسا نہیں کہ اس دھوکہ سے میرے ان دوست کا کوئی بہت بڑا نقصان ہو گیا، مگر سچ یہ ہے کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ میں اپنے اس ایکٹ کی ہزار تاویلات تخلیق کر سکتا ہوں، مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ اک مناسب حرکت نہ تھی۔ بعد میں، میں نے ان سے اپنے پچھتاوے میں اپنے تعلق کی بحالی کی چند اک کوششیں کیں، مگر وہ نہ مانے۔ مجھے ان کے ساتھ رکھے اپنے رویہ کا پچھتاوا ہے۔

خیال مکمل کرنے سے پہلے ان پچھتاوں کی اک نفسیاتی تاویل دیتا چلوں: کہنے کو ہمارا ملک اک اسلامی جمہوریہ ہے، مگر یہ نام، صرف نام ہی ہے۔ یار لوگ اسلام کے نفاذ اور شرعی نظام کی برکات تو مسلسل گنواتے ہیں، مگر وہ ریاست کی جانب فرد کے سماجی فرائض کے پیراڈائم میں ہی ہوتی ہیں۔ ریاست و معاشرے کی جانب سے فرد کے سماجی حقوق کے بارے میں ہوتی ہی نہیں۔ تو مجھ جیسے غریب گھروں کے نوجوان بچے، اپنے سر پر آپ ہی ہوتے ہیں۔ زندگی میں ڈٹ کر محنت کرنے اور چند اک اصولوں کو اپنا کر آگے بڑھنے کی سمجھ بہت بعد میں آتی ہے، اور اس سارے پراسس میں بہت وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ اس نام نہاد اسلامی ریاست و معاشرے میں مجھ جیسے کروڑوں افراد اگر اپنے سر پر آپ نہ ہوں تو ان کی سماجی اور رویاتی تربیت کہیں بہتر ہو سکتی ہے۔ مگر میں جانتا ہوں کہ یہ اک خواہش ہے، جو کبھی حقیقت نہیں بن سکتی۔

اب چونکہ کوئی ہول بھار نہیں سمجھتا تو پچھتاوں، سیکھنے اور اپنی زندگی کی ڈیڑھ دو کامیابیوں کو شئیر کرنے کا یہ سفر جاری رہے گا۔
جیتے رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).