بھٹی صاحب کے بچوں کا دودھ میاں صاحب پی گئے


آج کا تازہ بلاگ ملامتی ہے۔ مذمتی ہے۔ بہت لکھ لئے ستائشی بلاگ۔ بہت کر لیں تعریفی باتیں۔ آج تو ملامت ہو گی۔ مذمت ہو گی۔ اور دل کھول کر ہو گی۔ خیر دل کا کیا کہنا۔ وہ تو ان قیامتوں کے بعد یوں بھی کہیں کا نہیں رہا۔ رہی سہی کسر خیر سے نا اہل وزیر اعظم میاں نواز شریف نے پوری کر دی ہے۔ یہ انسان ہیں یا بلی؟

ہم زیادہ ٹی وی شی وی نہیں دیکھتے۔ شیطانی چرخے سے دور ہی بھاگتے ہیں۔ ہماری زندگی میں تخلیق اور تعمیر کی اس قدر افراط ہے کہ ان بیکار کی باتوں اور تجزیوں میں کون اپنا سر کھپائے۔ شومئی قسمت کے اس دن ہمارے سسر صاحب شاہ زیب خانزادہ کا شو لگائے بیٹھے تھے۔ ڈیڈی ویسے بھی خبروں کے معاملے میں ذرا حساس طبیعت کے واقع ہوئے ہیں۔ ایک تو بہو اوپر سے منجھلی۔ مروت میں مری رہی۔ چینل چینج کرنے کا مشورہ دینا یوں بھی ہمارے خاندان کی روایت کے خلاف ہے۔

لیکن سب خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ انسان کیا ہے؟ بس ناکارہ سا مہرہ۔ شاہ زیب خانزادہ صاحب اپنے سے کہیں سینئر تجزیہ نگار عزت مآب جناب ارشاد بھٹی کو مدعو کیے بیٹھے تھے۔ ان کی باتیں سنیں تو مانو چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ ہم تو یوں بھی شروع سے ہر صاحب اختیار کے پیچھے پنجے نوچ کر پڑنے کے معاملے میں بدنام ہیں۔ لیکن اس بار تو حد ہی ہو گئی بابو۔ بھٹی صاحب نے ان ملکی مسائل پر روشنی ڈالی کہ ہماری زندگی کے سب اندھیرے چھٹ گئے۔ پندرہ سولہ طبق تو یونہی ٹی وی لاونج میں بادام چباتے روشن ہو گئے۔

بھٹی صاحب نے قوم کو میاں صاحب کے چہرے کی لالی کا راز بتایا۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے لیکن میاں صاحب کی بھٹی صاحب سے کوئی پرانی دشمنی لگتی ہے۔ ان کے بچوں کا دودھ تک پی گئے۔ حد ہوتی ہے کوئی بسیار خوری اور چٹورپن کی بھی۔ بچوں کے فیڈر تک نہ چھوڑے؟ بھٹی صاحب کی ذرا آنکھ کیا لگی میاں صاحب نے جھٹ نقب ہی لگا لی؟ وہ بھی سیدھی بچوں کے دودھ پر؟

ہماری دادی کا باورچی خانہ کھلا تھا۔ دودھ کی دیگچی کو بلی سے بچانا ایک جوئے شیر ہوا کرتا تھا لیکن مرحومہ دادی بلی سے بھی زیادہ پھرتیلی تھیں۔ کچن دشمن بلیوں کی ہر سازش ناکام بنا دیا کرتی تھیں۔ یوں تو گلہ ہمیں بھٹی صاحب سے بھی ہے کہ بچوں کے فیڈروں پر تالہ کیوں نہ لگایا۔ لیکن چلو کوئی نہیں۔ اٹس او کے۔

میاں صاحب کی خر مستیاں اسی پر تمام کہاں ہوئیں۔ اگلی ہی جست موبائل کے سو روپے والے کارڈ پر لگائی۔ ساٹھ روپے جھٹ سے ڈکار گئے۔ بھٹی صاحب کو چاہیے پانامہ والوں کو اپنا ریکارڈ اپڈیٹ کرنے کا مشورہ بھی لگے ہاتھوں دے ڈالیں۔ نیب والے تو انہی کی سنتے ہیں۔ شاید پانامہ والے بھی کوئی ہوش کے ناخن لے ڈالیں۔ شاہ زیب خانزادہ بھی عجیب انسان ہیں۔ جھٹ لائٹر نوٹ پر اتر آئے۔ یہاں قیامت صغری برپا تھی۔ انہیں اٹھکیلیاں سوجھی تھیں۔

ایک باپ کے لئے اس سے بڑھ کر کیا المیہ ہو گا کہ ایک حکومت اس کے شیر خوار بچوں کا دودھ پی جائے۔ اس قوم کو ہماری دادی جیسے ایک مسیحا کی ضرورت ہے جو بھٹی صاحب کے بچوں کا دودھ میاں صاحب جیسی بلیوں سے بچائے۔ ہماری حکومت وقت سے اپیل ہے کہ بھٹی صاحب کو سیریس لے اور ان کے بچوں کا دودھ اور موبائل سو روپے والا کارڈ میاں صاحب سے محفوظ رکھے۔
قدم بڑھاؤ بھٹی صاحب ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).