ہجرت اور گھونسلے کے درمیان عمر گزارنے والی ماں


اماں آٹھ نو  سال کی ہونگی کہ 1947 کے ہجرت کے خون آلود  سفر سے گذریں۔ گورداسپور ابتدائی اعلان اور نقشے کی رو سے پاکستان کا  حصہ تھا سو وہاں کےمسلمان باسی مطمن تھے۔ مگر عین وقت پر اُسے بھارت کا حصہ بنا دیا گیا اور قتل و غارت کا ایک بازار گرم ہوا۔ بے سروسامانی کی حالت میں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر جان بچانے کو نکلے۔ وہ جگہ جہاں آپ کے بزرگوں کی قبریں ہوں، جہاں کی ہوا میں آپ کے بچپن اور جوانی کے یادوں کی آمیزش ہو، جن گھروں کی تعمیر آپ کے بزرگوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر کی ہو، وہ آ پ کی پشتی زمین جس نے آپکے پرکھوں کو اناج دیا ہو، جس کا کونہ کونہ آپ کے بزرگوں کی محنت سے مہکا ہو، جہاں اُن کا خون پسینہ گرا ہو۔ وہ چھوڑنا کہاں آسان ہے۔ کسان کے لیے تو زمیں ماں کی مانند ہے کہ وہ اُسے پالتی ہے، اپنی کوکھ  سے رزق دیتی ہے اور پالے جانور کسان کو اولاد کی مثل ہوتے ہیں۔ اور ان سب کو چھوڑنا،  ہمیشہ کے لیے چھوڑنا، کبھی نہ واپس آنے کے لیے۔ کیا کوئی لفظ اس دکھ کو بیان کر سکتا ہے۔ الفاظ کا دامن خالی ہے، بے معنی، کسی نہ کام کا، بے یار و مددگار۔ یہ دکھ الفاظ کی استطاعت سے کہیں آگے کا ہے۔ اماں آٹھ نو سال کی ہوں گی کہ یہ دکھ  آن پہنچا ۔

اماں نے پیدل قافلے کے ساتھ دریائے راوی پار کیا  اور پاکستان میں داخل ہوئیں۔ یہ سفر خوف کے سائے تلے تھا؛ سکھوں کے نہتے قافلوں پر حملے، جا بجا بکھری لاشیں، لاشیں نوچتے گدھ اور ایک آٹھ نو سال کی بچی غیر یقینی مستقبل کی راہ پر۔ اماں کے ذہن میں یہ سفر نقش تھا۔ اُس بچی کو یوں یاد پڑتا تھا کہ جیسے لٹے پٹے قافلے کے ساتھ وہ لاہور کی مال روڈ یا ملتی جلتی روڈ سے ننگے پیر گذری تھی تو اُس کے پیر یوں جلے تھے کہ مال روڈ سے گذرتے یخ بستہ کار میں بھی اماں گبھرا کر پاوں جوتوں سے نکال کر سیٹ پر رکھ لیتی تھیں۔

اماں مرتے دم تک اپنے گاوں کو نہ بھولی، ان کی باتوں میں گورداسپور، کلانور، ڈھیسیاں کا ذکر آتا رہتا ۔ کبھی اماں اور انکے ہم عمر اکٹھے ہوتے تو  چھوڑ آئے گاوں کے درختوں، مکانوں، حویلیوں، گلیوں، نہروں کا ذکر ہوتا۔ ایسے میں اُنکی آنکھوں میں عجب اداسی ہوتی، اُ نکی  آنکھوں میں ایک نہ نظر آتی نمی ہوتی۔ یہ ایک غمزدہ نسل تھی۔ وہ پودے جنہیں اپنی زمین سے اکھاڑ کر نئی زمین میں لگا دیا گیا ۔ وہ اس نئی زمیں میں جڑ پکڑ تو گئے مگر پرانی زمین کی باس، اُس کی خوشبو  وہ کبھی نہ بھلا پائے۔ یہ ایک غمزدہ نسل تھی۔ اماں نے اس غم کو پاکستان سے انتھک محبت میں بدل لیا ۔ اماں نےہمیں بتلایا کہ اس ملک کی کیا اہمیت ہے، اس کےحصول کے لیے کیا قیمت ادا کی گئی ہے۔ ہم سالہا سال لاہور میں رہے۔ یہ دور انڈین فلموں اور دور درشن کی مقبولیت کا تھا مگر ہمارے گھر میں کبھی ٹی وی پر انڈین چینل نہ لگا ۔ ہمارے گھر کی چھت پر لگے انٹینا کا رخ ہمیشہ پاکستان کی طرف ہی رہا۔

پاکستان ہجرت کے بعد اماں کےوالدین کو  جڑانوالہ کے قریب ایک گاوں میں زمین ملی اور وہ وہاں آباد ہو گئے۔ مگر ابھی زندگی رواں بھی نہ ہوئی تھی کہ اگلا دکھ  بھاگا آیا۔ گاوں میں کسی معمولی بات پر رشتہ دار لڑ پڑے، ایک شخص جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ اب یہ تھانہ کچہری کا معاملہ چل پڑا ۔ غریب لوگ لٹ پٹ کے آئے تھےمگر انا پرستی، عدم برداشت  اور عزت کے ایک سراب کے زیرِ اثر  اپنی ہی جان کے درپے ہوگئے۔ مقدمہ چل رہا تھے، دونوں فریقوں کے مرد حوالات میں تھے۔ ایسے میں فریقِ مخالف کی کسی عورت نے اماں سے چھوٹے بھائی اور اس سے چھوٹی بہن کو زہر آلود  مکئی کی چھلی دے دی۔ دونوں معصوم کہاں دشمنی کی بات جانتے تھے، دونوں زہر کا شکار ہو کر  مر گئے۔ اماں کبھی اپنے چھوٹے بھائی اور بہن کو نہ بھولیں۔ اُماں اور اُنکے بھائی ہیرے میں دو یا تین سال کا فرق تھا – کبھی کبھی اماں بھائی کو یاد کرتیں تو مجھے کہتیں آج ہیرا زندہ ہوتا تو اتنے سال کا ہوتا ۔ انکے لہجے میں ایک تاسف ہوتا، ایک دکھ۔ ایک بہن کا دکھ  جو کوئی طاقت نہ رکھتے ہوئے بھی سوچتی کہ کاش وہ کسی طرح اپنے ہیرے کو بچا لیتی ۔ میں اُنکا  چہرہ دیکھتا اور چپ سوچتا کہ انسان کی پتھر دلی نے کتنے ہیرے مٹی میں رول دیے۔

اب دشمنی کی ماہیت بدل گئی تھی، نسلیں ختم کردینے کے ارادے تھے۔ ایسے میں اماں کے والدین نے گاوں چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا۔ ایک ہجرت کے بعد یہ دوسری ہجرت تھی۔ جڑانوالہ سے اب یہ اندرون سندھ کی جانب نقل مکانی تھی۔  اور اس  سفر میں ایک بچی تھی، قسمت کے ہاتھوں ایک صعوبت سے نکل کر دوسرے امتحان کی جانب جاتی۔ اندرون سندھ میں رزق ڈھونڈتے یہ خاندان مختلف قصبات سے ہوتا بلآخر نواب شاہ تحصیل کے ایک قصبے ٹنڈوآدم میں آ کر  سکونت پذیر ہوا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

عاطف ملک
Latest posts by عاطف ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 74 posts and counting.See all posts by atif-mansoor