مسلم لیگ (ن) پر نواز شریف کا خود کش حملہ


انگریزی روزنامہ ڈان میں 12 مئی کو نواز شریف کے دئیے گئے انٹرویو کی گونج سے اس وقت تک پاکستان کا سیاسی ماحول تھرتھرا رہا ہے۔ ایک طرف نواز شریف کو غدار وطن قرار دے کر ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں اور دوسری طرف ایسے مہربان بھی موجود ہیں جو انہیں بھارت منتقل ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں کیوں کہ اہل پاکستان اس قسم کے ’ملک دشمن‘ بیانات کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ فوج نے نیشنل سیکورٹی کمیٹی کا اجلاس بلا کر اپنی پوزیشن واضح کردی ہے کہ نہ تو وہ اس قسم کے بیانیہ کو خاموشی سے سنے گی اور نہ ہی یہ بات تسلیم کی جائے گی کہ پاکستان کسی بھی طرح 2008 کے ممبئی حملوں میں ملوث تھا۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی انٹرویو کے بعد اڑنے والی دھول کو بھارتی میڈیا کے ہتھکنڈے قرار دے رہے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کے نئے نویلے صدر اور نواز شریف کے برادر خورد نے آج پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے دوران یہ کہہ کر نواز شریف سے فاصلہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس انٹرویو کا انتظام کرنے والے نواز شریف کے بد ترین دشمن تھے۔ انہوں نے شرکا کو یقین دلایا کہ نواز شریف آئیندہ متنازع بیان دینے میں احتیاط سے کام لیں گے۔ نہ جانے شہباز شریف نے یہ بیان کس برتے پر دیاہے کیوں کہ نواز شریف نہ صرف بیان پر اصرار کررہے ہیں بلکہ اس کی مزید تفصیلات بتانے کے اشارے بھی دے رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) میں توڑ پھوڑ کا عمل نواز شریف کے متنازع بیان سے پہلے بھی جاری تھا کیوں کہ اب اس سے کنگز پارٹی کا اسٹیٹس واپس لے کر پاکستان تحریک انصاف کو دیا جا رہا ہے۔ اس لئے سمجھ بوجھ رکھنے والے سیاسی ہیوی ویٹ تیز رفتاری سے تحریک انصاف میں شرکت کا اعلان کررہے ہیں اور عمران خان ہر روز چہرے پر نئی مسکراہٹ سجائے مسلم لیگ (ن) کے تازہ بہ تازہ بھگوڑوں کو پارٹی میں شامل کرکے ’نئے پاکستان ‘ کی تعمیر کا محاذ مضبوط کرنے کے لئے بنی گالہ کے ڈرائینگ روم میں رونمائی دیتے ہیں۔ اس طرح وہ اگرچہ ملک کا اگلا وزیر اعظم بننے کے مقصد کے قریب ہوتے جارہے ہیں لیکن اس مقصد کے لئے انہیں روزانہ آزمودہ اور گھاک سیاستدانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے یہ اقرار بھی کرنا پڑتا ہے کہ موجودہ پاکستان اتنا مضبوط اور سخت جان ہے کہ اسے تبدیل کرکے نیا پاکستان بنانا آسان نہیں ہے۔

عمران خان خود کو کتنا ہی اصولی رہنما ثابت کرنے کی کوشش کریں لیکن اپنے رویہ سے وہ روازانہ کی بنیاد پر یہ ثابت کررہے ہیں کہ وہ پرانے پاکستان کے نئے نویلے وزیر اعظم بننے کو ہی اپنی مکمل کامیابی سمجھنے پر راضی ہیں۔ باقی لوگوں کو اب صرف سال رواں میں منعقد ہونے والے انتخابات کے نتائج کا انتظار کرنا ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ حب الوطن سے غدار کا جو سفر نواز شریف نے تین دہائیوں میں مکمل کیا ہے، عمران خان اسے کتنے برسوں میں پاٹ سکتے ہیں۔ اس کا اندازہ وزیر اعظم ہاؤس میں عمران خان کے پہنچنے کے بعد ہی ہو سکے گا۔ عمران خان کے مزاج کے علاوہ ملک کے تیزی سے بدلتے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ قیاس کرنا مشکل نہیں ہو گا کہ اگر کسی طور عمران خان وزیر اعظم بن ہی گئے تو وہ کسی ’ میمو گیٹ ‘ یا ’ ڈان لیکس‘ اسکینڈل کے بغیر کس طرح پانچ سال کی مدت پوری کرسکیں گے۔ یہ اسکینڈل ہر اس وزیر اعظم کے لئے بنائے جائیں گے جو منتخب ہونے کے بعد خود کو طاقت کا مرکز اور پارلیمنٹ کو فیصلہ کرنے والا ادارہ سمجھنے کی غلطی کرے گا۔

نواز شریف اور فوج کے تنازع میں عام طور سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ وہ تین بار وزیر اعظم رہے اور انہیں پانچ آرمی چیف بنانے کا موقع ملا لیکن ان کا کسی آرمی چیف کے ساتھ نباہ نہیں ہو سکا۔ اس بیان سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ اپنے گھمنڈ اور غرور کی وجہ سے فوج کے ساتھ تصادم کی کیفیت پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ نتیجہ سامنے لاتے ہوئے ایک محیر العقل بات کہے بغیر تسلیم کرلی جاتی ہے اور یہ قیاس کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وزیر اعظم منتخب ہونے والا شخص اپنے اختیار پر اصرار نہیں کرے گا۔ تو آخر وہ کیا کرے گا۔ کیا عمران خان وزیر اعظم بننے کے بعد فوج کے سربراہ سے پہلی ملاقات میں یہ کہیں گے ’لیجئے میں منتخب ہو گیا ہوں ، اب جو آپ کا دل چاہتا ہے وہ کیجئے‘۔

اس تجزیہ میں یہ تسلیم کئے بغیر اس بات کو مان لیا جاتا ہے کہ فوج ہی اس ملک کی اصل قوت ہے اور کوئی بھی سیاست دان جب فوج کے بیانیہ یا مؤقف سے اختلاف کرتا ہے یا اس کے برعکس پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے پیدا ہونے والی مشکلات کا ذمہ دار بھی وہ خود ہوتا ہے۔ نواز شریف پر لعن طعن کرنے والے اسی بیانیہ کو تقویت دینے پر اصرار کررہے ہیں۔ جبکہ ملک کا آئین پارلیمنٹ کو باختیار بناتا ہے اور وزیر اعظم اکثریتی ارکان کا نمائیندہ ہونے کے طور پر فیصلے کرنے کا مجاز ہو تا ہے۔ اصولی طور پر فوج کو اس منتخب وزیر اعظم کی بات ماننے کے لئے تیار ہوناچاہئے۔ تاہم گزشتہ جولائی سے نواز شریف کی جو درگت بنائی گئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ آئین کے تقاضے اپنی جگہ لیکن ملک کے سیاسی اشاریے اور حرکیات مختلف ہیں ۔ یہاں ان ضرورتوں کے تحت یا تو آئین معطل و منسوخ ہو جاتا ہے یا آئین آئین کرنے والے وزیر اعظم کو پرائم منسٹر ہاؤس سے باہر نکال کر عدالتوں کے پھیرے لگانے پر مامور کر دیا جاتا ہے۔

نواز شریف کا بیان متنازع اور ملک دشمنی کے تمام عناصر سے معمور ہے اسی لئے شہباز شریف یہ بیان دلوانے والوں کو نواز شریف کا دشمن بتا کر فضا کو صاف کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تاکہ بھائی بندی بھی برقرار رہے اور اس مسلمہ حقیقت کو بھی تسلیم کرلیا جائے کہ فوج کا بیانیہ ہی حرف آخر ہے اور اسے چیلنج کرنا یا تو پاگل پن ہے یا ملک سے غداری۔ گویا ملک کے عوام سے ووٹ لے کر ان سے حاصل ہونے والے اختیار کے تحت ان کی ضرورتوں اور خواہشات کے مطابق ملک کو چلانے والے سارے سیاست دان بات تو آئینی بالادستی اور جمہوریت کی کر رہے ہیں لیکن ان کا عمل جمہوریت کش اور آئین مخالف ہے۔ یا تو آئین میں درج کروا لیا جائے کہ ملکی مفاد کا حتمی فیصلہ منتخب پارلیمنٹ نہیں غیر منتخب فوجی قیادت کرے گی یا سیاست دان یہ واضح کریں کہ فوج کے مفاد کو ملکی مفاد سے منسلک کرکے وہ اسے کس طرح آئین کی بالادستی اور جمہوریت کے فروغ کا نام دے سکتے ہیں۔

ممبئی حملوں کے حوالے سے نواز شریف کے بیان کے بعد یہ سوال بھی شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ نواز شریف چار برس تک وزیر اعظم رہے۔ انہیں اس دوران ان حملوں میں پاکستان کے کردار پر کیوں تشویش نہیں ہوئی کہ وہ اب اقتدار سے محروم ہو کر اپنے بیانات سے دشمن ملک کی پوزیشن مضبوط کرنے پر آمادہ ہیں۔ دراصل اسی سوال میں وہ تضاد موجود ہے جو اس وقت ملک میں آئین کی بالادستی اور جمہوریت کے تسلسل کے لئے سب سے بڑا خطرہ بنا ہؤا ہے۔ منتخب وزیر اعظم جب حساس معاملات پر رائے سامنے لانے اور فوج کو اس کے مطابق پالیسی تسلیم کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتا ہے، تبھی سیاست دانوں کی بدعنوانی ایک بھوت کی طرح رونما ہو تی ہے اور یہ بیانیہ عام ہو جاتا ہے کہ بدعنوانی کو ختم کئے بغیر ملک کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ اسی لئے بدعنوانی ان کرداروں تک جامد ہو جاتی ہے جو آئین اور فوج کے اختیار کے درمیان پیدا کی گئی نو مینز لینڈ کی موجودگی کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ باقی سارے الیکٹ ایبلز اپنی بدعنوانیوں کی پٹاریاں اٹھائے نئی کنگز پارٹی کا حصہ بن جاتے ہیں۔

اسی لئے یہ سوال نواز شریف سے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ بطور وزیر اعظم انہوں نے فوج کے غلط اقدامات کو روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی اور اب وہ قومی رازوں کو فاش کرکے کیوں ملک دشمنی پر کمر بستہ ہیں۔ اس مقصد کے لئے یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ منتخب وزیر اعظم کے مکمل اختیار کے لئے ماحول ساز گار بنایا جائے اور کہے بغیر یہ بات تسلیم کرنے کا رویہ تبدیل کیا جائے کہ فوج اس ملک کی سیاست میں حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے۔ کب تک ملکی سیاست میں فوج کو نو آجیکشن سرٹیفکیٹ جاری کرنے والی اتھارٹی کے طور پر تسلیم کیا جاتا رہے گا اور کب یہ صورت حال تسلیم کی جائے گی کہ فوج کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ مانا جائے کہ وہ ہمیشہ سے ملک کی اصل سیاسی قوت رہی ہے اور اس کی اس حیثیت کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا مشورہ دینے والوں کو پھر اس بات پر کیا اعتراض ہے کہ پارلیمنٹ سے آئین کو تبدیل کروا کے فوج بلکہ اب تو عدلیہ کو بھی سیاسی قوت کے طور پر تسلیم کروا لیا جائے تاکہ آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہوئے فوج کو مقتدر قوت ماننے کا مشورہ دینے والے خود تضاد کا شکار نہ ہوں۔

کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف کے بیان سے مسلم لیگ (ن) کو شدید سیاسی نقصان پہنچا ہے اور اب اسے سیاسی کامیابی کے لئے میدان میں اتارنا ممکن نہیں ہو گا۔ گویا نواز شریف نااہلی کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے لئے خود کش حملہ آور ثابت ہوئے ہیں۔ اس صورت حال کو وہ صرف اسی وقت تبدیل کرسکتے ہیں جب وہ صرف انکشافات تک ہی محدود نہ رہیں بلکہ ماضی میں وزیر اعظم بننے کے لئے یا بطور وزیر اعظم انہیں جو مصالحتیں کرنی پڑیں یعنی جن قومی غلطیوں کا حصہ بنے ، ان کی تفصیل بھی سامنے لائیں۔ اس حوالے سے وہ میمو گیٹ کا حوالہ دے چکے ہیں اور ڈان لیکس کی طرف بھی اشارہ کیا جاچکاہے۔ جب تک نواز شریف اپنا پورا مؤقف سامنے نہیں لائیں گے، ان سے یہ کہا جاتا رہے گا کہ وہ بطور وزیر اعظم جن غلطیوں کا تدارک نہیں کرسکے ،اب ان کا ذکر کرکے وہ قومی نہیں ذاتی مفاد میں قومی اداروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ بلکہ اس وقت تو ان کی اپنی ہی پارٹی ان کا نشانہ بنی ہے۔ قوم تو اسی بیان کو مستند اور حب الوطنی مانتی ہے جس کی تصدیق جی ایچ کیو سے ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali