خاتون اسسٹنٹ کمشنر کی ڈائری


میں سمجھتی ہوں کہ اس بڑے صوبے میں رمضان المبارک اسسٹنٹ کمشنرز کی صلاحیتوں کا کڑا امتحان ہوتا ہے۔ اُف اللہ! اس گرمی میں ہر روز رمضان بازاروں کے طوفانی دورے، گراں فروشوں اور روزہ خوروں پر چھاپے، قبل از وقت سموسے تلنے والوںکے چالان، ہر چالان پر اہل سیاست کا شوقِ مداخلت، نت نئی میٹنگز اور اس پر مستزاد کسی بھی وقت چیف منسٹر کا ہیلی کاپٹر اترنے کی سر پر لٹکتی تلوار۔ اس ٹینس ماحول میں ذرا سستانے کو دفتر میں آ بیٹھو تو گندے مندے سائل درخواستیں پکڑے گھسے چلے آتے ہیں۔

مجھے پچھلے سال کا خوب تجربہ تھا، لہٰذا اس دفعہ تو میں نے ماہِ صیام شروع ہونے سے قبل ہی درجن بھر نئے سوٹ سلوا لیے۔ میری توبہ! کتنا مشکل کام ہے، ہر سوٹ کے ساتھ میچنگ چادر اور دوپٹہ، میچنگ پرس، شوز، لپ سٹک، نیل پالش اور نجانے کیا کیا … لیکن کیا کیا جائے، جب آپ نے سارا رمضان بلا ناغہ بازاروں کے دورے کرنے ہوں تو لوگ کیا کہیں گے کہ اس لڑکی کے پاس صرف یہی پندرہ سولہ جوڑے ہیں کیا؟ تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔ رمضان سے قبل میں خواتین کی ایک تقریب میں گئی، جہاں ایک ڈاکٹر مجھے کہنے لگی ”اللہ ! آپ جب بھی یہ برینڈڈ سوٹ پہنتی ہیں تو آپ پہ کتنا جچتا ہے ‘‘ میں نے بھی اسے ترکی بہ ترکی جواب دیا ” خیر مجھ پر تو ہر کپڑا ہی جچتا ہے، ویسے آپ بھی کچھ کم نہیں، غالباً یہ ثنا سفینہ لان کا وہی سوٹ ہے جو آپ نے وزیر صحت کے دورۂ ہسپتال کے موقع پر بھی پہنا تھا ‘‘ اب تو بے چاری کی شکل دیکھنے والی تھی کہ شرم کے مارے زمین میں گڑی جا رہی تھی۔ میں نے ہنسی ضبط کرتے ہوئے دوپٹہ منہ پر رکھا اور سٹیج کی طرف کھسک گئی۔

میں رمضان بازاروں اور مدنی دسترخوانوں کے انتظامات کے سلسلے میں محکمہ مال اور بلدیہ کے افسران اور اہلکاروں کو داد دوں گی۔ ماتحت تحصیلداروں اور پٹواریوں نے تو ویسے بھی ہمیشہ مجھے اپنی بہن کا درجہ دیا ہے اور میرا گھر ہو یا دفتر، کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ تاہم اب جبکہ ریکارڈ مال کافی حد تک کمپیوٹرائزڈ ہو چکا ہے تو خود ان لوگوں کی اپنی حالت بھی خاصی پتلی ہو گئی ہے۔ اللہ خیرے کرے، ان کی طرف سے اتنا خیال رکھنے کے سبب میری، میرے بچوں اور شوہر کی عادتیں کافی بگڑ چکی ہیں۔ یہ شوہر صاحب کا ذکر تو نادانستہ ہی آ گیا۔ اللہ جانتا ہے کہ جو یونیورسٹی میں میرا ہیرو تھا، اب مجھے زہر لگتا ہے۔ میں سی ایس ایس کے امتحان میں پاس ہو کر اعلیٰ افسر بن گئی اور وہ فیل ہو کر لیکچرار کا لیکچرار ہی رہا۔ خدا کی شان ہے کل تک جو مجھے مرد کی برتری کے دلائل دیتا تھا اب میرے سامنے بھیگی بلی بنا رہتا ہے۔ ویسے آخر کار اس پس ماندہ معاشرے میں بھی عورت نے اپنا آپ منوا ہی لیا ہے۔ اب تو کون سا ایسا شعبہ ہے جہاں خواتین مردوں سے پیچھے ہیں ؟ ایک انتظامیہ اور پولیس کی پوسٹیں رہ گئی تھیں، جہاں اب کتنی ہی باہمت خواتین اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ بس ذرا مشکل پیش آتی ہے تو جلسے جلوسوں اور مظاہروں کے دوران۔ نان سینس قوم ہے، انہیں ڈیل کرنا آسان نہیں۔ اگلے دن لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کرنے والوں نے شہر کے بڑے چوک میں دھرنا دے کر سڑک بند کر دی۔ ایک گھنٹے تک پولیس انہیں قابو نہ کر سکی تو میں خود مظاہرین کے پاس گئی اور انہیں سختی سے حکم دیا کہ پانچ منٹ کے اندر دفع ہو جائو یہاں سے۔ میرا حکم ماننے کی بجائے جاہلوں نے واپڈا کو چھوڑ کر میرے خلاف نعرہ بازی شروع کر دی۔ میں گھبرا کر رونے لگی۔ ڈی ایس پی صاحب نے کہا کہ میں تو انہیں منتشر ہونے پر آمادہ کر چکا تھا، مگر آپ نے سارا کام ہی خراب کر دیا۔ میں غصے سے پائوں پٹختی گاڑی میں بیٹھی اور دفتر آ گئی۔

بات میں گزشتہ سال کے رمضان بازاروں کی کر رہی تھی‘ تو ہمارے جادوگروں نے دکانداروں سے مل کر ایسے شاندار انتظامات کیے کہ ساری انتظامیہ خوش ہو گئی۔ ویسے تو ان بازاروں میں گلے سڑے پھل، سبزیاں اور باسی گوشت وغیرہ پڑے رہتے تھے مگر ان لوگوں کی کما ل فنکاری یہ تھی کہ ادھر کسی وزیر یا افسر کے دورے کی بھنک پڑی، ادھر جادوئی طریقے سے آناً فاناً تازہ سبزیاں اور پھل دکانوں میں سج گئے اور میں اللہ کے کرم سے ہر دفعہ سرخرو ہوئی۔ ایک دن میں شام کو تھکی ہاری گھر پہنچی تو اچانک ہیلی کاپٹر کے چنگھاڑنے کی آوازیں آنے لگیں۔ میں سمجھ گئی کہ چیف منسٹر صاحب سرپرائز وزٹ پر آ پہنچے ہیں۔ میرے تو ہاتھ پائوں پھول گئے۔ سارے کپڑے نکال کر میں نے سامنے رکھ دیے مگر کوئی بھی فائنل نہیں ہو رہا تھا۔ اوپر سے ڈر کہ یا اللہ ! اگر وزیر اعلیٰ صاحب نے کوئی خامی پکڑ لی یا کسی نے شکایت کر دی تو کیا ہو گا؟ اے ڈی سی صاحب مجھے بار بار فون کر رہے ہیں کہ میں جلدی پہنچوں، سی ایم صاحب کا ہیلی کاپٹر لینڈ کرنے ہی والا ہے مگر میں ہوں کہ بس روئے جا رہی ہوں۔ آخر ڈپٹی کمشنر صاحب نے مجھے فون پر ڈانٹا تو میں نے جلدی جلدی دیپک پروانی شفون کے نئے سبز پیرہن کا انتخاب کر کے میک اپ کیا اور اسی تیزی سے اپنے ڈرائیور اور گن مینوں کے ہمراہ رمضان بازار پہنچ گئی۔ میرے محنتی اور فرض شناس ماتحتوں نے جھٹ پٹ ایسے شاندار انتظامات کیے تھے کہ رمضان بازار تازہ پھلوں، سبزیوں اور دیگر اشیائے خور و نوش کی خوشبو سے مہک رہا تھا اور ہمارے سرکاری و غیر سرکاری بندے گاہکوں کے روپ میں جا بجا پھیلے ہوئے تھے۔

حکمران جماعت کا ایک مقامی کھڑپینج سا کارکن جو وقتاً فوقتاً مجھ سے دفتری امور میں سفارشیں کرتا رہتا ہے، میری طرف اشارہ کر کے بولا ” سر! جب سے یہ فرض شناس اور دیانت دار میڈم یہاں آئی ہیں، ہمارا شہر تو جنت کا نمونہ بن گیا ہے ‘‘۔ چیف منسٹر صاحب نے میری طرف ستائشی نظروں سے دیکھا تو میں شرما سی گئی۔ تب اچانک میرا دھیان رمضان بازار کی پچھلی جانب گندگی کے ڈھیروں اور غلیظ جوہڑ کی طرف چلا گیا، جن کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی سڑک دور تک جاتی ہے۔ میں نے گھبرا کر ادھر دیکھا مگر جادوگروں نے کمال مہارت سے کناتیں لگا کر اسے چھپا دیا تھا۔ اعصاب شکن ماحول کے باوجود جنت والی بات پر پسینہ صاف کرنے کے بہانے مجھے ٹشو پیپر منہ پر رکھنا پڑا، ورنہ افسران بالا ناراض ہوتے کہ یہ کون سا موقع ہے ہنسنے کا؟ وزیر اعلیٰ صاحب کے ہیلی کاپٹر نے واپسی کے لیے اڑان بھری تو تمام انتظامی اور پولیس افسران نے ایک دوسرے کو دلی مبارک باد دی۔ میں مسرور و شاداں اپنے سرکاری بنگلے پر پہنچی، ڈٹ کر کھانا کھایا اور ایک کامیاب اے سی، اے سی لگا کر لمبی تان کر سو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).