تاش کی گڈی میں جوکر


جون 2012ء کی ایک گرم سہ پہر تھی۔ ایوان صدر سے فون موصول ہوا۔ خلاف توقع، دوسری طرف احمد مختار بول رہے تھے۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہ صدر پاکستان کے کمرے سے بات کر رہے ہیں۔ میرا ماتھا ٹھنکا۔ چند دن پہلے احمد مختار کووزارتِ دفاع سے ہٹا کر، پانی اور بجلی کا قلمدان سونپا گیا تھا۔ اُنہوں نے اطلاع دی کہ مجھے سیکرٹری وزارت تجارت سے تبدیل کر کے پانی اور بجلی کی ذمہ داری دی جا چکی ہے۔ میں گزشتہ اڑھائی سال سے سیکرٹری تجارت کی ذمہ داری نبھا رہا تھا۔ رٹائرمنٹ میں صرف دس ماہ باقی تھے۔ چاہتا تھا کہ رٹائرمنٹ تک کہیں اور تعینات نہ کیا جائے۔ اُن دنوں گرمی کے ساتھ ساتھ لوڈ شیڈنگ بھی عروج پر تھی۔ حکومت کو چاروں طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ رینٹل پاور پلانٹ کا منصوبہ متنازع ہو کر تدفین کے مراحل سے گزر رہا تھا۔ حکومت کے پاس لوڈ شیڈنگ کے عفریت سے نمٹنے کا کوئی لائحہ عمل نہ تھا۔ نئی پوسٹ کانٹوں کی سیج تھی۔

تعیناتی کے چند دن بعد صدر پاکستان کو بجلی کی صورتِ حال پر بریفنگ دی۔ جلد ہی عیاں ہوگیا کہ صدر پاکستان کی نظر آئندہ الیکشن پر مرکوز ہے۔ وہ 2013ء کے دوران، جنوری سے اپریل تک، بجلی کی طلب و رسد میں فرق دیکھ کر لوڈ شیڈنگ کے دورانیے کا اندازہ لگا رہے تھے۔ فروری یا مارچ کے دوران لوڈ شیڈنگ میں کمی ہوتی ، مگر اِن مہینوں میں الیکشن کروانے پر چند ماہ کے اقتدار کی قربانی دینا پڑتی۔ یہ الگ قصہ ہے کہ حکمران پارٹی نے نفع نقصان کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا کہ دورِ اقتدار کا ایک دن بھی ضائع نہ کیا جائے۔ الیکشن مئی میں منعقد ہوئے۔ گرمی زوروں پر تھی۔ لوڈشیڈنگ کا ستایا ہوا ووٹر پولنگ اسٹیشن پہنچا تو اُس نے حکومت وقت کو ووٹ نہ دیا۔

الیکشن کے بعد وفاق میں (ن) لیگ کی حکومت بنی۔ پارٹی کی قیادت کو احساس تھا کہ 2018ء کے الیکشن میں جیت ہار کا فیصلہ، لوڈشیڈنگ کے خاتمے پر منحصر ہو گا۔ شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے، وہ بخوشی اِس عمل میں وفاق کا ہاتھ بٹانے کے لئے تیار تھے۔ مشکل تھی کہ صوبائی حکومتوں نے کبھی بجلی کی پیداوار میں حصہ نہیں لیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس نہ ماہرین کی ٹیم تھی اور نہ ذاتی تجربہ۔ وقت کم تھا۔ کچھ دیر ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بعد احساس ہوا کہ فوری طور پر صرف تھرمل بجلی گھر ہی ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کو مالی انتظام میں وقت درکار ہوتا ہے۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ پنجاب حکومت بجلی کی پیداوار کے لئے اپنے وسائل استعمال کرے۔ وفاق نے بھی ہاتھ بٹایا اور بلوکی، حویلی بہادر شاہ اور بھکھی کے پاور پلانٹ وجود میں آئے۔ اِن تینوں کی کل استعداد ساڑھے تین ہزار میگا واٹ ہے۔

میرے صحافی دوست اکثر پانی اور بجلی کے معاملات پر مجھ سے سوال کرتے رہتے ہیں۔ شاید اُس کی وجہ ہے کہ پانی اور بجلی کی وزارت کے بعد واپڈا کی سربراہی بھی میرے پاس رہی۔ اِن صحافیوں میں وہ بھی شامل ہیں جو کسی مخصوص سیاست دان سے متنفر ہیں۔ نام سُن کر ہی بدذائقہ ہو جاتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو اُسی لیڈر کے مداح ہیں اور آسانی سے اُس کی کوتاہی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ تقریباً ایک برس پہلے دوستوں کی محفل میں، آئندہ الیکشن کا جائزہ لیا جا رہا تھا۔ گفتگو کے دوران سب کا خیال تھا کہ بجلی کا مسئلہ حل کرنے پر حکمران پارٹی آئندہ الیکشن جیت جائے گی۔ اب حالات بدل چکے ہیں۔ الیکشن کے حوالے سے بجلی کا ذکر کم ہوتا ہے۔ عدالتی فیصلے، نیب کی انکوائریاں اور قومی سلامتی کے مختلف پہلو، میڈیا میں مرکزِ نگاہ رہتے ہیں۔ حکومت کے مخالفین کا خیال ہے کہ غیر سیاسی وجوہ پر آئندہ الیکشن میں (ن) لیگ کی کامیابی کا امکان معدوم ہوچکا ہے۔ اِس گفتگو میں حکومت کے ایک حمایتی، اُمید کا دامن چھوڑنے پر تیار نہ تھے۔ اُنہوں نے تاش کی گڈی کی مثال دی۔ کہنے لگے، تاش کی گڈی میں باون پتوں کے علاوہ، جوکر بھی ہوتا ہے۔ کچھ کھیل، جوکر کے بغیر کھیلے جاتے ہیں اور چند بازیوں میں جوکر کا کردار بہت اہم ہے۔ پتوں کی تقسیم میں، جوکر ہاتھ لگے تو جیت کا امکان روشن ہو جاتا ہے۔ اِسی لئے انگریزی زبان میں (Joker in the pack) ’’جوکر اِن دا پیک‘‘، ایک محاورہ بن چکا ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ کھلاڑی کے پاس جوکر ہو تو حیرت انگیز طور پر بازی پلٹ سکتی ہے۔ اُنہوں نے یاد دلایا کہ گزشتہ الیکشن مئی میں منعقد ہوئے۔ طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ نتائج پر اثر انداز ہوئی۔ اِس دفعہ الیکشن جولائی میں ہوں گے۔ قیامت خیز گرمی میں لوڈ شیڈنگ کا جوکر نتائج پر اثر انداز ہو گا۔

اگر لوڈ شیڈنگ جاری رہی تو حکومت کو عوامی حمایت سے محرومی کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا۔ اِس وقت ایل این جی سے چلنے والے منصوبے اپنی ابتدائی مشکلات سے گزر رہے ہیں۔ اور پھر اِس سال دریائوں میں پانی کی آمد بہت کم ہے۔ زراعت کے علاوہ پانی کی کمی، پن بجلی کی پیداوار پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ نئے منصوبوں کے علاوہ بھی پن بجلی کی استعداد 7000 ہزار میگا واٹ سے بھی زیادہ ہے، مگر اِس وقت تین سے چار ہزار میگا واٹ پن بجلی سسٹم کو دستیاب ہے۔ نیلم جہلم اور تربیلا فور پراجیکٹ ابتدائی پڑتال کے مراحل میں ہیں۔ مکمل پیداوار شروع ہونے میں چند ہفتے باقی ہیں۔ اگر آئندہ دنوں میں پانی کا بہائو تیز ہوا تو اضافی پن بجلی کی دستیابی صورتِ حال کو یکسر تبدیل کر دے گی۔ اگر الیکشن تک تمام منصوبے اپنی استعداد کے مطابق کام کریں تو لوڈ شیڈنگ ختم اور عوام خوش ہو جائیں گے۔ اِس صورت میں موجودہ حکومت کے ستارے گردش سے نکل آئیں گے۔ الیکشن کے دن لوڈ شیڈنگ کا جوکر کھیل کا پانسا پلٹ سکتا ہے۔ گمان غالب ہے کہ لوڈ شیڈنگ سے جان چھڑوانے پر عوام اِس حکومت کو اپنے ووٹ سے نواز دیں گے۔

لیگی حکومت کے حامی کی بات سُن کر، حکومت مخالف صحافی کے لبوں پر مسکراہٹ آئی۔ آنکھوں میں شرارت کی چمک نمایاں ہو گئی۔ ہنس کر کہنے لگے،’’ تاش کی گڈی میں ایک نہیں، دو جوکر ہوتے ہیں۔ پیداوار بڑھانے کا جوکر (ن) لیگ کے ہاتھ آ گیا تو بھی بات نہیں بنے گی۔ دُوسرا جوکر اِس کا توڑ کر سکتا ہے۔‘‘ اُن کی بات سُن کر ہر شخص کے ذہن میں سوال اُٹھے، مگر اُنہوں نے اگلے ہی لمحے وضاحت کر دی۔ کہنے لگے، ’’بجلی کی تقسیم کا پرانا نظام ہی چل رہا ہے۔ اُس میں تو خاطر خواہ بہتری نہیں ہوئی۔ اگر الیکشن کے دوران، نیشنل گرڈ میں خرابی پیدا ہوئی تو الزام کس پر لگے گا؟‘‘ پھر ہنس کر کہنے لگے، ’’(ن) لیگ ہی ذمہ دار ٹھہرائی جائے گی کہ اُس نے گرڈ سسٹم کو بہتر بنانے کے لئے سرمایہ کاری نہیں کی۔ چیختی چلاتی سرخیاں اُس کا پیچھا کریں گی۔ کہا جائے گا کہ (ن) لیگ کی غلطی سے آج سارا پاکستان تاریکی میں ڈوب چکا ہے۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگے ۔ ہنستے ہنستے اُن کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ جب اُنہوں نے دوبارہ آنکھیں کھولیں تو پوری سنجیدگی سے بولے، ’’مت بھولیں کہ تاش کی گڈی میں ایک نہیں، دو جوکر ہوتے ہیں۔ اگر الیکشن سے ایک دن پہلے بجلی دغا دے گئی تو لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں میں (ن) لیگ کے ستارے بھی ڈوب جائیں گے۔‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood