یروشلم سے آگے


ٹی وی سکرینوں پر ایک طرف ٹرمپ کے بچوں کے کھلکھلاتے چہرے اور دوسری طرف اسرائیلی فوج کو غزہ کے فلسطینیوں کا شکار کھیلتے دیکھ کر آنکھوں میں دھواں سا بھر گیا۔

ایک کے بعد ایک چینل پر عالمی تجزیہ نگاروں کی بات سننے کی کوشش کی کہ حماس فلسطینیوں کو مروا رہی ہے یہ جو نہتے جوان اور بچے جو مارے جا رہے ہیں۔ یہ تو دہشت گردوں کا ہراول دستہ تھے۔ ان کو نہ مارتے تو پیچھے سے اور آتے جو اسرائیل کو نیست و نابود کر دیتے۔

قتل عام کو مجبوری کے طور پر پیش کرنا دفاعی تجزیہ نگاروں کا دھندہ ہے۔ مسلم اُمہ کے دوغلے پن پر ماتم کرنا ہمارا دھندہ ہے۔

اس لیے غزہ میں ہونے والے قتل عام اور یروشلم میں امریکی سفارت خانہ کھلنے کے جشن سے ذرا پیچھے چلتے ہیں۔

یروشلم سے 30 کلومیٹر دور ایک قصبہ ہے جس کا نام ہیبرون ہے۔ عربی میں اسے الخلیل بھی کہتے ہیں۔ تاریخی قصبہ ہے وہاں حضرت ابراہیم کا مزار ہے۔ اپنے آپ کو اہل کتاب کہنے والے یعنی مسلمان، مسیحی اور یہودی اور کسی بات پر اتفاق کریں نہ کریں حضرت ابراہیم کو خدا کا بزرگ نبی مانتے ہیں۔

اپنے اپنے نبی کے حوالے سے حضرت ابراہیم سے رشتے داری بھی ہے۔ ہم سب کے دادا پیغمبر حضرت ابراہیم ہیں اور سب مقدس کتابوں میں ان کا ذکر ملتا ہے۔

فلسطین
ہیبرون کی تاریخی مسجد ابراہیمی

اس گناہ گار کی حضرت ابراہیم کے مقبرے پر پہلی حاضری کوئی آج سے 18، 19 سال پہلے ہوئی۔ مسجد ابراہیمی میں سجدہ کر کے دل تو عقیدت سے مامور ہوا لیکن ہیبرون کے گلیوں بازاروں میں پھرتے ہوئے آنکھیں بھی چندیا گیئں۔

آپ پاکستان میں کبھی کسی بڑے بزرگ کے میلے پر گئے ہوں گئے مثلاً داتا صاحب، شہباز قلندر یا شاہ لطیف، ہیبرون میں ایک میلہ تھا جو مسلسل سارا سال چلتا تھا۔ دنیا بھر سے ایک خدا کو لیکن اس کے مختلف پیغمبروں کے پیروکار بڑے بڑے گروہوں کی شکل میں گھومتے تھے۔

چکاچوند روشنیوں اور میلے ٹھیلے کے دکانداروں کی طرح خوش مزاج کاروباری لوگ جو ایک درجن زبانوں میں بھاؤ تاؤ کرتے تھے اور گاہک ایک دفعہ دکان کے آگے ایک لمحے کے لیے ٹھہرے تو بچ کر نہ جائے۔

یروشلم
1000 قبل مسیح میں پیغمبر حضرت داؤد نے شہر فتح کر کے اسے  دارالحکومت بنا لیا تھا

اور مال کا تنوع ایسا کہ آپ ایک ہی دکان سے صلیب بھی خریدیں، دل کرے تو قرآنی آیات سے مزین خجر خریدیں یا درجنوں کے حساب سے یہودیوں کےسر پر پہننے والی ٹوپیاں خریدیں۔

میں نے ایسا بابرکت شہر زندگی میں کم ہی دیکھا ہے جو ہزاروں سال سے دادا کے نام پر کیے جانے والے دھندے پر چل رہا ہو۔ زائرین بھی خوش، دکاندار بھی خوش اور میں نے سوچا کہ حضرت ابراہیم کی روح مقدس بھی خوش ہوتی ہو گی۔

یہ دیکھ کر کہ ان کی اولادوں کی اولادوں کی اولادیں اور کہیں اکٹھی ہوں نہ ہوں ان کے اپنے شہر میں ایک ہی چھت کے نیچے عبادت بھی کر سکتی ہیں اور دھندا بھی۔

لیکن شاید میرا عقیدت بھرا دل اور دنیا کا سب سے بڑا میلہ دیکھ کر میری چندھیائی ہوئی آنکھیں پوری بات نہیں سمجھ پا رہی تھیں۔

عین حضرت ابراہیم کی قبر کے بیچوں بیچ لوہے کی ایک گرل لگا کر ہمارے دادا پیغمبر کو دریچوں میں تقسیم کیا جا چکا تھا۔

1994 میں ایک اسرائیلی نے مسجد ابراہیمی میں گھس کر دو درجن سے زیادہ نمازیوں کو شہید کر دیا تھا۔

اس کے بعد اسرائیلیوں نے حضرت ابراہیم کی پارٹیشن کر دی کہ مسلمان ایک طرف سے عبادت کریں اور باقی لوگ دوسری طرف سے آ کر اپنے اپنے طریقے سے خراج عقیدت پیش کریں۔

فلسطین
وہ گلیاں سنسان تھیں جن میں عقیدت مندوں کی وجہ سے چلنا مشکل ہوتا تھا 

لیکن حضرت ابراہیم کی قبر پر لگی لوہے کی گرل کے باوجود عقیدت مندوں کا ہجوم تھا اور دھندہ زوروں پر تھا۔ چار پانچ سال پہلے پھر بلاوا آیا، ہیبرون میں حاضری پر پہنچا تو آنکھوں نے جو منظر دیکھا دل اور دماغ دونوں دھواں دھواں ہو گئے۔

مسجد ابراہیمی پر بڑے بڑے لوہے کے تالے اور اس کے آگے کھڑے سولہ سولہ سال کے اسرائیلی فوجی جو گلی سے بچہ بھی گزرے تو اس پر اپنی آٹومیٹک بندوق تان لیتے تھے۔

دکانیں بند ہونے کے بعد جن گلیوں میں عقیدت مندوں کی رش کی وجہ سے چلنا مشکل ہوتا تھا ان گلیوں میں نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔

ہوا یوں تھا کہ مغربی ملکوں سے کوئی پانچ سات سو یہودی آبادکار ہیبرون کے بیچ میں آ کر بیٹھ گئے اور کہا کہ اس شہر پر ہمارا تاریخی حق ہے۔

ان کی حفاظت کے لیے اسرائیل نے ایک بریگیڈ فوج لگائی۔ شہر کے مرکز سے ان فلسطینیوں کو جن میں مسلمان اور عیسائی شامل تھے اور جو ہزاروں سالوں سے وہیں رہ رہے تھے سب کو نکال باہر کر دیا۔

جب کوئی تھوڑی سی مزاحمت ہوئی تو مسجد ابراہیمی پر تالے لگا دیے اور ہزاروں سال سے جاری میلہ بند کر دیا۔

تو اس اسرائیلی حکومت نے ہم سب کے دادا پیغمبر کو جلاوطن کر دیا اور پوری دنیا کے اربوں عیسائی، مسلمان اور یہودی کچھ نہ کر سکے تو فلسطینیوں کی نسل در نسل جلاوطنی پر کوئی کیا کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).