مئی اور ایٹمی کہانی


شمالی کوریا نے مزید ایٹمی دھماکہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ خبر کم از کم دشمن ملک امریکہ کو بہت خوش آئند لگی ہو گی۔ مجھے بیس برس پہلے کا مئی کامہینہ یاد آگیا۔ پہلے انڈیا نے پھر پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے اور پاکستان مسلم امہ کا پہلا مسلمان ملک بن گیا، جس نے ایٹمی دھماکہ کیا تھا۔ بات آئی گئی نہیں ہوئی۔

جیسے کم جونگ دھمکی دیتا تھا کہ میرے پاس ایٹمی بٹن ہے، وہ کسی وقت بھی دبا سکتا ہوں۔ ٹرمپ نے جواباً کہا کہ میرے پاس تم سے بھی زیادہ طاقت والا بٹن ہے۔

پھر شاید کسی نے سمجھایا ہو گا، مگر یہ دونوں ممالک کے سربراہ بہت سر پھرے ہیں۔ کسی کی سنتے ہی نہیں۔ شمالی کوریا نے ایسی چال چلی ہے کہ ایک طرف وہ جنوبی کوریا سے رشتہ استوار کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور شمالی کوریا کے صدور کی آپس کی ملاقات ہونے کی بھی نوید ہے۔

اب انڈیا پاکستان کے ایٹمی خزانے کی بہت سیکورٹی کی جا رہی ہے۔ دھمکیوں پر دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ دونوں میں سے جو پہل کرے گا، ملک تباہ ہو جائے گا۔ پھر روز مرہ، میزائل ٹیسٹ بھی کئے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی وضاحت کہ فلاں میزائل کتنے فاصلے تک مار کر سکتا ہے۔ پاکستان والے تو باقاعدہ ایٹمی دھماکے کا ہر سال جشن مناتے اور ساری دنیا پر رعب ڈالتےہیں۔

اب جب کہ روس جس کے پاس سب سے زیادہ یورنیم اور ایٹمی ہتھیار تھے ۔ وہ خود ہی تباہ کر چکا ہے۔ یہ دونوں غریب ملک کہ جہاں آدھی آبادی غربت اور صحت کے مسائل میں مبتلا ہے۔ وہاں مجھ جیسی کند ذہن خاتون کو یہ تو بتائو کہ ایٹمی طاقت بننے سے، ہمارے کونسے عوامی مسائل حل ہوئےہیں۔ ایٹمی قوت سے کیا ہم بجلی کی پیداوار بڑھا رہے ہیں۔

کیا دوسرے ممالک کو در پردہ ایٹمی قوت ایکسپورٹ کر کے زرمبادلہ کما رہے ہیں۔ یہ سوال اس لئے بھی پیدا ہوا کہ مشرف دور میں کوئی چار ہزار افرادکو، زرکیئر لے کر، دیگر ممالک کے حوالے کیا گیا اور ہمیں کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ تو شاید اسی انداز کی کوئی اور تجارت بھی ہو رہی ہو گی۔ مثلاً روز، مودی صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کی ہیں کیا انجام ہوا کہ پاکستان تو اس بات کی تردید کرتا ہے۔

کیا یہ دونوں ملکوں کا بچپنا ہے۔ ستر سال گزرنےکے بعد بھی، دونوں ممالک میں سنجیدگی او رامن کا لفظ ہی غائب ہو گیا ہے۔ کیا عجب بات ہے کہ ہمارے پاس ٹیکسلا ہے، موہنجو داڑو ہے، مہر گڑھ ہے، شمالی علاقہ جات میں بے پناہ اشوک کے زمانے کے آثار ہیں۔ ان کے حوالے سے کوئی سیاحتی پالیسی ہی آج تک وجود میں نہیں آئی ہے۔ جب کہ پیرو میں اسقدر سیاح ہیں کہ حکومت کو کنٹرول کرنا پڑ رہا ہے۔

فلپائن اور تھائی لینڈ کا بھی یہی حال ہے۔ جنوبی کوریا کے جزیرے کو دیکھنےکو بھی روزانہ ڈھائی ہزار سیاح آتے ہیں۔ یورپ میں ایک سال پہلے سے سیاح بکنگ کرواتے ہیں۔ ہم نا مراد طالبان کے ڈر سے پہلے تو یہ کہا کہ سفارت خانوںمیں ، فیملیز نہیں آئیں گی۔ اگر کوئی عورت ملازم ہے تو وہ آسکتی ہے۔ پھر کہا گیا کہ سارے قابل دید سیاحت کے مراکز چونکہ دہشت گردوں کے نرغے میں آتے ہیں۔ اس لئے وہ بھی ممنوعہ علاقے بن گئے۔ ویسے انڈیا والے کون سے کشادہ دل ہیں۔ عرس پر جانے والوں کا بھی لحاظ نہیں کرتے البتہ ان کے یہاں ملٹی کلچر سوسائٹی ہے، اس لئے بی۔ جے۔ پی والے سوائے مسلمانوں کے، باقی سب کو ہلا گلا کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔

ویسے بھی سیاسی، سماجی اور نفسیاتی نقطہ ٔ نظر سے دیکھا جائے تو صرف ایٹم بم کا جھنجھنا دکھا کر دنیا بھر کو مرعوب نہیں کر سکتے۔ گزشتہ 20 برس اس کے گواہ ہیں کہ ایٹم بم کے باوجود، دہشت گردی ، لاقانونیت، جنسی جرائم، غربت، جہالت اور مذہبی جنونیت بڑھنے کے سوا اور کچھ نہیں ہوا۔ گویا ایٹم بم کے باوجود ہماری سیاسی اور سماجی زندگی میں خوف ہی بڑھا ہے۔

سکون اور امن کا دور دور تک سایہ بھی نہیں ہے۔ اب بھی جو نیا بجٹ ہے اس میں ترقیاتی فنڈز کم ہیں۔ اس طرح بے شمار وظیفے اس لئے ضائع ہو جاتے ہیں کہ ہمیں ان کے لئے اپنا کوئی رشتہ دار نہیں ملتا ہے۔ پاکستان میں مئی کا پورا مہینہ یہ اعلان کرتے ہوئے گزر گیا کہ ہم نے ایٹم بم بنا لیا، کہ اسلامی دنیا کی سب سےبڑی قوت ہیں۔ ہمارے نصاب میںشامل کیا جائے کہ ایٹمی صلاحیت کن کن بنیادی ضرورتوں کے لئے کام آسکتی ہے۔ سب سے اہم ضرورت تو ذہانت ہے کہ جس کو فروغ دینے کے لئے، نہ کوئی یونیورسٹی کام کرتی ہے نہ کوئی سیاسی جماعت اور نہ کوئی این جی او.

اب تو یہ ہو رہا ہے جو بہت پڑھا لکھا ہو اور یونیورسٹی میں طلبا کا شعور بیدار کرنے کے لئے ، کسی موضوع چاہے پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کی آج کی سیاسی تحریکیں، سعودی عرب کا نیا چہرہ اور اس پر ہمارے سارے علما دیدہ دلیر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، جب کہ ایران میں سر سے دوپٹہ ڈھلک جائے تو خاتون سزا وار ٹھہرتی ہے۔

مئی کے مہینے میں جہاں ایٹم بم اور وہ بھی پاکستان کا زیر بحث آئے گا۔ وہیں ہمارے دانشوروں بلکہ ہندوستان کے دانشوروں کو بھی مایا وتی کے اس بیان پر غور کرنا چاہئے کہ دونوں ممالک میں چپقلش ، کسی ایک کے لئےبھی فائدہ مند نہیں ہو گی۔ مایا وتی ایک دلیر خاتون ہے جس نے سیاست کے سارے دائو پیچ کھیلے ہوئے ہیں۔ اگر وہ ہندوستان کے الیکشن سے پہلے، ساری لبرل پارٹیوں کو منظم کرنے کی بات کرتی ہے، اسی طرح پاکستان کی لبرل پارٹیوں کوبھی متحد ہونا چاہئے۔ ورنہ مذہبی انتہا پسندی اور اس کا انجام تو ہم دیکھ چکے ہیں۔

مایا وتی ایسے مشکل وقت میں ان پارٹیوں کو اتحاد کا کہہ رہی ہے جب اسے انتہا پسندجماعتیںقتل کروانا چاہتی تھیں۔ ہمارے دونوں ملکوں کے الیکشن بھی ہمارے بہتر مستقبل کے آئینہ دار ہو سکتے ہیں۔ ہمیں اگر جنوبی پنجاب کی آواز سننی ہے تو ہمیں ہزارہ اور پشتون لوگوں کی بات سمجھنی پڑے گی۔ اب غدار کہنے کے زمانے لد گئے ہیں۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).