بے ادب آمر


علیحدہ علیحدہ باب قائم کرکے اہم تر آمروں کا حال لکھا گیا ہے۔ کتاب میں کوئی نظریاتی بنیاد (theoretical base) قائم کرنے یا نفسیاتی تجزیہ پیش کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ کمی کے بجائے یہ بات مجھے اس کی سب سے بڑی خوبی معلوم ہوتی ہے۔ اقتدار کی نفسیات کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور اہل اقتدار کی نفسیات کے بارے میں بھی__ دنیا کے چند معزول شدہ آمروں کی انٹرویوز پر مشتمل ایک یورپی صحافی Riccandio Orizio کی چھوٹی سی کتاب Talk of the Devil: Encouners with seven Dictators میں اب تک بھول نہیں سکا۔ اس کے سب سے زیادہ ناقابل فراموش کردار افریقی ہیں۔ پولینڈ کے صحافی اور ادیب کاپو شنسکی کی تحریریں بھی یاد آتی ہیں حالانکہ اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ حقائق سے زیادہ تخیّل سے کام لیتا تھا۔ اپنے طور پر کیلڈر نے ان آمروں کی مختلف کتابوں کے خلاصے اور پس منظر بیان کیا ہے جو بڑا مفید ہے ورنہ کون صحیح الدماغ آدمی ان کو پڑھتا اور پڑھ کر پیش و حواس میں رہتا؟ اس انداز کی افادیت اس لحاظ سے مسلّم ہے۔ لیکن وسعت کچھ اور چاہیے بیان کے لیے۔ آمروں کی کہانی میں، مَیں ان ٹکڑوں کو ڈھونڈتا ہوں جب کوئی ادیب نہ چاہتے ہوئے بھی اس میں شامل ہو جاتا ہے۔ ان کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتا اور پھر اپنی نظم میں یا افسانے میں آمر کا ایسا نقشہ کھینچ دیتا جو بُھلائے نہیں بھولتا۔ لینن کا سیاسی عروج اور سوویت روس کے باضابطہ منصوبے میخائل بلگاکوف اور بورس پیسٹرناک کے ناولوں کے ذریعے سے دیکھیں جائیں تو کیسے نظر آئیں گے؟ اسی طرح اسٹالن کا زمانہ آنا آخما تووا کی اور اوسپ مینڈل اشٹام کی نظموں کے ذریعے سے۔ آخماتووا کی طویل تر نظمیں ایک اجتماعی نوحے کی انفرادی آوازیں ہیں اور مینڈل اشٹام نے ایک نظم میں اسٹالن کی مونچھوں کا مذاق اڑایا تھا جس کی پاداش میں سائبیریا بھیج دیا گیا جہاں وہ حسرت ناک موت کا شکار ہوگیا۔ مائوزے تنگ کے دور کا ایک اور ہی رُخ ہان لیانکے اور ایلین چانگ کے ناولوں میں ملتا ہے۔ لیانکے ہمارا معاصر ہے اور ناول نگاری میں نئے اسلوب کا موجد__ اس کے ناول ’’لینن کے بوسے‘‘ کا آغازایک معمولی سے قصبے کی اس جدوجہد سے ہوتا ہے کہ لینن کا مقبرہ وہاں منتقل ہو جائے تاکہ زائرین کے آنے سے آمدنی کا ذریعہ پیدا ہوسکے۔ ایلین چانگ کوئی معمولی لکھنے والی نہ تھی۔ یہ ضرور ہے کہ اس کے دونوں اہم ناول سرد جنگ کے دوران کمیونزم دشمن پروپیگنڈا کے طور پر اشرف صبوحی نے اور دھان کا گیت کا ترجمہ شاہد احمد دہلوی نے کیا۔ دونوں ترجمے اپنی جگہ عمدہ ہیں اور پڑھنے کے قابل۔ ایلین چانگ کے دن بھی شاید پھرنے والے ہیں۔ لگ بھگ پچاس برس کے بعد اس کی کتابیں امریکا میں نیویورک ریویو آف بکس جیسے ادارے سے چھپ کر سامنے آئی ہیں تو نقادوں نے ان کو دوبارہ سے سراہا۔ کیا ہی اچھا ہو، اردو کے یہ ترجمے بھی دوبارہ چھپ جائیں۔ اس کام کے لیے اب امریکی امداد کی ضرورت تو نہیں پڑے گی؟

آمروں میں سب سے الگ ڈھنگ کا آمر، یوروپ کے چھوٹے سے ملک البانیہ کا Enver Hoxha جو نظریاتی جکڑ بندی پر سختی سے عمل پیرا تھا (اس کے نام کا تلفّظ میرے اندازے سے انور حوجا کے قریب ہے اور غالباً خواجہ کی بدلی ہوئی مقامی شکل) اور اس کی سیاست کا مطالبہ اسماعیل کا دارے کے ناولوں کے بغیر کہاں مکمل ہوسکتا ہے۔ کا دارے کا ناول ’’خوابوں کا محل‘‘ اس دور کا بڑا عمدہ مرقع ہے اور ایسے ناولوں کی بدولت کادارے اس دور کے بہترین لکھنے والوں میں سے ایک۔ اس کمال کی خبر اگر نوبیل انعام کی کمیٹی کو نہیں ہوئی تو یہ ان کی کوتاہ نظری کے سوا کچھ نہیں۔ بلکہ اس وقت تو جل بُھن کر یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ اگر یہ کمیٹی بین الاقوامی سٹّے بازی اور جنسی جبر میں اس درجے مشغول نہ ہوتی تو کادارے کب کا اس انعام کا حق دار ٹھہر چکا ہوتا۔

غرض سخت سے سخت گیر آمر کی زندگی میں کوئی نہ کوئی ادیب یا شاعر سرایت کردیتا ہے اور اس بُت میں دراڑیں ڈال دیتا ہے۔ جو چاہے اس آمر کو اس وقت دکھائی نہ دیں مگر بعد میں آنے والے خوب اچھی طرح سے دیکھ سکتے ہیں۔ ادیب کی اس کارستانی کے باوجود سب سے عمدہ آمر تاریخ کی کتابوں میں نہیں، تصوراتی ادب میں نظر آتے ہیں، کسی ناول نگار کے تخیّل کے پروردہ۔ ادب کے آمروں کی پورٹریٹ گیلری بنائی جائے تو کیلڈر کی گیلری سے چار ہاتھ آگے ہو گی۔

تاریخ کے اپنے بہرحال چند محدودات ہیں۔ آمریت کے حوالے سے ادب کا مطالعہ تو بیسویں صدی کے ان ناولوں کے ذریعے سے ہوسکتا ہے جو آمروں کے گرد لکھے گئے ہیں۔ بہت ظالم اور سنگ دل ہیں وہ آمر جو ادب کے صفحات میں سانس لیتے ہیں۔ صحیح معنوں میں ڈکٹیٹر لٹریچر یہی ہے جہاں ایک ایک آمر زندہ مرّقع میں ڈھل گیا، اپنے زمانے اور اپنے ملک کی انوکھی داستان کا حامل۔ سیکڑوں نہیں ہزاروں لاکھوں افراد کی زندگیوں سے عبارت، انتشار اور بربریت کے عناصر پر مشتمل۔ ناول پر حاوی مطلق العنان آمر، ان سے میرا تعارف سب سے پہلے لاطینی امریکا کے حیرت خیز ناولوں سے ہوا۔ گابریل گارسیا مارکیز کا ‘Autumn of the Patriarch ہزاروں تفصیلات اور محض ایک طویل جملے کو محیط ناول جس کے پڑھنے میں سانس پھول جاتی ہے۔ ماریو برگز یوسا کا Feast of the Goat جس نے رات کی نیندیں اڑا دیں، تن من میں جیسے آگ لگ گئی۔ کارلوس فوینتیس کا The Death of Artemio Cruz آگسٹو روا باسٹوس کا  I, the supremeاور میگوئیل آستوریاس کا El Senor Presidente لیکن ان سے بھی پہلے Ramon Del Valle-Indan کا کتنی الگ الگ سطحوں پر احساس کو زندہ کرتا ہوا Tyrant Banderas۔ زمانی طور پر شاید یہی ایک ناول اس سلسلے کا نقطۂ آغاز ہے۔ اور انجام کہاں ہے، یہ کس کو خبر ہے؟

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3