بے ادب آمر


وہ اٹھے اور ہماری زندگی میں شامل ہوگئے۔ ہم ان کو روک سکتے تھے اور نہ ان کے نشان مٹا سکتے ہیں۔ ہم ان کے سائے میں پل کر جوان ہوئے ہیں۔ خنجر کی طرح یہ آمر بھی ہمارا قومی نشان رہے ہیں۔ ہماری کیا مجال کہ ان کے لکھے ہوئے یا بولے ہوئے لفظ پر نکتہ چینی کرسکیں۔ ان کی داستان کس قدر طولانی ہے اور کتنی روح فرسا، یہ بات اب سمجھ میں آسکتی ہے کہ ایک نئی کتاب سامنے آئی ہے جس نے ان سب کو سیاسی و معاشرتی مظہر کے ساتھ ساتھ ادبی مظہر کے طور پر بھی (خدایا، ہم پر رحم فرما!) دیکھا ہے اور اس طرح دیکھا ہے کہ دیدۂ عبرت نگاہ کے لیے بڑی گنجائش ہے۔ انگریزی کے مصنف اور تجزیہ نگار ڈینیل کیلڈر (Daniel Kalder) نے اپنی تازہ کتاب کا نام Dictator Literature اس سادگی سے رکھا ہے گویا کوئی نیا براعظم دریافت کرلیا ہو یا پھر کسی نئی صنف اور وضع کو ڈھونڈ نکالا ہو۔ نام کی یہ سادگی بھی لُطف سے خالی نہیں کہ اخبار ’’گارجیئن‘‘ میں مشہور مصنّف ول سیلف کے تبصرے سے ہمیں اس کتاب کی خبر ملی تو داد دیے بغیر نہ رہ سکے کہ ادب کی اس قماش کے لیے انھوں نے Chic-Lit سے قافیہ جوڑتے ہوئے بے جھجک Dick-Lit کا نام دے ڈالا جو میں نے یہاں تو لکھ دیا (کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!) انگریزی اخبار کے لیے اپنے تبصرے میں دہرا نہیں سکا اور اس ذہنی بدہضمی کا شکار ہوگیا جو فقرہ روک لینے سے ہوتی ہے۔ خیر، یہ تو عنوان سخن گسترانہ بن گیا مگر کیلڈر نے جو بات کہی ہے وہ سمجھ میں آتی ہے اور ہم جانتے بھی ہیں لیکن اس طریقے سے ادبی سیاق و سباق میں اصطلاح کی طرح استعمال میں نہیں آئی۔ جواب جاہلاں اور ادب جاہلیہ کی طرح ادب آمراں بھی سہی۔ آخر ہم ان تمام آمروں کا ادب کرتے آئے ہیں۔

ان مُطلق العنان حاکموں کو ان کی بے محابا ہوس اقتدار اور مخالفین کو راستے سے ہٹا دینے میں خون ریزی کو بھی حربے کے طور پر استعمال کرنے یہاں تک کہ منّظم طریقے سے نسل کشی پر اتر آنے کی وجہ سے بیسویں صدی اور ہمارا دور خوب اچھی طرح پہچانتا ہے مگر اس کتاب میں وہ اس ظلم کی وجہ سے نمایاں ہوئے ہیں جو انھوں نے ادب کے نام پر کیا۔ یہ کتاب گویا ایسی دیوار ہے جس پر ان لوگوں کی قد آدم سے بڑی تصویریں آویزاں ہیں__ اسٹالن، لینن، مائو، مسولینی، ہٹلر، قذافی، صدام حسین، کوریا کے کم اور وسط ایشیا کے بعض ایسے نام جو ہمارے یہاں معروف نہیں۔ اپنے طور پر یہ سب اہل قلم ہیں، ادب کے داعی، علم و فکر کے دعوے دار۔ یہ واضح کرتےہوئے کہ اس کی مراد یہاں ان کتابوں سےہے جو آمروں نے لکھی ہیں یا ان کے نام سے منسوب کی گئی ہیں، کیلڈر نے بڑی برجستگی سے لکھ دیا ہے کہ یہ غالباً دنیا کی بدترین کتاہیں ہیں جو عالمِ وجود میں آئی ہیں۔ ان اشخاص کے سیاسی اتار چڑھائو کے پس منظر میں وہ ان کی تحریروں کا ذکر بھی لے آتا ہے جو حیران کن بھی ہے اور دل چسپ بھی۔ لینن اور مائو کی سیاسی تحریریں تو جانی پہچانی ہیں مگر اس کتاب میں صدام حسین کا نقشہ بھی سامنے آتا ہے جو اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں ’’آمریت کے فرائض‘‘ کو نظر انداز کرکے مقبول عام قسم کے رومانی ناول مکمل کرنے میں زیادہ منہمک رہا۔ سیاسی تجزیہ نگار میں ادبی نقاد رل مل جاتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ ان ناولوں میں لکھنے کے ہُنر پر گرفت اتنی ڈھیلی تھی کہ کسی دوسرے شخص کی امداد یا پس پردہ موجود ہونے کا شُبہ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کہانی کا انجام ظاہر ہے۔ کیلڈر نے لکھا ہے:

Reader, they hanged him!

اس طرح ادب کا جُرم بھی ان کے ’’معصوم گناہوں‘‘ میں شامل ہوگیا۔ کتاب میں جابجا اس نے شکوہ کیا ہے کہ یہ سارا مواد کس قدر محنت سے حاصل کیا گیا اور اس کو پڑھنا کتنا مشکل اور صبر آزما عمل رہا۔ اس نے اندازہ لگایا ہے کہ ان آمروں کی تصانیف لاکھوں نہیں کروڑوں کی تعداد میں چھاپی جاتی تھیں اور ان کو باقاعدہ درس کی طرح پڑھایا جاتا تھا۔ لوگ ان سے رُشد و ہدایت حاصل کرتے تھے۔ جبر و آمریت کی یہ کس قدر خوف ناک منزل ہے__ کتاب کا جبر، جب لکھنے والا آمر ہو تو ادب بھی اس کی آمریت کا ایک جزو بن کر رہ جاتا ہے، محض ایک پُرزہ جو غیراہم پھر بھی نہیں۔ کسی اور کو ہو نہ ہو، آمر کو کتاب اور ادب کی اہمیت کا خوب احساس ہے۔

ہٹلر کے لیے جوش ملیح آبادی نے جو الفاظ لکھے تھے، وہ کانوں میں گونج رہے ہیں__ ’’بھیڑیا ہے بھیڑیا ہے بھیڑیا!‘‘ اس کے ساتھ یہ بھی سمجھ میں آرہا ہے کہ بھیڑیا کتابیں بھی لکھتا تھا۔ مسولینی کے ایک ناول کا ذکر یہاں قدرے بہتر میں الفاظ میں ہوا ہے مگر اتنی گرم جوشی کے ساتھ نہیں کہ اس کے پڑھنے کے لیے دل مچل جائے۔ کیلڈر کے تجزیے میں کوئی اہم کتاب قعرِ گم نامی سے نکل کر سامنے نہیں آتی۔ اس طرح ادبی نقدونظر کا بازار ٹھنڈا رہ جاتا ہے۔ کیلڈر کا بیان پُرلطف زیادہ ہے اور بصیرت افروز کم۔ مثال کے طور پر لینن کے بارے میں وہ قیاس کرنے لگتا ہے کہ اگر دور جدید میں ہوتا تو کیا ہوتا اور انٹرنیٹ کے سوشل میڈیا پر کس درجے فعال ہوتا۔ لینن کا دماغ جس کیمیائی حفاظت گاہ میں موجود ہے، اس سے بیدار ہوکر جواب دینے کا موقع پاتا تو عدم برداشت، طنزواستہزاء اور ہر بات میں حرف آخر کہنے کی خواہش کے سبب، آج کی زبان میں ’’ماسٹر ٹرول‘‘ کہلانے کا حق دار ہوتا__ یہ قیاس دل چسپ ضرور ہے مگر مزید دلیل کا محتاج۔ اسی طرح کیوبا کے آمر کاسٹرو کے بارے میں باب بھی شاید عجلت سے لکھا گیا ہے۔ وہ آمر جو مارکیز جیسے ادیب کا دوست رہا، زیادہ تفصیل کا مستحق تھا۔ کتاب کا آخری باب جہاں آج کی دنیا کے حوالے سے دلائل کو سمیٹ کر نتائج اخذ کیے جارہے ہیں، سوچنے پر اکساتا ہے، شاید اس وجہ سے اور بھی زیادہ کہ اس کا استدلال ادھورا نظر آتا ہے۔ دنیا کے حالات اس تیزی سے بدل رہے ہیں کہ وہ بے چارہ کان پر قلم رکھ کر کب تک اس کے پیچھے بھاگتا پھرے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3