حاشر ابن ارشاد بمقابلہ نام نہاد اسلامی طبی ماہرین


ہم جس جامعہ میں اکنامکس کے شعبہ میں زیر تعلیم رہے ان دنوں وہاں ڈگری کے حصول کے لئے فقہ اور علوم عربیہ کے کم وبیش بیس مضامین بھی پاس کرنا ضروری تھا ہمیں بہت ہی قابل اساتذہ سے عربی اور فقہ سیکھنے کا موقع ملا انہی میں سے ایک نہایت قابل استاد ڈاکٹر قاسم اشرف صاحب بھی تھے جن سے ہم نے فقہ کا پہلا کورس پڑھا۔

انہوں نے ہمیں سمجھایا کہ کسی بھی شرعی حکم کے لاگو ہونے کے لیے اس حکم کی حکمت کا نہیں بلکہ ”علت“ کا وجود ضروری ہے جیسا کہ قصر نماز کا حکم تب لاگو ہو گا کہ جب اپنے شہرسے ایک خاص دوری سے زیادہ کا سفر کریں گے اور اگر اس سے کم دوری کا سفر درپیش ہو اور اور چاہے کتنی ہی وقت کی قلت کیوں نہ ہو پوری نماز پڑھنی پڑے گی کیونکہ قصر نماز کی حکمت تو شاید وقت کی قلت ہی ہو مگر قصر نماز کے لاگو ہونے کی علت بہرحال ایک خاص مسافت سے زیادہ کا سفر ہی ہے اسی طرح سے رمضان کا روزہ اس صورت میں قضا کرسکتے ہیں کہ جب ایک خاص مسافت سے زیادہ کا سفر کریں گے جیسے کہ اب اگر آپ اسلام آباد سے ایمریٹس ائرلائن کی انتہائی آرام دہ فرسٹ کلاس میں دبئی جا رہے ہیں تو آپ روزہ چھوڑ سکتے ہیں مگراس گرمی میں اگر پیدل آپ نے مارگلہ کی پہاڑیوں کے پیچھے کسی گاؤں میں جانا ہے تو آپ روزہ نہیں چھوڑ سکتے۔

ڈاکٹر قاسم اشرف صاحب نے جو دوسرا اصول بتایا وہ یہ تھا کہ عبادت کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے اللہ کی خوشنودی کا حصول۔ اب چاہے دنیا اس عمل سے خوش ہو یا ناراض، اس عمل سے بیماری ہو یا تنددستی، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ ایک ذاتی انتخاب ہے کہ آپ مادی پیمانے سے اسے ماپنا چاہتے ہیں یا پھر معبود کی رضا پیش نظر ہے۔ انتخاب آپ کا اپنا ہے کہ آپ اپنا مفاد چاہتے ہیں، دنیا کی خو شی یا اللہ کی خوشنودی۔ اگر آپ کے والدین بھی آپ کو کفر پر مجبور کررہے ہیں اور آپ کو اللہ کی خوشنودی چاہیے تو آپ کو والدین کی ناراضی مول لینے پڑے گی۔

چند دنوں سے سوشل میڈیا پر اک بحث حاشر ابن ارشاد بمقابلہ نام نہاد اسلامی طبی ماہرین چل رہی ہے جس میں حاشر صاحب اس بات پر لوگوں کو قائل کرنے کی انتھک کوشش کرہے ہیں کہ بھئی روزہ ایک عبادت ہے جس کا خالص مقصد اللہ کی خوشنودی ہے اور یہ کوئی الہامی طبی نسخہ نہیں مگر شاید حاشر صاحب کے الفاظ میں وہ تاثیر نہیں جو لوگوں کے دلوں کو پگھلا سکے۔ اب اس دن ٹی وی پر روزے کے فضائل پر طارق جمیل صاحب کا خطاب دکھایا جارہا تھا جب یہی بات وہ ذرا مختلف انداز میں لوگوں کو بتارہے تھے تو مجمع سرشاری سے عش عش کررہا تھا مولانا فرما رہے تھے کہ روزہ وہی مقبول ہے جو خالص اللہ کہ لئے ہے ورنہ یہ اک فاقہ ہے اور کچھ بھی نہیں اور کسی حدیث کا حوالہ دے کر وہ یہ بھی فرما رہے تھے کہ حالانکہ روزہ رکھنے سے روزہ دار کے منہ میں ایک بدبو پیدا ہو جاتی ہے مگر وہ بدبو اللہ کو جنت کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے تو روزہ اس لیے رکھنا کہ اس کے لا محدود طبی فوائد ہیں شاید ایک حماقت ہی ہے۔

مگر حاشر صاحب کا اس بات پر زوردینا کہ وہ لوگ جو روزے کے وجوب کا جواز روزے کے طبی فوائد میں تلاش کر رہے ہیں وہ اپنے آپ کو احمق بھی سمجھیں یہ ایسا ہی ہے کہ ہم فقہی اختلاف پر جنہیں کافر سمجھتے ہیں، ان سے یہ توقع بھی رکھیں کہ وہ اپنے نظریات سے یا تو برات کا اعلان کریں یا پھر چوراہوں میں خود اپنے آپ کو کافر کہنا شروع کر دیں۔
توقع وہی رکھنی چاہیے جو امکانات میں سے ہو اور خواہش کا گھوڑا اگر دستیاب نہ ہو تو چابک لہرانے سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).