سہروردی: پاکستان کا پہلا غدار وزیر اعظم؟


سیاسی حریف کو غدار اور ایجنٹ قرار دینے کی قبیح سیاسی روایت کی داغ بیل لیاقت علی خان نے ڈالی۔ قیام پاکستان کے بعد بحیثیت وزیر اعظم انھوں نے حسین شہید سہروردی کو غدار اور ہندوستانی ایجنٹ کہا۔ ان کے بقول ’’وہ اس قسم کی باتوں کا پرچار کر کے کس کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں؟ بے شک ہمارے دشمنوں نے یہ کتے ہمارے خلاف بھونکنے کے لیے چھوڑ رکھے ہیں۔ یہ لوگ غدار وطن ہیں۔ جھوٹے اور منافق ہیں۔ ‘‘

سہروردی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھیں قائد ملت نے ہی غدار نہیں کہا بلکہ ایوب خان نے بھی انھیں غدار اور ہندوستانی ایجنٹ کہا۔ سہروردی نے اپنے پر عائد الزامات کا نہایت جذباتی پیرائے میں فیلڈ مارشل کو جواب دیا،جس کے آخر میں وہ کہتے ہیں:

’’ اپنے بیان کے پہلے حصے میں آپ نے (ایوب خان) کہا کہ میں ابتدائی طور پر مشرقی پاکستان کی شکست وریخت اور پھر پورے ملک کی تباہی کے درپے ہوں۔ ’’مشرقی پاکستان کی شکست وریخت‘‘ سے آپ کی کیا مراد ہے ؟ کیا میں اس ملک کے حصے بخرے کرنے کی فکر میں ہوں؟ یا پھر آپ کے اس بیان کے ایک دوسرے اقتباس کے مطابق مجھ سے بعید نہیں کہ میں نے پاکستان کے مخالفین سے مالی اعانت قبول کی ہو نیز یہ کہ ایسے عناصر موجود ہیں جو مشرقی پاکستان کی شکست و ریخت کے مقصدِ واحد کے لیے میرا آلہ کار بننے کو تیار ہیں۔ غالباً آپ کا مطلب یہ ہے کہ میں مشرقی پاکستان کو ہندوستان میں مدغم کرنے کے لیے بھارت سے مالی امداد وصول کررہا ہوں۔ جناب صدر! اسے ایک بار پھر دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے اور اللہ ہمارے درمیان خود ہی انصاف کر لے گا۔ اس دنیا میں یا اگلے جہاں میں کیونکہ اگر آپ کے یہی جذبات ہیں تو پھر مجھے زندہ نہیں رہنا چاہیے۔ ‘‘

ستم ظریفی دیکھیے کہ سہروردی پر ملک کے حصے بخرے کرنے کی کوشش کا الزام وہ ہستی لگا رہی ہے جس کا مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بنیادی کردار تھا اور وہ اس حصے کو پاکستان سے الگ کرنے کی خواہش مند تھی۔ ممتاز صحافی سہیل وڑائچ نے ولی خان سے انٹرویو کیا تو انھوں نے بتایا کہ ایوب خان نے ان سے کہا تھا ’’ اگر آپ نے پاکستان بچانا ہے تو جتنی جلدی ممکن ہو مشرقی پاکستان سے جان چھڑا لیں۔ ‘‘

جاوید ہاشمی نے اپنی کتاب ’’ زندہ تاریخ ‘‘ میں لکھا ہے کہ 1968 میں ایوب خان نے انھیں بتایا کہ مشرقی پاکستان جلد ہم سے الگ ہوجائے گا۔ ایوب خان بنگالیوں سے اس لیے بھی ناراض تھے کہ صدارتی انتخابات میں مشرقی پاکستان میں ان کے بجائے فاطمہ جناح کے نام کا ڈنکا بجا۔ صدارتی انتخابات میں ’’محب وطن‘‘ ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو تو مادر ملت کی کردار کشی کر رہے تھے اور ’’غدار‘‘ شیخ مجیب الرحمٰن فاطمہ جناح کے پرجوش حامی تھے۔ ممتاز صحافی اور براڈ کاسٹر علی احمد خاں نے آپ بیتی ’’جیون ایک کہانی‘‘ میں بتایا ہے کہ انھوں نے پلٹن میدان میں ہونے والے جلسے میں شرکت کی جس میں لوگوں کی تعداد اور دیدنی جوش وخروش اس بات کو ظاہر کرتا تھا کہ ابھی بنگالیوں کے ذہن میں علیحدگی کے تصور نے جڑ نہیں پکڑی۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس جلسے میں شیخ مجیب الرحمٰن نے بھی تقریر کی اور کہا کہ مادر ملت کا اتنا بڑا جلسہ دیکھ کر تو ایوب خان ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں گے، پورے مجمع نے ان کے الفاظ دہرائے۔

احمد علی خاں نے ایک اور واقعہ بیان کیا ہے جس سے بنگالیوں کے دل میں محترمہ فاطمہ جناح کے لیے محبت کا اندازہ ہوتا ہے:

صدارتی انتخابات کے بعد صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہو رہے تھے اور بنگالی روزنامہ سنگ باد کے مینجنگ ڈائریکٹر احمد الکبیر نیشنل عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر امیدوارتھے۔ اتفاق سے میجر اسحاق بھی ان دنوں مشرقی پاکستان آئے ہوئے تھے چنانچہ پروگرام بنا کہ ان کی انتخابی مہم میں ہم سب جائیں گے۔ دو گاڑیوں میں بھر کر ہم سارے لوگ روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک جگہ سڑک کٹی ہوئی تھی اور گاڑی کو گزارنے کے لیے تختوں کی ضرورت تھی۔ قرب و جوار کے گاؤں والے جمع ہوگئے تھے اور خاموش کھڑے ہماری پریشانی کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ گاڑی کے ڈرائیور نے جب ان سے تختوں کے لیے کہا تو انھوں نے بغیر کسی تکلف کے پوچھا: کس کی طرف سے آئے ہو؟ ‘‘ جب ڈرائیور نے بتایا کہ فاطمہ جناح کی طرف سے آئے ہیں تو ان میں سے ایک بوڑھے سے آدمی نے بنگالی میں کہا، ’’یہ بولو نا! تمھاری گاڑی کو تو ہم کندھے پر اٹھا کر پار کرا دیتے ہیں۔‘‘ اور دیکھتے دیکھتے تختوں کا انتظام ہو گیا اور دونوں گاڑیاں پار کرا دی گئیں تاہم فاطمہ جناح کے انتخابات کے بعد بنگالی آبادی میں مایوسی جس تیزی سے بڑھی اسی تیزی سے مجیب الرحمٰن اور عوامی لیگ کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ ‘‘

فاطمہ جناح سے پہلے سہروردی وہ کڑی تھے جو ملک کے دو حصوں کو یکجا رکھ سکتی تھی، لیکن اسے بھی ایوب خان نے توڑ دیا۔ سہروردی کو احساس تھا کہ ان کے بعد کوئی ایسی شخصیت نہیں ہو گی جو بنگالیوں کو ملک کے دوسرے حصے سے جوڑے رکھنے میں کامیاب ہوسکے، اس لیے انھوں نے ڈکٹیٹر سے کہا کہ وہ مرنے سے پہلے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان آئینی تصفیہ کرانا چاہتے ہیں لیکن ان کی بات نہیں سنی گئی۔ 1962 کی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگی رہنما یوسف خٹک نے نامور صحافی منیر احمد منیر کو انٹرویو میں بتایا:

’’سہروردی صاحب نے مجھے ایک نہیں دو مرتبہ کہا تھا کہ آپ ایوب خان سے کہیں کہ میں مرنے سے پہلے پاکستان کے لئے ایک آخری خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک Constitutional Settlement (آئینی تصفیہ) ہو جائے۔ ورنہ میرے بعد کوئی ایسی شخصیت نہیں ہو گی جو یہ خدمت انجام دے سکے۔ میں ایوب خاں کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ میں پاکستان میں نہ رہوں تو اس کے بعد جب تک ایوب خاں صدر ہوں میں ملک سے باہر چلا جانے کے لیے بھی تیار ہوں بلکہ وہ اگر دوسری مرتبہ بھی صدر منتخب ہونا چاہیں تو بھی مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ میرے لئے یہی کافی ہے کہ میں پاکستان کے لئے یہ آخری خدمت انجام دے دوں کیونکہ میں دل کا مریض ہوں۔ مجھے پتہ ہے کہ اب میں زیادہ دیر زندہ نہیں رہوں گا لیکن میں پاکستان کے لئے یہ آخری خدمت سر انجام دینا چاہتا ہوں اور مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ ‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).